یومِ استحصال… آزاد کشمیر کی پُکار
وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا آزاد جموں و کشمیر اسمبلی سے چھ ماہ میں یہ دوسرا خطاب تھا۔ وہ اس سے پہلے 5 فروری کو یومِ کشمیر کے موقع پر تشریف لائے تھے، جس کی دعوت دو تہائی اکثریت کے حامل، مسلم لیگ (ن) کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے دی تھی۔ اب بھی وہی ”داعی الی الخیر‘‘ تھے۔ آزاد کشمیر میں راجہ فاروق حیدر کی حکومت کا یہ آخری سال ہے، اگلے سال جولائی میں نئے انتخابات ہونا ہیں۔ پاکستان میں کوئی اکھاڑ پچھاڑ نہ ہوئی (جس کا دعویٰ آئے روز ہمارے سیاسی پنڈت کرتے رہتے ہیں) تو آزاد کشمیر میں ان انتخابات کے وقت پاکستان میں وزیر اعظم عمران خان کی حکومت ہو گی۔ کہا جاتا ہے‘ آزاد کشمیر کے انتخابات میں، انتخابی عمل یا انتخابی نتائج کی ترتیب میں نہیں، الیکٹ ایبلز کی سیاسی وابستگیوں کے ردوبدل میں اسلام آباد کے اثرات بھی بروئے کار آتے رہے ہیں۔ آزاد کشمیر کے گزشتہ انتخابات کے وقت اسلام آباد میں نواز شریف کی حکومت تھی لیکن تب ”پاناما‘‘ سر اٹھا چکا تھا۔ کچھ اور وجوہات کی بنا پر یہ مقتدرہ کے لیے بھی نامطلوب ہو چکی تھی۔ آزاد کشمیر کی انتخابی مہم میں جناب عمران خان اور نوجوان بلاول بھٹو زرداری خود میدان میں اتر آئے تھے اور اُدھر سردار فاروق حیدر کی زیرِ قیادت مسلم لیگ (ن) کی انتخابی مہم کیلئے اسلام آباد سے جو کمک پہنچی، وہ پرویز رشید اور آصف کرمانی پر مشتمل دو رکنی ٹیم تھی، اس کے باوجود مسلم لیگ (ن) چالیس میں سے اکتیس سیٹیں جیت گئی۔
18 اگست 2018 سے اسلام آباد میں وزیر اعظم عمران خان کی حکمرانی ہے۔ زرداری (اور بلاول) کی پیپلز پارٹی کیلئے بھی ان کی ناپسندیدگی چھپی ہوئی نہیں لیکن نواز شریف کی مسلم لیگ تو انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ گزشتہ برس 5 اگست کو مقبوضہ جموں و کشمیر کے خلاف مودی کی عیاں جارحیت ہو یا پاکستان میں کورونا کا چیلنج، عمران خان صاحب ”کرپٹ‘‘ مسلم لیگی قیادت سے ہاتھ ملانا تو کجا، اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ آزاد کشمیر میں فاروق حیدر کی حکومت کے ابھی تین سال باقی تھے، ”حکمت‘‘ کا تقاضا تھا کہ اسلام آباد کی خوشنودی کیلئے نواز شریف سے Political Distancing اختیار کر لیتے‘جس طرح کورونا سے بچنے کیلئے Social Distancingکی حکمت عملی مفید اور ضروری قرار پائی تھی لیکن فاروق حیدر کی نواز شریف کے ساتھ وفاداری اور اظہارِ وفاداری میں کوئی فرق نہ آیا۔ ریاستی تعلقات کی نزاکتوں کا ادراک رکھنے والے وزیر اعظم آزاد کشمیر نے اسلام آباد اور مظفر آباد میں ورکنگ ریلیشن شپ متاثر نہ ہونے دی۔ اس میں کچھ کریڈٹ وزیر اعظم عمران خان کا بھی بنتا ہے کہ اسلام آباد نے مظفر آباد کیلئے مسائل پیدا نہ کئے ۔
راجہ فاروق حیدر آدابِ میزبانی کے ساتھ معزز مہمان کے سامنے حالِ دل کہنے کا ہنر بھی خوب جانتے ہیں۔ اس میں اشعار کا بر موقع اور بر محل استعمال بھی سونے پر سہاگے کا کام دیتا ہے۔ اس کے لیے وہ زیادہ تر کلامِ فیض سے کام لیتے ہیں۔ گزشتہ بار ”نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں‘‘ کو اپنے احساسات و جذبات کی ترجمانی کے لیے منتخب کیا اور گفتگو کا اختتام وزیر اعظم پاکستان کو مخاطب کرتے ہوئے اس شعر کے ساتھ کیا تھا ؎
وقت نے دی ہے تمہیں چارہ گری کی مہلت
آج کی رات مسیحا نفساں آج کی رات
تب انہوں نے مودی کے جارحانہ اور احمقانہ طرزِ عمل اور کشمیر کی نازک صورتحال کے پیشِ نظر پاکستان میں قومی اتحاد و یکجہتی کی ضرورت پرزور دیتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان سے گزارش کی تھی کہ اس حوالے سے اپنا کردار ادا کریں، ”خود کو اوپر کریں، اپنا دامن وسیع کریں، بازو پھیلائیں‘ Reconciliation کی طرف جائیں۔ ٹاک شوز میں لڑائی جھگڑے بند کروائیں کہ تقسیم در تقسیم کا یہ عمل رُکے اور قومی اتفاق کی فضا پیدا ہو‘‘۔ جس کا جواب انہیں ان الفاظ میں ملا ”پلیز مجھے ان لوگوں سے مفاہمت کے لیے نہ کہیں جنہوں نے ملک کو مقروض اور بدحال کر دیا‘ میری کسی سے ذاتی دشمنی نہیں لیکن میں اپنے گھر میں چوری کرنے والوں سے دوستی کیسے کر لوں؟‘‘ فاروق حیدر کے اشعار کا جواب خان صاحب نے بھی ایک شعر کے ساتھ دیا:
مفاہمت نہ سکھا، جبرِ ناروا سے مجھے
میں سربکف ہوں، لڑا دے کسی بلا سے مجھے
5 اگست کے ”یومِ استحصال‘‘ پر بھی فاروق حیدر نے فیض ہی کا سہارا لیا۔ مقبوضہ کشمیر میں جانثاری کے بے مثال واقعات کے حوالے سے ”ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے‘‘ والی نظم پڑھی۔ ”قتل گاہوں سے چن کے ہمارے علم اور نکلیں گے عشاق کے قافلے‘‘ پر پہنچے تو آواز بھرا گئی۔ سردار عتیق نے اپنے خطاب میں نام لئے بغیر بھٹو صاحب کو تنقید کا ہدف بنایا تھا کہ انہوں نے اندرا گاندھی کے ساتھ معاہدے میں جموں و کشمیر کو عالمی تنازع کی بجائے ”دوطرفہ مسئلہ‘‘ تسلیم کر لیا اور ”سیزفائر لائن‘‘ کو ”کنٹرول لائن‘‘ میں بدل دیا۔ اس پر راجہ فاروق حیدر کا کہنا تھا کہ ہم کشمیریوں کو، پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت پر تنقید سے گریز کرنا چاہیے یا پھر پرویز مشرف کا ذکر بھی کرنا چاہیے تھا جن کے دور میں مسئلہ کشمیر کو سب سے زیادہ نقصان پہنچاکہ انہوں نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پس پشت ڈال کر ”آؤٹ آف باکس‘‘ کے نام پر کئی فارمولے پیش کئے (جو ناقابلِ قبول بھی تھے اور ناقابلِ عمل بھی)۔ اسی دور میں ہندوستان نے کنٹرول لائن پر باڑ لگا دی۔ حریت کانفرنس میں انتشار کے بیج بوئے گئے، یہاں انہوں نے ساحر لدھیانوی کو وسیلۂ اظہار بنایا:
تم کبھی اپنے کئے پر بھی نظر ڈالو گے؟
تم نے کانٹوں کے عوض سرو و سمن بیچے ہیں
تم نے تاریخ کے سینے میں سناں گاڑی ہے
تم نے بے خوف شہیدوں کے کفن بیچے ہیں
وزیر اعظم آزاد کشمیر کی وزیر اعظم پاکستان سے درخواست تھی کہ وہ کشمیر کے حوالے سے حکمتِ عملی اور فیصلہ سازی میں کشمیریوں کو بھی اعتماد میں لیں جواس مقدمے کے تیسرے فریق ہیں۔ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان زمین کا جھگڑا نہیں‘ یہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کا مسئلہ ہے‘ نہرو نے بھی اقوام متحدہ میں جس کا وعدہ کیا تھا اور اقوام متحدہ کی قراردادوں میں بھی جس کے لیے پختہ عزم کا اظہار ہے۔ انہوں نے کہا، دنیا میں کشمیر کے مسئلے پر ”میر ی بات‘‘ جس توجہ سے سنی جائے گی، کسی اور کی بات اتنی توجہ حاصل نہیں کر پائے گی۔ انہوں نے یاد دلایا، 1955 میں وزیر اعظم چودھری محمد علی کے دور میں لاہور کی کشمیر کانفرنس میں قائد حزب اختلاف حسین شہید سہروردی کی قرارداد اتفاق رائے سے منظور کی گئی تھی‘ جس میں آزاد کشمیر میں ایک بامقصد، بااختیار اور باعمل حکومت کے قیام پرزور دیا گیا تھا۔ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے واے حسین شہید سہروردی، چودھری محمدعلی کے بعد وزیر اعظم بنے۔ راجہ فاروق حیدر نے کہا: یہ وہی سہروردی تھے جو کہا کرتے تھے‘ مشرقی اور مغربی پاکستان میں رابطے کے دوہی ذریعے ہیں، ایک وہ خود اور دوسرا پی آئی اے۔ سہروردی اگلے جہان چلے گئے اور ادھر پی آئی اے کا بھی بھٹہ بیٹھ گیا۔ وزیر اعظم پاکستان سے ان کی در خواست تھی کہ وہ ایسی ٹیم تشکیل دیں جو پاکستان کو اقتصادی بھنور سے نکالے اور اسے اقتصادی ترقی کے راستے پر ڈالے کہ سیاسی و اقتصادی لحاظ سے مستحکم پاکستان ہی مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے مؤثر کردار ادا کر سکتاہے۔
وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا: حقیقی لیڈر اپنی قوم میں اتحادواتفاق پیدا کرتا ہے۔ اس کیلئے انہوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام اتحاد و اتفاق کا حوالہ دیا اور پھر قائداعظم اور نیلسن منڈیلا کی مثال لائے۔ وہ کہہ رہے تھے ”حقیقی لیڈر معاشرے کو تقسیم نہیں کرتا۔ نفرت پھیلا کر ووٹ نہیں لیتا بلکہ قوم میں اتحادواتفاق پیدا کرتا ہے‘‘… تیری آواز مکے اور مدینے۔