پروجیکٹ عمران خان کے نئے پاسبان
بلاشبہ سانپ گزر جانے کے بعد لکیر پیٹتے رہنا، کارِدانش نہیں لیکن ستم یہ ہے کہ لکیر بھی ہمیں سانپ
بلاشبہ سانپ گزر جانے کے بعد لکیر پیٹتے رہنا، کارِدانش نہیں لیکن ستم یہ ہے کہ لکیر بھی ہمیں سانپ
ذاتی اور سیاسی مقاصد کے لئے تراشے گئے بیانیوں کے بیچوں بیچ ایک بیانیہ تاریخ کا بھی ہوتا ہے جو
بیانیوں، خوش گمانیوں اور خواب خرامیوں کے باوجود، دَرودِیوار پہ لکھی حقیقت یہ ہے کہ ہم بھنور میں گھْمَّن گھیریاں
4مئی2017ءکو آرمی چیف اور وزیراعظم کی ملاقات میں طے پانے والا فارمولا تاخیر کاشکار ہوگیا۔ وزیراعظم کے دِل میں ترازو
29 اپریل2017ءکو‘ اوّل ِشب کی لطیف ساعتوں میں، آرمی ہائوس سے اسلام آباد آتے ہوئے میں اِسی پیچ وتاب میں
مجھے اِس اعزازِ بلند کی خبر خود جنرل قمر جاوید باجوہ نے دی تھی کہ ستّر کی دہائی میں وہ
طرفہ تماشا یہ تھا کہ نام نہاد ڈان لیکس پر سات رُکنی تحقیقاتی کمیٹی اُس وقت بنی جب پرویز رشید
اکتوبر2016ءکی اٹھائیس تاریخ تھی۔ زمستانی ہوائیں شہرِخوش جمال کا رُخ کر رہی تھیں۔ مجھے پیغام ملا کہ وزیراعظم یاد کررہے
اَندھی عصبیت ایک طرف رکھتے ہوئے عمران خان کے ستّائیس سالہ سیاسی سفر کو حقائق کی کسوٹی پر پَرکھا جائے
چئیرمین سینیٹ، عزت مآب محمد صادق سنجرانی، مرنجاں مرنج بلکہ باغ وبہار شخصیت کے مالک ہیں۔ دوست بنانا، دوستیاں پالنا