یہ اندازِ گفتگو کیا ہے؟
یہ طالب علم تنہائی میں سوچتا ہے: علماء سے بڑھ کر کون ہو گا جو قرآن کو سمجھتا ہے۔ پھر معاشرے میں اضطراب کیوں؟
سوشل میڈیا ایک جنگل ہے۔ خس و خاشاک کی بھرمار۔ دور کہیں کوئی گلِ سرسبد، کوئی نخیلِ خوش رنگ، گمانِ غالب مگر یہی کہ یہ جنگل ہے۔ کس سے کہیں اور کس منہ سے کہیں کہ اسے جنگل بنانے میں سب سے بڑا حصہ اہلِ مذہب کا ہے۔ یہ اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھانا ہے کہ لاکھ گناہگار ہونے کے باوصف، میں بھی اپنا شمار اہلِ مذہب میں کرتا ہوں۔ ایمان رکھتا ہوں کہ اس عالم کا ایک پروردگار ہے، جس نے اپنے آخری رسول سیدنا محمدﷺ کے توسط سے ہم تک اپنا دین پہنچایا اور ہمیں ایک روز اس کے حضور میں کھڑا ہونا ہے۔
مذہبی اختلافات پر ویڈیوز ‘وائرل‘ ہیں۔ وائرل کا مطلب ہے گھرگھر پھیل چکیں‘ جیسے وائرس پھیلتا ہے۔ اس کے اثرات کسی بیماری کے وائرس سے کم نہیں۔ ملت کے لیے مہلک، جیسے کورونا جسم کے لیے۔ فرقوں اور مسلکوں میں بٹی اس قوم کو سنبھلے کیلئے، معلوم نہیں مزید کتنے چرکوں کی ضرورت ہے؟ جسدِ ملت تو پہلے ہی ‘تن ہمہ داغ داغ شد‘ کا منظر پیش کررہا ہے۔
تاریخ کے ایک باب میں اختلاف ہوگیا۔ اختلاف بھی ایساکہ معلوم و مشہور۔ دو آرا صدیوں سے چلی آتی ہیں۔ دونوں آرا کے حق میں ایک طرح کی کتب سے حوالے۔ اس بار تو اختلاف کرنے والے بھی ایک مسلک کے۔ ویڈیوز دیکھیں تو انگلیاں کبھی کانوں میں ٹھونسیں اور کبھی دانتوں میں دابیں۔ کنکھیوں سے یہ بھی دیکھاکہ کوئی بچہ تو نہیں سن رہا۔ ایسے الفاظ کہ کہیں دہرانے پڑ جائیں تو ہم جیسے گناہگاروں کو بھی دانتوں پسینہ آجائے۔
چہرہ میرے لیے شناسا نہیں تھا۔ معلوم ہوا کوئی پیر صاحب ہیں۔ گویا خانقاہی نظام سے تعلق ہے۔ تصوف کے فلسفیانہ پہلو سے قطع نظر، خانقاہ تو ہماری عظیم الشان تہذیب کی ایسی نشانی ہے جہاں اس لب و لہجے کا کبھی گزر نہیں تھا۔ مٹھاس اور وہ بھی ان کے لیے جن کا وجود ہی تلخی میں گندھا ہوا ہو۔ محبت اور وہ بھی ان کے لیے جن کے بغل میں چھری ہو۔ ہابیل کے پیروکار‘ جس نے اپنے بھائی سے کہہ ڈالا کہ تو چاہے تو مجھے مار ڈالے مگر میرے ہاتھ تمہارے لہو سے کبھی رنگین نہیں ہوں گے۔ قرآن تو ایک طرف، کیا یہ لوگ اپنی خانقاہی روایت سے بھی واقف نہیں؟
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن
یہ کسی ایک کی بات، نہیں بہت سوں کا قصہ ہے۔ تاثر یہ ہے کہ سب کچھ دین کی حمیت میں ہورہا ہے۔ یہ مقدس شخصیات سے اظہارِ محبت ہے۔ سوال یہ ہے کہ جس دین کی حمیت میں یہ گوہر افشانی ہو رہی ہے، کیا اس نے اظہارِ اختلاف کے باب میں کوئی ہدایت نہیں دی؟ جن مقدس شخصیات کی محبت میں زبانیں دراز ہیں، کیا اس باب میں ان کا کوئی اسوہ موجود نہیں؟ اگر ہے تو کس لیے؟ کیا یہ ان علما اور پیروں کے لیے نہیں ہے؟
پیغمبر موجود ہوتو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حق اسی کے ساتھ ہوتا ہے۔ منکرین، حق پر نہیں ہو سکتے۔ جب آخری رسولﷺ کا انکار کرنے والوں سے واسطہ پڑا تو اللہ تعالیٰ نے اہلِ اسلام کو نصیحت کی: ”اور بھلائی اور برائی دونوں یکساں نہیں ہو سکتے۔ تم برائی کو اس چیز سے دفع کرو جو زیادہ بہتر ہو۔ تم دیکھو گے کہ جس کے اور تمہارے درمیان عداوت ہے، گویا وہ ایک سرگرم دوست بن گیاہے۔ اور یہ دانش نہیں ملتی مگر انہی کو جو ثابت قدم رہنے والے ہیں۔ اور یہ حکمت نہیں عطا ہوتی مگر ان کو جو بڑے نصیبوں والے ہوتے ہیں‘‘۔ (حٰم السجدہ 41:34,35)
ایک اور موقع پر فرمایا: ”وہ اس معاملے میں تم سے نزاع کی راہ نہ پائیں اور اپنے رب کی طرف بلاتے رہو۔ بے شک تم ہی سیدھی راہ پر ہو۔ اور اگر وہ تم سے جھگڑا کریں تو کہہ دو کہ اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ تم کر رہے ہو۔ اللہ فیصلہ کرے گا تمہارے درمیان اس چیز کا جس میں تم اختلاف کر رہے ہو‘‘۔ (الحج 22:67-69) اور یہ دیکھیے، قرآن مجید نے یہ کیا کہا: ”اپنے رب کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دو اور ان کے ساتھ اس طریقے سے بحث کرو جو پسندیدہ ہو‘‘۔ (النحل 16:125)۔ ایک اور مقام پرارشاد ہوا: ”اور جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیات میں مین میکھ نکالتے ہیں تو ان سے کنارہ کش ہو جاؤ۔ یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں مصروف ہو جائیں‘‘۔ (الانعام6:68)
یہ ہدایت ان لوگوں کے بارے میں ہے جو پیغمبر کے بالمقابل کھڑے تھے۔ مسلمان گروہوں کا اختلاف، اس اختلاف سے تو سنگین تر نہیں ہو سکتا جو اہل اسلام اور اہلِ کتاب میں ہے۔ قرآن مجید نے بتایا کہ اہلِ کتاب سے مجادلہ کی نوبت آئے تو وہ انداز اپناؤ جو بہتر ہو: ”اہلِ کتاب کے ساتھ اس طریقے سے بات کرو جو بہتر ہے۔ بجز ان کے جو ان میں سے ظالم ہیں (ان سے کسی بحث کی ضرورت نہیں)‘‘۔ (العنکبوت 29:46)۔
یہ قرآن مجید ہے۔ خدا کی آخری الہامی کتاب۔ اسی سے ہم جانیں گے کہ دینی حمیت کیا ہے؟ یہی بتائے گا کہ مقدس شخصیات کے احترام کے لیے ہمیں کیا کرنا ہے۔ یہی ہمیں اختلاف کے آداب بتائے گا۔ واقعہ یہ ہے کہ جنہوں نے ہدایت کے لیے قرآن مجید سے رجوع کیا، وہ مختلف لوگ تھے، امام مالکؒ جیسے۔ مفتی محمد شفیع نے ابن عبدالبر کے حوالے سے امام کا ایک فرمودہ نقل کیا ہے: ”علم میں جھگڑا و جدال نورِ علم کو انسانوں کے قلب سے نکال دیتا ہے۔ کسی نے سوال کیا: ایک شخص جس کو سنت کا علم حاصل ہو، کیا وہ حفاظتِ دین کے لیے جدال کر سکتا ہے؟ فرمایا:”نہیں‘ بلکہ اس کو چاہیے کہ مخاطب کو صحیح بات سے آگاہ کرے۔ اگر وہ قبول کرے تو بہتر ورنہ سکوت اختیار کرے اور جھگڑے سے پرہیز کرے‘‘۔
یہ ہیں وہ لوگ جن کے دل قرآن مجید اور سنت کی روشنی سے منور تھے۔ امام مالکؒ نے اختلاف کیا اور اتنا کیاکہ ایک فقہی مذہب کے بانی ہو گئے لیکن اس اختلاف کو اس طرح نبھایا کہ مخالفین بھی نام لیتے تو احترام سے سر جھکا لیتے۔ ابن عینیہ امام مالک کے ہم عصر تھے۔ انہوں نے امام شافعیؒ کے سامنے ایک حدیث کا ذکر کیا اور کہاکہ امام مالک اس معاملے میں آپ سے اختلاف کرتے ہیں۔ امام نے کہا: ”مالک سے مجھے ملا رہے ہو؟ کہاں میں اور کہاں وہ، دونوں کا کیا مقابل؟‘‘
سوچتا ہوں: خانقاہوں کا ماحول کب سنت کے نور سے روشن ہوگا؟ علما کب ادب الاختلاف کے لیے قرآن مجید کی طرف رجوع کریں گے؟ کب اختلاف کو نقطہ نظر کے دائرے میں قید رکھا جائے گا اور شخصیات کے باب میں کلام سے گریز کیا جائے گا؟ کب تفسیر وکلام اور حدیث و فقہ کے باب میں کلام کرتے ہوئے، باہمی احترام کوقدر مانا جائے گا؟ کب تاریخ کو دین سے الگ کیا جائے گا؟ یہ سوال برسوں سے جواب طلب ہیں۔ ان کی سنگینی مگر اب بڑھ گئی ہے۔ سوشل میڈیا نے اسے وائرل کر دیا ہے۔ اب پیروں اور علما کی بات سننے کیلئے خانقاہ اور محراب و منبر کی طرف رجوع کی ضرورت نہیں۔ لوگ گھر گھر سن رہے ہیں۔ ہم بالفعل سوشل میڈیا کے جنگل میں رہتے ہیں جہاں گلاب کم ہی کھلتے ہیں۔ خس وخاشاک ہیں اور انہیں اگانے میں اہلِ مذہب اب سرِفہرست ہیں۔
مولانا عبدالرؤف ملک یہ سب دیکھتے ہیں اور کڑھتے ہیں۔ انہیں اکابر علما اور مشائخ کی یاد آتی ہے جو اخلاق کو دین کا جوہر سمجھتے تھے۔ وہ کہتے ہیں: ”تم لکھنے والوں کو کیا ہوگیا ہے؟ تم ان موضوعات پر قلم کیوں نہیں اٹھاتے؟‘‘ میں نے قلم اٹھا لیاکہ مولانا کی حکم عدولی محال تھی مگر میں جانتا ہوں کہ اس نقارخانے میں طوطی کی آواز کوئی نہیں سنتا۔ مولانا تو علما و مشائخ کی مجلس میں بیٹھتے ہیں۔ وہ تواُن سے سوال کرسکتے ہیں۔