سینٹ یا سوالات کا مقتل
توشہ خانہ ہی پہ کیا موقوف، خان صاحب کی ”ریاست مدینہ“ کی شفافیت اور جوابدہی کا یہ عالم تھا کہ
توشہ خانہ ہی پہ کیا موقوف، خان صاحب کی ”ریاست مدینہ“ کی شفافیت اور جوابدہی کا یہ عالم تھا کہ
25 جولائی2018 کی شب، آر۔ ٹی۔ ایس کی مرگِ ناگہانی کے بعد،وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآء ُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآء ُکے یادگار
گاؤں کی خو برو دوشیزہ, رات کے پچھلے پہر، اپنے چاہنے والے نوجوان کے ساتھ پڑوس کے گاؤں چلی گئی۔
عمران خان کا آفتاب جہاں تاب افق مغرب سے آن لگا ہے۔ انہونی کا نقّارہ بج رہا ہے اور میرے
شگفتہ گوشاعر، نذیر احمد شیخ کی ایک یاد گار نظم ہے۔ آندھی۔ کیا عمدہ منظر کشی ہے۔کمال سلاست و روانی
فیصلے کی گھڑی، ٹلنے کے باوجود، آہنی ہتھوڑے کی طرح سر پر برس رہی ہے۔ خان صاحب کا خفقان، ہیجان
عزت ماب جناب وزیر اعظم عمران خان کی آتش بیانی جاری ہے لیکن "لاوا فشانی" میں کمی آرہی ہے۔ آسمان
غالب کی معروف غزل کا مطلع ہے ؎آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسےایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ
وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد نے ایک تلاطم بپا کر رکھا ہے۔ دیکھیئے اس بحر کی تہہ
کیا بھر پور شخصیت تھی۔ اپنے انداز میں یکتا، اپنے ڈھب میں منفرد، اپنے اسلوب میں بے مثل، اپنے اطوار