شودہا ساڈا وزیر اعلیٰ
تاریخ کا سب سے تلخ سبق یہ ہے کہ بنی نوع انسان نے تاریخ سے رتی بھر سبق حاصل نہیں کیا۔ خاص طور پر حکمرانوں نے۔ ہر آنے والا حکمران یہ سمجھتا ہے کہ اس کے پیشرو احمقِ اعظم تھے، بے وقوف تھے اور عقل سے عاری تھے جبکہ میں عقل مند، سمجھدار، نابغہ اور ہوشیار ہوں۔ میں ہر اس مشکل مرحلے سے اپنی سمارٹنیس کے طفیل گزر جائوں گا جہاں مجھ سے پہلے والے پھنس گئے تھے۔ انسان کو اگر اپنی عقلمندی، ہوشیاری، سمجھداری کے ساتھ ساتھ مقدر کا دھنی ہونے کا بھی گمان ہو تو پھر سمجھیں سونے پر سہاگہ والی بات ہے۔ میرے پیارے عثمان بزدار کو اپنی اور کسی چیز پر اتنا یقین ہو یا نہ ہو، اپنے مقدر کے دھنی ہونے کا تو یقین بہرحال ہے ہی‘ بلکہ ان کو کیا؟ پوری دنیا کو ان کے مقدر کا دھنی ہونے کا یقین تو تھا ہی، لیکن گزشتہ دو سال کی ان کی محیرالعقول کارکردگی کے باوجود پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر برقرار رہنے کے بعد تو سب کو حق الیقین ہو گیا ہے کہ وہ مقدر کے دھنی ہیں۔
میرے جیسے بعض سر پھرے پہلے دن سے ان کی صلاحیتوں کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتے آ رہے ہیں لیکن عمران خان صاحب کے کان پر جوں بھی نہیں رینگ رہی۔ خان صاحب کا یہ تو اختیار تھا کہ وہ ایک گمنام سے شخص کو، جس کی ذہنی استعداد بطور منتظم اوسط درجے سے بھی کم تھی‘ صوبہ پنجاب کا چیف ایگزیکٹو لگا دیتے، لیکن انہوں نے وزارت عظمیٰ کے منصب پر حاصل اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے انہیں وسیم اکرم پلس بھی قرار دے دیا۔ اپنے اختیارات سے تجاوز کا لفظ میں اس لیے استعمال کر رہا ہوں کہ بطور وزیراعظم انہیں وسیم اکرم جیسے نابغہ کرکٹر سے نہ صرف تشبیہ دی بلکہ اس سے اوپر لے جا کر وسیم اکرم کی Supperlative ڈگری دیتے ہوئے وسیم اکرم پلس قرار دے دیا۔ وسیم اکرم نے عمران خان سے مروت، پرانے تعلقات اور اپنا سینئر کرکٹر کپتان سمجھ کر اس پر احتجاج تو شاید نہ کیا ہو لیکن انہیں اس توہین کا سوچ کر کئی دن نیند بہرحال نہیں آئی ہو گی۔
تازہ والا رولا یہ ہے کہ پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کی دعویدار اس حکومت کے دور میں ہمارے پیارے بزدار صاحب کو ایک ہوٹل کو شراب کا پرمٹ جاری کرنے میں اپنا اختیار اور دبائو استعمال کرنے کے الزامات کا سامنا ہے، لیکن اصل پھڈا یہ ہے کہ اس اختیار اور دبائو کے درمیان میں کہیں سے بدبخت پانچ کروڑ روپے بھی آن ٹپکے ہیں۔ شاہ جی کہتے ہیں کہ یہ الزام سرے سے جھوٹ اور بدنیتی پر مبنی ہے‘ بھلا وزیراعلیٰ کو صرف پانچ کروڑ روپے کی خاصر اپنی نیک نامی برباد کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ میں نے کہا: شاہ جی! کون سی نیک نامی؟ سردار صاحب پر اس قسم کے الزامات تو تب سے لگ رہے ہیں جب وہ تحصیل تونسہ ٹرائیبل کے ناظم تھے۔ پورے علاقے میں طورخان اور عمر بزدار کے قصے مشہور ہیں۔ پوسٹنگوں اور ٹرانسفروں پر پھیلنے والی ناگفتہ بہ کہانیوں کا ذکر ہر خاص و عام کی زبان پر ہے۔ تونسہ اور نواحی علاقوں میں زمینوں کے قبضوں کی کہانیاں اب کوئی راز کی بات نہیں رہ گئیں۔ ٹھیکوں میں حصہ داری اتنی مشہور ہوئی کہ پرانے ٹھیکیداروں کو سائیڈ لائن کرکے نئے ٹھیکیداروں کا کندھا استعمال کیا جا رہا ہے۔ ویسے بھی بزدار ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں واقع چار تمنوں میں سب سے ماٹھا تمن تھا اور بزدار تمندار اپنے علاقے کے تمنداروں میں سب سے خستہ حال تمندار تھے۔ شاہ جی! آپ نوٹ کر لیں میں نے بزدار تمندار کے لیے لفظ ہے استعمال نہیں کیا بلکہ تھا استعمال کیا ہے کیونکہ اب صورتحال تبدیل ہو چکی ہے۔
میں نے کہا شاہ جی! قبلہ آپ نے کبھی یونی کارن کا نام سنا ہے؟ شاہ جی نے زوردار طریقے سے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا: سنا ہے‘ یہ وہ کمپنی ہے جس کی ملکیت لاہور ایئرپورٹ پر بننے والا ہوٹل ہے جس کے شراب کے پرمٹ کے جاری ہونے پر یہ سارا پھڈا پڑا ہے۔ میں نے کہا: شاہ جی! آپ کی معلومات کی داد دینے کو دل کرتا ہے؛ تاہم میں نے یونی کارن پریسٹیج لمیٹڈ کا نہیں صرف خالی والے یونی کارن کا پوچھا ہے کہ آپ کو پتا ہے یہ کیا ہوتا ہے؟ شاہ جی نے مجھے گھورا اور کہنے لگے: تم ہمیشہ اپنے ایک دوست کی طرح گھٹیا حرکت کرتے ہو‘ گھر سے کوئی مشکل سی چیز کے بارے میں پڑھ کر آ جاتے ہو اور شرفا کو تنگ و پریشان کرتے ہو۔ میں نے کہا: شاہ جی! یونی کارن کے بارے میں تو آپ کے بچے بھی جانتے ہوں گے۔ شاہ جی نے کہا: اب تم چھوڑنے پر آگئے ہو۔ میں نے کہا: شاہ جی آپ اپنے کسی بچے کو فون کر لیں بلکہ کسی کو چھوڑیں، سب سے چھوٹے والے کو کر لیں۔ شاہ جی نے مجھے بعد میں بے عزت کرنے کی نیت سے فوری طور پر اپنے چھوٹے بیٹے کو فون کیا اور پوچھا کہ یہ یونی کارن کیا ہوتا ہے؟ جواباً دوسری سے جو کہا گیا وہ تو نہیں سنا مگر شاہ جی نے دو تین منٹ فون کان سے لگاکر دوسری طرف سے ہونے والی گفتگو سنی اور پھر فون بند کرکے کہنے لگے:آپ ٹھیک کہتے تھے‘ میرے چھوٹے بیٹے کو بھی یونی کارن کے بارے میں معلوم ہے۔ پھر شرمندگی مٹانے کے لیے کہنے لگے: دراصل انگریزی میڈیم کے بچوں کو اس قسم کی چیزوں اور کہانیوں کا پتا ہوتا ہے‘ ہم ٹاٹ سکول کے پڑھنے والوں کو اس قسم کی خرافات کا کیا پتا؟ میں نے پوچھا: شاہ جی! بیٹے نے کیا بتایا ہے؟
شاہ جی کہنے لگے: وہ کہتا ہے یہ ایک اساطیری اور دیومالائی چوپایہ ہے، جس کی شکل گھوڑے جیسی اور رنگ سفید ہوتا ہے۔ ہمیں یہ جانور پہلے پہل سندھ کی قدیم تہذیب میں نظر آتا ہے۔ یہ جنگلی وحشی گھوڑا ہے جس کی نشانی اس کی پیشانی پر موجود ایک عدد بل کھاتا ہوا لمبا نوکدار سینگ ہے۔ میں نے کہا: شاہ جی اللہ آپ کی خیر کرے‘ یونی کارن پریسٹیج لمیٹڈ اپنے عثمان بزدار کے لیے وہی دیومالائی یونی کارن ثابت ہو گی جس کے ماتھے پر لمبا بل کھاتا ہوا نوکدار سینگ ہے۔ محض پانچ کروڑ روپے والا یہ نوکدار سینگ ان کو لے دے جائے گا۔ لیکن عمران خان کو کون سمجھائے کہ ویسے تو آپ کی مرکزی حکومت نے بھی سوائے مایوسی کے کچھ نہیں دیا، لیکن عثمان بزدار کی ناکامی کا سارا ملبہ بھی انہی پر گر رہا ہے کہ پوری روئے ارض پر وہ واحد شخص ہیں جو عثمان بزدار کو اس وزارت اعلیٰ پر قائم و دائم رکھنے کے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ شاید میں پہلے بھی یہ بات لکھ چکا ہوں کہ ایک بہت بڑے انتظامی افسر کی عمران خان صاحب سے ملاقات ہوئی تو اس میں عثمان بزدار کی کارکردگی پر بات ہوئی۔ اس دوران عمران خان نے اس افسر کو کہاکہ عثمان بزدار کو میں نے اس کی ایمانداری کی وجہ سے وزارت اعلیٰ پر برقرار رکھا ہوا ہے۔ اس سرکاری افسر نے کہا: سر! گستاخی معاف آپ اس بارے میں بھی کسی ایجنسی سے رپورٹ لے لیں۔ خان صاحب خاموش ہو گئے۔ ایک بار پھر کچھ عرصے کے بعد اسی موضوع پر بات ہوئی تو اس افسر نے پوچھا کہ سر! وہ آپ نے کوئی رپورٹ لی؟ جواباً دوبارہ خاموشی نے یہ تو بتا دیاکہ خان صاحب بزدار کے بارے میں کچھ مزید سننا نہیں چاہتے؛ تاہم یہ جواب نہیں ملاکہ ایجنسیوں سے پوچھا گیا یا نہیں؟ اور اگر پوچھا گیا تھا تو کیا جواب ملا تھا؟
شاہ جی کہنے لگے: تم خواہ مخواہ شودہے، ساڈے وزیر اعلیٰ کے پیچھے پڑے ہوئے ہو۔ میں خاموش ہو گیا۔ اب اور کیا کرتا؟ غیر سرائیکی قارئین کے لیے عرض ہے کہ سرائیکی میں شودہے سے مراد پنجابی والا شوہدا نہیں بلکہ سرائیکی میں شودہا کسی بے ضرر، معصوم، بیبے اور بے چارے شخص کے لیے استعمال ہوتا ہے۔