کالم

محبتوں میں ہر ایک لمحہ وصال ہوگا……

Share

کیمپس یونائیٹڈ، سٹاف کالونی،نیو کیمپس پنجاب یونیورسٹی لاہور کے مکینوں کے بچوں کی فٹ بال ٹیم کا نام ہے۔ یہ کب بنی ، کن کن مراحل سے گذری ، ختم ہو ہو کر زندہ ہو جاتی رہی یا زندہ زندہ رہ رہ کر مٹ جاتی رہی، کسی کو صحیح طور پر کچھ یاد نہیں، البتہ اس سے وابستہ رہنے والے چالیس ،پچاس کے پیٹے کے بعض دوست فخر یہ بتاتے ہیں کہ اُن کا شمار ٹیم کے بانی کھلاڑیوں میں ہوتا ہے۔ گویا بیس پچیس برس کی تو ہے ہی نا۔ ہم لوگ لاہور شفٹ ہوئے تو چھ ماہ کا عرصہ ہوسٹل نمبر دس کے کالا پانی میں گذارنے کے بعد نیو کیمپس کے مختلف گھروں سے ہوتے ہواتے بی بلاک میں آن بسیرا ہوا۔ یہاں سے کم و بیش ایک فرلانگ کے فاصلے پر وائس چانسلر ہاوٴس اور ایگزیکٹو کلب کے بیچ کاوسیع وعریض میدان اس ٹیم کی جولانگاہ ہے۔ بارش، آندھی، حکام ِ بالا کے احکام پر مالیوں وغیرہ کی طرف سے گراوٴنڈ میں چھوڑے گئے پانی سے وجود آمدہ کیچڑ کے دنوں کے سوا سارا سال یہاں روزانہ پریکٹس یا مقابلہ جاتی میچ ہوا کرتے۔
عبدالرشید میرے تین بیٹوں میں منجھلا ہے، میٹرک کر چکا تو کبھی کبھار اُس کے مذکورہ گراوٴنڈ میں پائے جانے کا سُراغ ملتا ۔ پھر سب سے چھوٹے بیٹے حسنین نے بھی بڑے بھائی کی تقلید میں وہاں جانا شروع کردیا۔ وقت گذرنے کے ساتھ کبھی کبھار کی بجائے دونوں بھائیوں کی گراوٴند میں حاضری باقاعدہ ہوتی گئی۔ شروع شروع میں بچے عام لباس اورجوتوں کے ساتھ میچ کھیلا کرتے، پھر باقاعدہ کٹس اور بوٹس کا اہتمام ہونے لگا۔ گہرے رنگوں والی ٹی شرٹس پر انٹر نیشنل ٹیموں کے کھلاڑیوں کی طرح نمبر بھی لکھے جانے لگے۔ پہلے پہل نسبتاً بڑے بچوں کی ایک ہی ٹیم ہوتی تھی، پھر درمیانی عمر اور بالاخر چھ سات سال کی عمر کے بچوں کی ٹیم بھی بن گئی۔ مزید نظم و ترتیب آئی تو ٹیم کا باقاعدہ کپتان ، خزانچی اور مینیجر بھی مقرر ہوئے ۔ اگلے مرحلے میں یہ عہدے انتخابات کے جمہوری طریقہ کار سے طے ہونے لگے۔ اِدھر اُدھر سے ٹیمیں میچز کھیلنے آنے لگیں اور کیمپس یونا ئیٹڈ بھی قرب و جوار کی ٹیموں کے ساتھ پنجہ آزمائی کے لئے کیمپس سے باہر بھی جانے لگی۔ کیمپس گراوٴنڈ میں منعقد ہونے والے میچوں کا باقاعدہ چیف گیسٹ ہوا کرتا اور نقدانعامات کے ساتھ جیتنے والی ٹیموں کو ٹرافیاں بھی دی جانے لگیں، غرضیکہ فٹ بال ٹیم ہونے کے سارے قاعدے قانون بروئے کار لائے جانے لگے۔ مقامی رہنے کے باوجود ٹیم کو بین الاقوامی تشخص دینے کی راہ یوں نکالی گئی کہ گذشتہ ورلڈ کپ کے مقابلوں کے دوران میں ٹیم نے از خود ہی جرمنی کی ٹیم کو رسماً اپنی فیورٹ ٹیم قرار دے کر اُس کی کٹ کی طرح اپنے سب کھلاڑیوں کے لئے کٹیں بنوائیں اور اُنہیں پہن کر کیمپس میں ہی کسی نہ کسی دوست کے گھر ، البتہ اکثر ہمارے ہاں ،رات دیر گئے تک میچز دیکھے جاتے رہے۔ جرمنی کی ٹیم کی جیت پر خوشی اور شکست پر مایوسی انتہا پر ہوا کرتی۔ جرمنی کے فائنل جیتا توہمیں لگا کہ کیمپس یونائٹڈ جیت گئی ہے۔
کچھ عرصہ پہلے میں شام کو گھر آیا تو یہ دلچسپ منظر دیکھ کر حیران رہ گیاکہ گھر کے ڈرائنگ روم میں مختلف سن و سال کے تیس پینتیس بچے مستطیل شکل میں صفیں بنائے نہایت سکون سے بریانی کھا رہے ہیں۔ پتہ چلا کیمپس یونائیٹڈ کی تشکیل نو کی سالگرہ منائی جا رہی ہے۔ اُسی دن ہی واضح ہوا کہ ٹیم کی کمان عبدالرشید نے سنبھالی ہوئی ہے، چنانچہ فنکشن بھی اُسی کے گھر میں ہو رہا ہے، میزبان بھی وہی ہے۔ اکٹھے فٹ بال کھیلنے والے بچوں میں ایسی سچی دوستی وجود میں آئی کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ بڑی ٹیم کے بچے اب سکول ، کالج کے مراحل گذار کر یونیورسٹیوں میں آ گئے تھے، رویے بھی زیادہ میچور ہوئے تو ایک دوسرے کا دُکھ سکھ بانٹنے کا شعور بھی پختہ ہو تا گیا۔ عملی مثال ٹیم کے دو کھلاڑیوں بلال احسن اور ابوذر کے والد ڈاکٹر احسن اختر ناز کی شدید علالت اور شیخ زید ہسپتال میں داخل رہنے کے دنوں میں دیکھی گئی۔ بچے اپنی پڑھائی سے واپس آتے ہی سیدھا اُن کے گھر کو بھاگتےیا ہسپتال حاضری دیتے، ڈاکٹر ناز کی خیر خیریت پوچھتے، بلال اور ابوذ ر کو تسلی دیتے ، اُن کے ساتھ میڈیکل سٹورز سے دوائیاں لاتے، ڈاکٹروں اور کمپاوٴنڈروں کو مریض کے پاس لے جاتے اور کبھی کبھی ہسپتال میں اُن کے ساتھ بھی رہ جاتے۔ احسن اختر ناز نے خالِق حقیقی کے فرمان کو لبیک کہا تو اُن کا جسدِ خاکی بھی انہی بچوں نے وصول کیا، تجہیز و تکفین کے کٹھن مراحل بھی انہی نے ذمے داری سے نبھائے۔ بعد کے دنوں میں بھی بڑوں سے بڑھ کر ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔
عبدالرشید نے پنجاب یونیورسٹی سے قانون میں بی ایس آنرز مکمل کیا تو اپنے دو دوسرے دوستوں اُسامہ نصیر اور اعزاز ملک کی طرح ولایت کو جانے کی ٹھانی۔ داخلہ پراسیس شروع ہونے اور اس کی روانگی تک کے چھ آٹھ ماہ کےعرصے میں ، کیمپس یونائیٹڈ ٹیم کے ممبرز اکٹھے ہی رہے ،کبھی ایک کے گھر کبھی دوسرے کے۔ برطانیہ میں عبدالرشید کے داخلہ ، اُس کی فیس جمع ہونے، کنسلٹنٹ کے ساتھ امور طے کرنے ، پاسپورٹ بنوانے، ویزا لگوانے کے لئے میر پور ،آزاد کشمیر ،جانے کے معاملات تک مجھے اور میرے گھر والوں کو کچھ پتہ نہیں، کیا ،کب اور کیسے ہوا ، بس اتنا علم ہے کہ سب کچھ خوش اسلوبی سے ہوا۔ نتیجتاً عبدالرشید بلوچ ایڈوکیٹ ۴ فروری بروز ہفتہ صبح پی آئی اے سے لاہور براستہ اسلام آباد برمنگھم اور وہاں سے بذریعہ کار کونٹری پہنچ گیا۔
زندگی کے اس موڑ پر کبھی ماضی پر نظر پڑتی ہے تو میں خود کو حیرت و تعجب کےایک طوفان میں گھرا پاتا ہوں۔ اپنی دو بیٹیوں اور تیں بیٹوں میں سے اس عبدالرشید کو میں نے سب سے مختلف پایا ہے۔ مجھے جب سے یاد پڑتا ہے اور یہ اُس وقت کی بات ہے جب وہ دو اڑھائی سال کا تھا کہ بخار کی وجہ سے اُسے انجیکشن لگوانے جانا پڑا ۔ یہ دیکھ کر پریشانی ہوئی کہ انجیکشن لگوانے پر عبدالرشید ذرا بھی نہیں رویا ،حتی کہ ناگواری سے مُنہ تک نہیں بسورا۔ پھر ہمیشہ ایسا ہی ہوتا رہا۔ اس پر مستزاد یہ کہ اسی دو اڑھائی سال کی عمر ہی میں اُس کی ماں یامیں جب کبھی اس کو کسی بات پر غصّے گھورتے یا ڈانٹتے تو وہ اُس دن ہمارے ہاتھ سے نہ کچھ کھاتا نہ لیتا تھا۔ جب ہم لاہو ر شفٹ کر آئے تو اکثر اوقات والدہ صاحبہ کو گاوٴں فون کیا کرتے، ہم سب تسلی سےبات کر کے اُن سےاطمینان سے خدا حافظی کرتے، جب کہ اپنے بچپن کے رویوں سے بالکل الٹ ، عبدالرشید اپنی دادی سے بس دو لفظ بولتے ہی رونے لگ جاتا اور فون رکھ دیتا تھا۔ حرا سکول میں چھٹی جماعت میں داخل ہوتے ہی اُس نے ضد لگالی کہ حفظ کرنا ہے، چنانچہ ایک سال سکول کی تعلیم چھوڑ کے وہیں سے ہی حفظ قرآن مکمل کیا۔ داڑھی آنے لگی تو خود میری ذات اور اپنے بڑے بھائی نوید خان کے بر عکس سنت نبوی کی پیروی کی اور با ریش ہو گیا۔
کیمپس یونائیٹڈ فٹ بال ٹیم دو عشروں سے زیادہ کے عرصے سے قائم تھی، مگر بس نام کی حد تک ،ان بچوں نے یونیورسٹی کے ملازمین اور اساتذہ کے بچوں پر مشتمل اس کو سائینسی بنیادوں پر ایک ماڈرن ٹیم کی شکل دی۔کپتان بیرون ملک جانے لگا تو باقاعدہ انتخابات سے طیّب وڑائچ کو نیا کیپٹن منتخب کیا گیا اور رسمی تقریب میں مشعل اُس کو تھمائی گئی۔ اس فٹ بال ٹیم کی وجہ سے کیمپس کے مکینوں کے بچوں کو ایک صحت مند سرگرمی کا موقعہ ملا اور وہ کسی غلط لت میں پڑنے سے محفوظ رہے، پھر اُن میں نظم وضبط پیدا ہوا اور لڑکپن ہی میں ٹیم ورک کی صورت کام کرنے کی تربیت ہوئی۔ میں پچھلے دو ہفتے خوشگوار حیرت سے اس بات کا مشاہدہ کرتا رہا کہ کیمپس کے چھوٹے بچے اپنے والد یا والدہ کے ساتھ عبدالرشید سے الوداعی ملاقات کرنے ہمارے گھر آتے رہے۔ باپ بیٹے کا آخری بیچ جس نے رات بارہ بجے کے قریب ہمیں اپنی پر محبت ملاقات سے نوازا دوست گرامی اور شعبہٴ سیاسیات کے نامور اُستاد پرفیسر شبیر خان اور اُن کے بیٹے حمزہ شبیر خان تھے۔ پھر عبدالرشید کی روانگی سے پہلے کی دو تین راتیں تو کئی دوستوں نے یہیں پر گذاریں ، ملتان سے حسن امتیاز اور اور داکٹر نعمان رسول بھی خدا حافظی کے لئے آ گئے۔ ۴ فروری کی عصر گراوٴنڈ میں تینوں ٹیموں کی موجودگی میں کپتان صاحب کو گارڈ آف آنر نما خراج تحسین پیش کیا گیا۔ جمعہ اور سنیچر کی درمیانی رات صبح تک ڈرائنگ روم میں محفل جمی ، احمد سعید مہر نے اپنی خوبصورت آواز میں فیضان دانش کی غزل سنا کے سب کو غمزدہ کردیا۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ کیمپس یونائٹڈ کی نشاة ثانیہ میں مجھ سمیت کسی ایک بڑے نے بھی کوئی کردار ادا نہیں کیا ، جو بھی کیا بچوں نے از خود کیا ، قابل تعریف کیا اور کبھی کسی کا کہیں سے کوئی گلہ نہیں آیا ،شکایت نہیں ہوئی۔
میں جب اپنے ارد گرد لوگوں سے اپنی نفی اور اپنی قوم و ملک کی خیالی و فرضی خامیوں اور نقائص کی باتیں سنتا ہوں تو دل میں درد اٹھتا ہے۔ مجھے ان بچوں کی فٹ بال ٹیم کی تشکیل اور اسے کامیابی کے ساتھ چلانے سے اندازہ ہوا کہ ہماری آئندہ نسلیں ہم سے زیادہ با صلاحیت، خود اعتماد اور مستعد ہیں۔ ان کا مستقبل ہم سے گئی گنا زیادہ روشن اور شاندار ہے جو خو د پاکستان کے شاندار مستقبل کی دلیل ہے۔ ہمیں نہ مایوس ہونا چاہئیے اور نہ مایوسی پھیلانی چاہئیے۔
اس ٹیم کے تین بچے اعلٰیٰ تعلیم کے لئےولایت میں ہیں، سرخرو ہو کے لوٹیں گے تو ہمارے ڈرائنگ روم میں پھر سے آواز گونجے گی:
محبتوں میں ہر ایک لمحہ وصال ہوگا یہ طے ہوا تھا
بچھڑ کے بھی ایک دوسرے کا خیال ہوگا یہ طے ہوا تھا