موٹروے ریپ کیس: ’مرکزی ملزم کا ڈی این اے پروفائل محفوظ نہ ہوتا تو شاید یہ کیس کئی سال تک حل نہ ہو پاتا‘
’اگر ہمارے ڈیٹا بیس میں موٹروے ریپ کیس کے مرکزی ملزم کا ڈی این اے پروفائل محفوظ نہ ہوتا تو ملزمان کی شناخت کے حوالے سے کافی مشکلات درپیش ہو سکتیں تھیں اور شاید یہ کئی سال تک حل ہی نہ ہو پاتا۔‘
یہ کہنا ہے پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی (پی ایف ایس اے) کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر محمد اشرف طاہر کا جنھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ ایک مشکل کیس تھا لیکن خوش قسمتی سے ان کے ڈیٹا بیس میں سنہ 2013سے اس کیس کے مرکزی ملزم کا پروفائل موجود تھا۔
انھوں نے کہا کہ پروفائل کی موجودگی سے مرکزی ملزم کی جلد شناخت ممکن ہو پائی اور پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادار ے ملزمان تک جلد پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
ڈاکٹر محمد اشرف طاہر کے مطابق اس کیس میں چونکہ دو ملزمان ملوث تھے اس لیے انھیں (پی ایف ایس اے) پتہ تھا کہ اگر ایک پکڑا گیا تو دوسرا خود بخود پکڑا جائے گا۔
موٹروے ریپ کیس کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ اس افسوسناک حادثہ کی اطلاع فرانزک ایجنسی کو جمعرات کی صبح پانچ بج کر پانچ منٹ پر ملی۔
’اطلاع ملنے کے دس منٹ کے اندر اندر ہماری ٹیم ہیڈ کوارٹر سے جائے وقوعہ کے لیے روانہ ہو گئی اگلے آدھے گھنٹے میں ٹیم جائے وقوعہ پر موجود تھی۔‘
کرائم سین سے کیا ملا؟
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹراشرف طاہر نے بتایا کہ انھیں کرائم سین سے صرف خون کے دھبے ملے جو گاڑی کا شیشہ توڑتے وقت مرکزی ملزم کا نکلا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ ’ڈی این اے کا سیمپل، متاثرہ خاتون کا لباس اور دیگر اشیا ہمیں میڈیکو لیگل والوں سے جمعرات سہ پہر تین بجے تک مل گئیں تھیں جن کی مدد سے ہم جمعہ کی صبح 10 بجے تک اس کیس کے مرکزی ملزم کا ڈی این اے پروفائل بنانے میں کامیاب ہو چکے تھے۔‘
ڈاکٹر اشرف طاہر نے بتایا کہ ’ہر پہلو کی چھان بین کے بعد ہم نے پنجاب ہوم ڈیپارٹمنٹ کے سیکریٹری کو 10 ستمبر (جمعہ) کی رات آٹھ بجے تک اس کیس کے مرکزی ملزم سے متعلق تمام دستیاب تفصیلات شیئر کر دیں تھیں۔‘
ڈی این اے پروفائل بننے میں کتنا وقت درکار ہوتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں ڈائریکٹر جنرل پی ایف ایس اے نے بتایا کہ ہر کیس میں یہ چیز مختلف ہوتی ہے، اس کے لئے آپ کوئی ایک پیمانہ نہیں بنا سکتے کہ ایک کیس میں اتنا اور دوسرے میں اتنا وقت لگا۔
ان کے بقول ہر کیس کی نوعیت مختلف ہوتی ہے کیونکہ جائے وقوعہ سے ملنے والے تمام شواہد یا سیمپل کلین نہیں ہوتے۔
’اس کیس میں ہمیں ایمرجنسی تھی، حکومت کو ایمرجنسی تھی کہ ایک دردناک واردات ہوئی ہے اس لیے ملزمان کو جلد سے جلد ڈھونڈا جائے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس مقصد کے لیے اس کیس میں ہماری خصوصی ٹیم بنائی گئی تھی۔ جونہی مرکزی ملزم کا پروفائل بن گیا ہم نے سیکریٹری صاحب کا بتا دیا تھا، جنھوں نے آئی جی اور متعلقہ اداروں کو آگاہ کر دیا تھا۔ ہمارا کام پروفائل بنا کر اپنے ڈیٹا بیس سے میچنگ (ملانا) کرنا تھا اور جونہی میچنگ ہو گئی ہم نے متعلقہ ذمہ داران کو آگاہ کر دیا۔‘
ڈاکٹر اشرف طاہر نے بی بی سی کو مزید بتایا کہ موٹروے ریپ کیس قصور کے زینب کیس اور چونیاں ریپ کیسیز سے زیادہ پچیدہ کیس تھا۔
انھوں نے کہا کہ پولیس اور دیگر اداروں کے تعاون سے ہی اس اندھے کیس کی واردات کو انجام دینے والے ملزمان کو ہم جلد سے جلد ڈھونڈنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
’پولیس اور فرانزک ایجنسی مختلف سمتوں میں دیکھ رہے تھے‘
’ہم (فرانزک ایجنسی) اور پولیس والے دونوں مختلف سمتوں میں دیکھ رہے تھے کیونکہ ہمیں یہی شک تھا کہ ملزمان اردگرد کے قریبی علاقوں کے ہی ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ رات کا وقت تھا تو انھیں میں سے کسی نے یہ واردات کی ہو گی۔‘
انھوں نے بتایا کہ قدرتی طور پر ہمارا سارا فوکس اردگرد کے علاقوں پر ہی تھا تاہم دونوں ادارے ہی مکمل طور پر غلط سوچ رہے تھے۔
ڈاکٹر اشرف طاہر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ملک میں ڈی این اے اور فنگر پرنٹس کا ڈیٹا بیس بنانا مقدمات کو منطقی اجمان تک پہنچانے کے لیے کتنا ضروری ہے۔ ’جتنا زیادہ ڈیٹا بیس ہو گا اس قدر زیادہ چانس ہوں گے کہ ملزمان کو جلد سے جلد ڈھونڈ کر سزا دلوائی جا سکے۔‘
ڈاکٹر اشرف طاہر نے بتایا جب سے فرانزک سائنس ایجنسی بنی ہے تب سے لے کر اب تک ہمارے پاس جتنے کیسیز کا بھی ریکارڈ آیا ہے وہ محفوظ کر لیا گیا ہے۔
حکومت اور پارلیمان کی توجہ اس اہم مسئلے کی طرف مبذول کرواتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ تمام متعلقہ فورمز سےدرخواست کرتے ہیں کہ جتنی جلد ہو ڈیٹابیس بنائیں اور اس کے لیے ضروری قانون سازی بھی کی جائے۔
’حکومت ہر حال میں یہ قانون بھی بنائے کہ کن کن لوگوں سے ہم سیمپل لے سکتے ہیں۔ ان قوانین کے بننے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پولیس کو بھی سانس لینے میں آسانی ہو گی کیونکہ اس طرح ان پر بھی غیر ضروری دباؤ بڑھتا ہے۔‘
’وہ بھی ہمارے طرح کے انسان ہی ہیں، نا کہ جادوگر۔ اگر تفتیش کرنی ہے تو یہ سب جدید طریقے ہیں اس لیے قانون بنے اور یہ سب چیزیں لائی جائیں۔ ڈی این اے کا قانون بننا ہے پھر اس کے بعد سیمپل اکھٹے کر کے ڈیٹا بیس بنانا ہے اور جتنا بڑا ڈیٹا بیس ہو گا اتنی ہی جلد ملزمان قانون کی گرفت میں آ جائیں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ اس مقصد کے لیے حکومت کو چاہیے کہ کچھ فنڈز مختص کرے تاکہ ہم وہ پروفائل بنا سکیں۔ ’ہو سکتا ہے کہ جب ڈیٹا بیس بن جائے تو وہ کیس جو پہلے حل نہیں ہو سکے وہ بھی حل ہو جائیں۔‘
ڈی این اے پروفائلنگ کیسے ہوتی ہے؟
ڈی این اے پروفائلنگ کیسے ہوتی ہے اس کے حوالے سے ڈاکٹر اشرف طاہر نے بتایا کہ پہلے ڈی این اے کو نکالا جاتا ہے، پھر اس کی مقدار دیکھی جاتی ہے جس کے بعد پی سی آر کا عمل مکمل کیا جاتا ہے اور تب جا کر اس کا پروفائل بنتا ہے۔
’یہ ایک پورا پراسس ہے مگر اس کیس کے سلسلے میں اس کام پر کم سے کم وقت لگایا ہے لیکن جیسے ہی پروفائل بن گیا تو پھر کراس میچ تو چند منٹوں کا کام ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’اس کیس میں بھی جیسے ہی مرکزی ملزم کا ڈی این اے پروفائل بن گیا تو بعد میں جب دوسرے ملزم کا سیمپل آیا تو چند ہی گھنٹوں میں یہ کراس میچ کر گیا۔‘
ڈی جی فرانزک ایجنسی کے مطابق جب سے فرانزک سائنس ایجنسی بنی ہے تب سے اب تک ان کے ڈیٹا بیس میں مجرمان اور ملزمان کو ملا کر کُل 27 ہزار افراد کا ڈی این اے ڈیٹا محفوظ ہے، جن میں تقریبا 19 ہزار ایسے افراد کا ڈیٹا ہے جو سزا یافتہ ہیں جبکہ آٹھ ہزار کے قریب مشتبہ افراد یا ملزمان کا ریکارڈ بھی ڈیٹا بیس میں موجود ہے۔
کام میں درپیش دشواریوں پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر اشرف طاہر کا کہنا تھا کہ ایجنسی کو تھوڑا مزید سٹاف، ساز و سامان اور دیگر ضروری اشیا چاہییں تاکہ وہ ڈیٹا بیس بنانے کے عمل کو جاری رکھے۔
سالانہ کیسیز کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ ان کے پاس سالانہ 15 سے 20ہزار کے قریب ایسے کیسیز آتے ہیں جن کی رپورٹس بنا کر وہ متعلقہ اداروں کو بھیج دیتے ہیں۔ ’ہمارا کام ہے رپورٹ دینا، سزا دلوانا ہمارا کام نہیں۔‘
موٹروے ریپ کیس کی میڈیا پر ہونے والی کوریج پر ڈاکٹر اشرف طاہر شکوہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کسی بھی ایسے کیس میں میڈیا ہائپ بننے سے کیس خراب ہوتا ہے۔ ’میڈیا ہائپ سے ادارے ہمارے پاس آتے ہیں اور درخواست کرتے ہیں کہ جلدی کر دیں،جلدی کر دیں! تھوڑا سا وقت دینا چاہیے۔ بھئی ہر ٹاسک کے لیے کم سے کم ایک مختص وقت ہوتا ہے، اس سے پہلے تو کچھ نہیں ہوسکتا نا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ایسے اہم کیسیز میں غیر ضروری دباؤ ڈالنا غلط ہے تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ پریشر نہیں لیتے بلکہ متعلقہ حکام کو بتا دیتے ہیں اس کام میں کم سے کم کتنا وقت لگے گا۔