پچاس برس قبل لوگ کیا سمجھتے تھے کہ نصف صدی بعد دنیا کیسی ہو گی؟
یہ نہ تو کوئی ٹائم کیپسیول ہے جو کھدائی کے دوران ہمیں ملا اور نہ ہی عاشقوں کو سمندر سے ملنے والی وہ بوتل جس میں دہائیوں بلکہ صدیوں پہلے کی باتیں لکھ کر بند کر کے پانی میں بہا دی جاتی ہیں۔ اور نہ ہی یہ زمین سے ملنے والی کوئی نوادرات کی دیگ ہے۔ تو پھر یہ ہے کیا۔
یہ ہے بی بی سی اُردو سروس کو لکھے گئے وہ خطوط جو اس کے سامعین نے 50 برس قبل ایک مقابلے کے سلسلے میں ارسال کیے تھے اور انھیں ڈھونڈ نکالنے والے ہیں ہمارے سینیئر اور ہر دل عزیز ساتھی راشد اشرف۔
اور جس مقام سے انھوں نے یہ خطوط ڈھونڈ نکالے ہیں وہ کوئی غار یا سمندر نہیں ہے بلکہ وہ ہے ان کا ایٹک یا بالائی خانہ، جہاں انھوں نے یہ خطوط پچاس برس سے سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں۔
راشد صاحب کی نفاست اور بہترین براڈکاسٹنگ کے تو ہم ہمیشہ سے ہی قائل ہیں لیکن انھوں نے ان خطوط کو جس سلیقے سے سنبھالا ہے اس کے لیے بی بی اُردو سروس اور اُن کو پیار کرنے والے ان کے سامعین ہمیشہ ہی ان کے احسان مند رہیں گے۔
یہ خطوط بی بی سی کو کیوں لکھے گئے؟
بی بی سی نے آج سے پچاس سال پہلے ایک مقابلہ کروایا تھا جس میں اس نے اپنے سامعین سے پوچھا تھا کہ ان کے خیال میں پچاس سال بعد دنیا کیسی ہو گی اور پھر یوں ہوا کہ جیسے لوگ پچاس سال کے سفر کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ انھوں نے کسی سائنس فکشن فلم کی طرح پلک جھپتے ہی آدھی صدی کا سفر طے کر لیا۔ راشد صاحب اس کی تفصیل کچھ یوں بتاتے ہیں:
’اپریل 1969 میں ’جہاں نما‘ پروگرام شروع کیا گیا تھا۔ ابتدا میں یہ صرف 15 منٹ کا تھا لیکن چند مہینے کے اندر ہی اس کا دورانیہ بڑھا کر آدھ گھنٹہ کر دیا گیا۔ اس موقع پر سنہ 1969 کے آواخر میں یہ مقابلہ کرایا گیا تھا کہ ’پچاس سال کے بعد دنیا کیسی ہو گی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اچھے مضامین کے لیے پانچ ریڈیو سیٹ بطور انعام مقرر کیے گئے تھے۔ لگ بھگ ایک ہزار جوابات آئے تھے جس میں سے بیس، پچیس منتخب کیے گئے تھے۔‘
ان خطوط میں پاکستان اور ہندوستان کے طول و عرض سے بی بی سی کے چاہنے والوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا اور اکثر نے تو اپنی سوچ کو اتنا بلند کر لیا تھا جتنا اُس سال یعنی جولائی 1969 میں چاند پر پہلی مرتبہ جانے والی چاند گاڑی نے کیا تھا۔
چاند سے لے کر مریح اور زہرہ کے سفر کی باتیں ہوئیں، سماجی اور ثقافتی زندگی میں یکسر تبدیلی کا ذکر ہوا، کمپیوٹر، بولنے والی مشینیں، اڑتی ہوئی کاریں، جنگیں، نیو یارک پر حملے، کیمیا اور طب کے علوم کی حیرت انگیز ترقی، نت نئے نظریات، 200 سال کی اوسط عمر، سمندر میں فصلیں، ڈسٹنٹ لرننگ یا گھروں میں بیٹھ کر تعلیم کا حصول، ماحولیاتی اور جغرافیائی تبدیلی، غرض یہ کہ دنیا کے عروج کے بعد زوال کی بھی منظر کشی کی گئی۔
حیرت انگیز طور پر اکثر لوگوں نے سنہ 2020 میں دنیا کی آبادی کا بھی کم و بیش درست اندازہ لگا لیا، یعنی سات ارب یا اس سے تھوڑا زیادہ۔ تو یہ تھے بی بی سی اُردو کے سننے والے جو نہ صرف بی بی سی اردو کو پسند کرتے اور اس سے مستفید ہوتے تھے بلکہ ادارہ بھی ہمیشہ ان سے کچھ نہ کچھ سیکھتا رہتا۔
بقول راشد اشرف ’ان خطوط کو دیکھ کر معاً خیال ہوا کہ اس وقت کے معاشرے میں اپنی زبان کے استعمال کی کیسی اچھی صلاحیت لوگوں میں موجود تھی اور طویل مضمون میں بھی اپنی زبان سے کام لینے میں کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی تھی۔‘
ایک اور خوشی کی بات جو خطوط دیکھ کر سامنے آئی وہ یہ تھی کہ مقابلے میں خواتین نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور مستقبل کی دنیا کی بہت خوبصورت منظر کشی کی تھی۔
کچھ خطوط کے عکس
مظفر علی کاظمی، پشاور
’ویتنام اور مشرقِ وسطیٰ کے مسائل حل ہو چکے ہیں گے لیکن چین اور امریکہ میں کشمکش کا بہت امکان ہے۔ خوراک عالمگیر مسئلہ بن جائے گا۔۔۔ انسان مریخ تک پہنچ جائے گا۔ رنگین ٹیلی ویژن تمام دنیا میں مل سکے گا اور دنیا انتہائی قریب آ جائے گی۔ مذہب سے بیگانگی عام ہو گی۔ علاوہ ازیں ایشیا اور افریقہ ترقی کی انتہائی منزلوں پر ہوں گے اور سب سے بڑی بات تو یہ کہ بی بی سی قائم رہے گا۔‘
نسیم ریحانہ، اسلام آباد
’اکیسویں صدی دراصل جسم کے آرام اور دماغ اور ہاتھوں کے مسلسل رقص کی صدی ہو گی۔ اگر 20ویں صدی کو پہیے کی صدی کہا جائے تو اکیسویں صدی کو بٹن کی صدی کہنا بیجا نہ ہو گا۔‘
’ہمیں اپنی آبادی سے گھبرا کر چاند پر جانے کی ضرورت نہ ہو گی۔ کیونکہ انسانی نسل پر تحقیق کرنے والے اس مقام تک پہنچ چکے ہوں گے جب حضرتِ حوا کو کس دوسری ہستی کے لیے کسی تخلیقی کرب سے بھی گزرنا نہیں پڑے گا، بلکہ یہ کام بھی مشینیں ہی سر انجام دیں گی اور انسان کی انسانی اور حیوانی خواہشات کی تکمیل کے لیے بھی مشینیں حاضر ہو گی۔‘
’اکیسویں صدی کے لوگ بڑے فخر سے تاریخ کے صفحات کا حوالہ دیتے ہوئے یہ انکشاف کریں گے کہ پچھلے زمانے کے لوگ مختلف مذاہب کے پیرو کار تھے اور ان کا بھی خیال تھا کہ کائنات کسی خدا نے بنائی ہے۔‘
’یہ بات بھی فیصلہ کن ہے مشرق کے بیشتر ممالک بھی بالکل آج کی طرح کل بھی بھاری قرضوں اور بڑے امدادی سامان کے سہارے ترقی کے پرخار راستوں پر گھسٹ رہے ہوں گے۔‘
شاہین رضا صدیقی، رحیم یار خان
’آج دنیا کے تمام قبرستانوں میں جلسے ہوئے، سرمایہ داری نظام میں بھوک سے مرنے والوں کی قبروں پر پھول چڑھائے گئے اور انھیں مظلوم قرار دیا گیا۔‘
عائشہ حلیم، بھوپال
’آج سائنسدان اپنے نت نئے تجربات، تحقیقات اور اختراعات کی روشنی میں آنے والے برسوں میں انسانی فلاح و بہبود کے کاموں کی جو آگہی دیتے رہتے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آج کا انسان پچاس سال بعد مشین بن چکا ہو گا۔ باالفاظ دیگر اس کی جگہ مشین لے چکی ہو گی۔‘
’مصروف زندگی کے پیشِ نظر ابتدائی تعلیم کے لیے چلتے پھرتے سکول، ریل گاڑیوں اور موٹروں میں مخصوص منظم ادارے اور سٹاف حلقہ وار ہر گھر میں علم کی روشنی کی کرنیں پھیلائیں گے۔‘
’نئی تہذیب اور ترقی سے جگمگاتی اس جنت نما دنیا میں اخلاقی اقدار کی کمی کے باعث آئے دن انسانیت سوز واقعات ہونا ایک معمولی سے بات بن جائے گی۔ قتل و غارت، لوٹ مار، ڈاکہ زنی اور اغوا کی وارداتیں، کھلم کھلا چور بازاری و رشوت ستانی اور ایسی بے شمار بدعنوانیاں اور دوسرے اخلاقی جرائم جو روزہ مرہ کی زندگی کا معمول بن چکے ہوں گے کیا انسانی تہذیب پر بدنما داغ نہیں۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ انسان کی یہ تہذیب اپنے ہاتھوں آپ خودکشی کرے گی۔۔۔ اس کے علاوہ سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی، مشینی دور کا مصنوعی ماحول ۔۔۔ نت نئے جراثیم سے انسان نئی نئی بیماریوں کا شکار ہو سکتا ہے۔‘
حنیف باوانی رنگونی، کراچی
’ٹیپ ریکارڈ سننے کے بعد مجھے پتہ چلا کہ میں پچاس سال پیشتر ایک مہلک اور لاعلاج بیماری میں مبتلا تھا اور مجھے منجمد کر دیا گیا تھا۔ اب مجھے صحت مند کر دیا گیا ہے۔‘
’دل گردے وغیرہ تو پچاس سال پہلے ہی بدلے جاتے تھے مگر اب پاگل، خبطی اور ذہنی مریضوں کے دماغ کھوپڑی سے نکال انھیں درست کر کے دوبارہ لگایا جاتا ہے یا اس کی جگہ دوسرے انسان کا یا ایک خاص مادے سے تیار ہوا مصنوئی دماغ لگایا جاتا ہے۔‘
’واپسی پر میں نے ڈاکٹر سے کہا کہ کاش مجھے منجمد نہ کیا گیا ہوتا۔ کیا میرا پچاس سال پرانا دماغ جدید دور کا ساتھ دے سکے گا؟ تو ڈاکٹر نے ہنستے ہوئے کہا ’تمہیں منجمد کرتے ہوئے اس وقت کے ڈاکٹروں کی کم علمی کی وجہ سے تمہارا دماغ بگڑ گیا تھا، لہذا ہم نے اسے پہلے ہی بدل دیا ہے۔‘
راحیلہ ممتاز، کوہاٹ
آج 2019 ہے۔ میں اس صدی کے ایک غریب ترین گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں۔ میں جس بلڈنگ میں رہتی ہوں اس کی 80 منزلیں ہیں اور اس بلڈنگ میں 500 گھرانے رہتے ہیں۔۔۔ اوپر کی منزل میں ایک بڑا میدان ہے اور نیچے کی منزل میں نہریں بہتی ہیں۔ میں جس کوارٹر میں رہتی ہوں یہ تین کمروں، ایک باورچی خانہ اور ایک بیت الخلا پر مشتمل ہے۔
’ہم بوقتِ ضرورت ان سب کو صرف ایک بٹن دبا کر ایک حال میں تبدیل کر سکتے ہیں۔۔۔۔ ہمارے چار نوکر ہیں لیکن ان میں سے ایک بھی انسان نہیں ہے، مگر وہ شکل و صورت، قد و قامت اور لباس میں بالکل انسانوں سے مشابہ ہیں۔‘
’میں اس زمانہ سکول کی ایک ہیڈ مسٹرس ہوں۔ ہمارے سکول کی ایک عمارت میں چار شفٹیں 24 گھنٹوں میں چلتی ہیں۔ جس میں ہر شفٹ کا سٹاف علیحدہ ہوتا ہے۔۔۔ میرے میز کے ایک حصے پر ایک ٹیلی فون سیٹ پڑا ہے، جس پر میں اپنے سکول کے ہر حصے کا ہر وقت بیٹھے بیٹھے معائنہ کرتی رہتی ہوں۔ اور ان کی آواز صاف سن سکتی ہوں۔ اس کے علاوہ ہمارے سکول میں زیادہ تعلیم ہمارے محکمہ تعلیم کے سینٹر سے دی جاتی ہے جو کہ ہمارے سکول سے ایک ہزار میل کے فاصلے پر ہے۔ جہاں سے مختلف کلاسوں کے لیے ایک ہی وقت میں کئی کئی لیسن (سبق) دیے جاتے ہیں۔‘
میں پاکستان میں رہتی ہوں اور پاکستان کی سرحد شمال اور جنوب میں بحرِ ہند، مشرق میں آسام اور ویتنام اور مغرب میں بحرِ اوقیانوس پر مشتمل ہے۔ ہمارے ملک کا صدرِ مقام مکہ معظمہ ہے اور صدر مملکت چاند میں قیام پذیر ہیں۔ امریکہ، جاپان، روس اور آسٹریلیا ہمارے باجگزار ہیں۔ دنیا میں اب لڑائی جھگڑے بالکل نہیں ہوتے کیونکہ اقوامِ متحدہ اب بالکل ختم ہو چکی ہے۔‘
محمد ارشد چوہدری، سیالکوٹ
’میرا نام ڈیوڈ ہے اور میں امریکی شہری ہوں۔ ٹھیک پچاس برس پہلے 30 نومبر 1969 کو 80 برس کی عمر میں پھیپھڑوں کے سرطان سے میری موت واقع ہو گئی تھی، لیکن مرنے سے چھ ماہ قبل 20 ہزار ڈالر کے عوض میں ایک کمپنی کے سرد خانوں میں اپنے لیے جگہ ریزرو کروا چکا تھا۔ چنانچہ میری نعش ایک سرد خانے میں محفوظ کر لی گئی اور سرطان کا شافی علاج دریافت ہونے پر آج سے ڈیڑھ ماہ قبل مجھے دوبارہ زندہ کر لیا گیا۔ آدمی کی اوسط عمر 200 سال تک پہنچ چکی ہے۔ انسانی اعضا تبدیل کرنا ایسے ہی ہے جیسے قمیض بدلنا۔۔۔ جنس تبدیل کرنے والے انجیکشن ایجاد ہو چکے ہیں لیکن نزلہ زکام کی کوئی موثر دوا ابھی تک ایجاد نہیں ہو سکی‘
پروین، راولپنڈی
’یہ 2021 کا زمانہ ہے۔۔۔ بچے کے داخلے سے فارغ ہو کر وہ خلائی لباس کے ایک سٹور میں گئے جہاں سے انھوں نے خلائی لباس خریدا کیونکہ وہ موسمِ گرما کی تعطیلات چاند اور اس کے بعد زہرہ اور مریخ پر جا کر گزارنا چاہتے تھے۔ وہاں سے وہ ہسپتال پہنچے تاکہ ڈاکٹر سے معائنہ کرا سکیں۔‘
’ہسپتال کے برآمدے میں ایک مشین لگی ہوئی تھی جس میں انھوں نے اپنا مقصد لکھ کر ڈال دیا۔ چند منٹ کے بعد مشین نے انھیں ایک کمرے میں جانے کی ہدایت کی جہاں پہنچ کر ڈاکٹر نے انھیں ایک مشین کے آگے کھڑا کیا۔ وہاں کھڑا ہوتے ہی ان کے بدن کے سر سے پاؤں تک کے اندرونی اعضا صاف نظر آنے لگے۔ ڈاکٹر نے انھیں دل اور پھیپھڑے بدلوانے کا مشورہ دیا۔ دوسرے دن وہ انسانی اعضا کے سٹور سے مقررہ نمبر کے دل اور پھیپھڑے خرید کر ہسپتال پہنچے اور اپنے دل اور پھیپھڑے بدلوا دیے۔‘
’تیسرے دن وہ اس قابل تھے کہ اپنے خلائی سفر پر روانہ ہو سکیں۔ چناچہ اگلے روز اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ وہ چاند کے سفر پر روانہ ہو گئے۔ چاند پر جا بجا خوبصورت ہوٹلز بنے ہوئے تھے جن میں قیام اور طعام کا بہترین نظام موجود تھا۔ غرضیکہ دو ماہ بعد وہ چاند، زہرہ اور مریخ سے سیر و تفریح کے بعد زمین پر آ پہنچے۔‘
کن کن موضوعات پر زیادہ لکھا گیا؟
بی بی سی کے پچاس سال بعد کی زندگی کے موضوع پر سامعین نے دل کھول کر سوچ کو وسعت دی اور سائنس سمیت مختلف شعبہ زندگی پر نہایت معلومات افزا مضامین لکھے۔ ان کے بیشتر خیالات 50 سال بعد سچ بھی ثابت ہوئے اور کئی ایک پر تو اب بھی کام ہو رہا ہے۔ اس لیے 50 سال پہلے کے بی بی سی کے ان ’سائنسدانوں‘ کو ہمارا بہت بہت سلام۔
ان سبھی خطوط کو یہاں شامل کرنا تو ممکن نہیں ہے اسی لیے ہم نے اوپر دیے گئے کچھ خطوط کے علاوہ ان مضامین کی درجہ بندی کی ہے جن پر ہمارے سننے والوں نے طبع آزمائی کی۔ کیونکہ 1969 وہ سال تھا جس میں نیل آمسٹرانگ نے چاند پر اپنا پہلا قدم رکھا تھا اس لیے تقریباً ہر خط میں چاند کا ذکر تھا۔ تو چلیے یہیں سے شروع کرتے ہیں۔
چاند، زہرہ، مریخ
شیخ دبیر احمد گوہر نے تحصیل بھکر، ضلع میانوالی سے لکھا کہ ’چاند پر جانا تو ایسے ہی ہے جیسے کراچی سے نیو یارک جانا۔‘
رحیم یار خان کے رضا صدیقی امروہی کی تخلیقی صلاحیت ذرا اور جاگی اور انھوں نے پچاس سال پہلے ہی 14 نومبر 2019 کی بی بی سی کی خبریں پڑھ ڈالیں۔ ایک خبر یہ تھی ’آج صبح زمین، چاند، زہرہ اور مریخ کے تمام افراد نے ایک مسافر خاتون مس لِٹل وڈ کو ٹیلی ویژن پر روشنی کی نیلی شعاعوں میں تبدیل ہوتا دیکھ کر مسرت کا اظہار کیا اور سائنسدانوں کی تعریف کی۔ مس لِٹل وڈ کو مریخ کے مرکزی لائٹ سٹیشن پر کامیابی سے اصلی حالت میں زمین سے وصول کیا گیا اور اس تہ در تہ تبدیلی کے عمل اور سفر میں 90 منٹ لگے۔‘
کراچی سے نظام احمد نے لکھا کہ ’اب لوگوں کو چند پر جانے کے لیے آکسیجن کے متعلق نہیں سوچنا پڑتا، کیونکہ 1980 میں امریکہ نے ایک آکسیجن بم بنایا اور چاند پر لے جا کر اس کو پھاڑ دیا۔ اس کے بعد امریکی خلا نورد چاند پر آکسیجن لے کر نہیں جاتے۔ اس سہولت سے امریکیوں نے بڑا فائدہ اٹھایا ہے۔‘
اڑن کاریں
دنیا میں اڑن کاریں بن چکی ہیں جو خود کار ہیں اور پونے گھنٹے میں دو سو میل سفر طے کرتی ہیں۔ لوگ جوہری توانائی سے چلتی ہوئی کاروں میں بیٹھتے ہیں۔ زیادہ تر کاریں اڑتی ہیں اور شمسی توانائی پر چلتی ہیں۔
کمپیوٹر
کمپیوٹر کا استعمال عام ہے جو ہر طرح کا حساب کتاب کرتا ہے اور صحیح مشورے دیتا ہے۔ کسی آدمی کی کوئی حرکت چھپ نہیں سکتی، چور حضرات احتیاط سے واردات کرتے ہیں اور بہت کم۔
جو میاں بیوی ایک دوسرے پر اعتماد نہیں رکھتے وہ کمپیوٹر سے ایک دوسرے پر ہر وقت نظر رکھتے ہیں چاہے کہیں بھی ہوں۔ صرف وہی بات چھپ سکتی ہے جو دماغ میں ہو لیکن جلد ہی ایسی مشین وجود میں آ جائے گی جو دماغ میں آئی ہوئی ہر بات بھی ضبطِ تحریر میں لے آئے گی۔
شادی کا نظریہ اور خانگی زندگی
پچاس سال بعد کی دنیا میں اکثر سامعین نے اس نقطے کو بہت اہمیت دی۔ لکھا گیا کہ ’لوگ پچاس سال بعد مذہبی اور سماجی بندشوں سے آزاد ہو کر بلا امتیاز مذہب و ملت، ذات پات اور چھوٹے بڑے کی تفریق کے اپنے ذاتی خیالات اور پسند کے مطابق اپنے رفیقِ حیات کو منتخب کرنے پر ترجیح دیں گے۔ ’اور قانونی طور پر ایک ساتھ رہنے یا نہ رہنے کی مکمل آزادی حاصل کی جا چکی ہو گی۔‘
بنوں سے سراج الدین نے لکھا کہ ’شادی پر کوئی پابندی تو نہیں لیکن پچاس سال بعد عورت اور مرد شادی کرنا ہی نہیں پسند کریں گے۔ وہ ایک ہی جگہ کام کرتے ہوں گے، کھاتے، پیتے، ہنستے اور سوتے ہوں گے اور کسی پر کوئی پابندی نہیں ہو گی تو ایسے میں شادی کے چکر میں کون پڑے۔‘
مکانات اور رہن سہن
بھوپال سے عائشہ حلیم نے لکھا کہ آج پلاسٹک کی ترقی سے اس بات کے امکانات بھی ہیں کہ آئندہ پچاس برسوں میں رنگ برنگ کے خوبصورت پلاسٹک اور خاص سیمنٹ کے بنے ہوئے مضبوط اور خوشنما فلیٹ منظرِ عام پر آ چکے ہوں گے۔ فولڈنگ مکانوں کی ایجاد سے رہائش کے مسائل تقریباً حل چکے ہوں گے اور کسی کی رہائش کا نہ ہونا ایک قصۂ پارینہ ہو گا۔
کراچی سے سید وقار حیدر نے لکھا کہ پلاسٹک کے مکانوں میں یہ سہولت ہے کہ ایک طریقے سے دل بھر گیا تو دیواروں کو اگے پیچھے کر دیا اور مکان دوسرے نقشے پر تیار ہو گیا۔
جسمانی اعضا کا بدلنا
جسمانی اعضا کا بدلنا ایسے ہی ہے جیسے کپڑے بدلنا، چیز پسند کریں اور لگوا لیں۔ مشینوں کے آگے کھڑے ہونے سے سب پتہ لگ جاتا ہے کہ بیماری کیا ہے۔
’کئی ناکارہ عضو جیسے آنکھ، گردے، پھیپھڑےاور خاص طور پر دل بدلنے کے کامیاب آپریشنوں نے آج انسان کو حیرت میں ڈال دیا ہے تو یہ قیاس کہ آج سے پچاس سال بعد کہ انسان کے ہر ناکارہ عضو کو بدل کر ڈاکٹر اس کو ایک نئی زندگی دینے میں کامیاب ہو سکیں گے غلط نہیں۔‘
تعلیم
ایک سامع نے لکھا کہ اب پرانے زمانے کی طرح سکولوں میں داخلے کی مشکلات نہیں ہیں۔ سکولوں کا تو تصور ہی بدل گیا ہے۔ ’اب تو آپ اپنے بچے کی تعلیم کے لیے صرف ایک عدد ’ٹیچو گرام‘ خرید لیجیے۔ یہ آپ کے بچے کا استاد ہے۔ اگر یہ کام میں سستی کرتا ہے اور ذمہ داری سے بچوں کو نہیں پڑھاتا تو لوگ اس کی قیمت واپس لے لیتے ہیں۔ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ رات کو سوتے ہوئے اسے آن کر دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ جو آپ ’برین کیپ‘ دیکھ رہے ہیں یہ بچے کو اوڑھا دی جاتی ہے، اور بس۔ آپ آرام سے سو جائیں۔ مگر آپ پریشان ہیں کہ ٹی گرام‘ کو بند کون کرے گا۔ آپ بالکل فکر نہ کریں۔ جونہی بچے کو سبق یاد ہو گا ویسے ہی ٹی گرام بند ہو جائے گا۔‘
دور کمپیوٹروں کے سامنے بیٹھے طالب علموں کے طریقہ تعلیم کے بیشتر فائدوں کے ساتھ کمزور پہلوؤں کے متعلق بھی پچاس سال پہلے ہمارے سامعین نے توجہ دلائی کہ طلبا کو بلا کسی امتیاز ایک ساتھ بیٹھنے، سوچنے، سمجھنے، بحث و مباحثہ کرنے کے مواقع زیادہ نہیں مل سکیں گے جو کہ اجتماعی زنگی کے لیے ضروری ہیں۔
جو نہ ہو سکا
کئی ایک نے اپنے مضامین میں یہ بھی لکھا کہ انسانوں کے لیے ایک دوسرے کے ملک کے دروازے کھلے ہوں گے، جیسا کہ بدقسمتی ابھی نہیں ہوا۔ ایک سامع رشید احمد بیگ نے اننت ناگ سے لکھا کہ سنہ 2020 میں کمیونسٹ ہر طرف غالب آ چکے ہوں گے۔
اسی طرح بنوں سے سراج الادین قریشی نے لکھا کہ امریکہ، برطانیہ، مغربی جرمنی، سوئٹزرلینڈ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ کینیڈا اور سعودی عرب کے علاوہ ساری دنیا پر سرخ جھنڈا لہرایا جا چکا ہو گا۔
چاند اور مریخ پر سیاحوں کا آنا جانا جس کی جستجو ابھی بھی جاری ہے۔
بیماریوں پر قابو جو ابھی ایک جاری عمل ہے۔
دنیا بھر میں مساوات اور بھائی چارہ جس کی خواہش اور تمنا ہی ہے۔
اور کچھ سامعین کی سوچ کی وسعت کے بارے میں
- جینیاتی سائنس اتنی ترقی کر جائے گی کہ گھوڑوں جتنی مرغیاں ہوں گی اور ہاتھیوں جتنے بکرے
- بندروں نے راکٹ چلانا سیکھ لیا ہو گا
- سکڑنے والا پاکٹ سائز راکٹ ہو گا جسے جب چاہا جیب سے نکالا بٹن دبایا اور یہ جا وہ جا
- سمندر کی تہہ پر فصلیں اُگا کریں گی
- موسمی اثرات سے محفوظ مکان خود ہی دو سے تین منزلہ بن جایا کریں گے
- مکانوں میں ایک مشین ہو گی جو ہوا سے آکسیجن اور ہائیڈروجن کو الگ کرے گی اور مقررہ مقدار میں ملا کر اچھے معیار کا پانی مہیا کرے گی۔ اس طرح پینے کے پانی کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا
- تعفن اور جگہ کی تنگی کی وجہ سے قبرستان چھوٹے چھوٹے کمروں پر مشتمل ہوں گے۔ جہاں بٹن دبانے سے نعش سکڑ کر ایک گڑیا کی طرح ہو جائے گی
- دنیا کا سب سے بڑا ڈاکو اپنی بیماری کا علاج کرانے چاند پر گیا اور وہاں بھی کہرام مچا دیا، لیکن پھر اس پر قابو پا لیا گیا
اور بی بی سی کے سامعین کی اس بہترین سائنس فکشن ’سیریز‘ کے بعد تو بس یہی کہا جا سکتا ہے:
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی