کالم

 ظلم و ستم کے کوہِ گراں 

Share

کوئی مانے یا نہ مانے امریکہ اور برطانیہ اب بھی دنیا پر راج کرتے ہیں، بل کہ یوں کہہ لیجئے کہ ان کی غنڈہ گردی سے اب بھی دنیا خوف زدہ ہے۔اب آپ فلسطین کا ہی مسئلہ لے لیں تو سیدھے سیدھے آپ کو ساری بات سمجھ میں آ جائے گی۔

حماس کے حملے کے بعد جس طرح سے امریکہ اور برطانیہ نے اسرائیل کی پیٹ تھپ تھپائی اور بحری جہازوں کو اسرائیل کی مدد کے لئے بھیجاہے اس سے سے تو ہمارا سر شرم سے جھک ہی گیا۔ ظاہر سی بات ہے ہم برطانیہ تیس سال قبل اسی لئے رہنے آئے کہ یہ ملک برابری اور انسانی حقوق کا محافظ ہے۔ ویسے کئی معاملات میں تو ہے لیکن جب بات فلسطین یا مسلم ممالک کی ہو تو پھر صاحب سارے اصول اور انسانی حقوق دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔پھر تو ان کا اصلی چہرہ سامنے آجاتا ہے۔یعنی یک طرفہ مسلم آبادی والے ممالک کو انتہا پسند بتا کر پوری آبادی پر ظلم و ستم ڈھانا اور ہم بے بسی میں محض احتجاج کرتے ہیں۔

یہ بات 1980کی ہے جب میں کلکتہ کے محمد جان ہائی اسکول کاطالب علم تھا۔نویں جماعت کا طالب علم ہوتے ہوئے ہم سب اس بات سے دکھی تھے کہ بہت سارے ٹیچر کی غیر حاضری کی وجہ سے ہماری پڑھائی برباد ہورہی تھی۔ایک دن ہم نے اپنے چند ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ یار ہمیں اب کچھ کرنا پڑے گا اور پھر چند دوستوں کے مشورے کے بعد ہم سب نے ٹیچر کی غیر حاضری کے خلاف ایک دن کلاس بائیکاٹ کر کے احتجاج شروع کر دیا۔ابھی ہم احتجاج کر ہی رہے تھے کہ اچانک شیر کی طرح چنگھاڑتے ہوئے ہیڈ ماسٹر مرحوم اختر حسین ہاتھ میں ڈنڈا لیے ہم سب پر دھاوا بول دیا۔ مارے خوف ہم سبھی کلاس میں واپس چلے گئے لیکن مرحوم اختر حسین کا غصہ تب کم ہوا جب انہوں نے طلباء پر اندھا دھند ڈنڈے برسائے۔مجھے بھی کچھ ڈنڈے احتجاج کی خاطر کھانے پڑے۔ لیکن ظلم تو تب ہوا جب ہیڈ ماسٹر اختر حسین نے نے تمام طلبا ء کو مارتے ہوئے پوچھنے لگے کہ بتاؤ، کون ہے تمہارا لیڈر جس نے احتجاج کے لیے اکسایا ہے۔

خیر ایک میر جعفر تو ہر جگہ موجود ہوتا ہے۔پورا کلاس مار کھا ہی رہی تھی کہ ہمارے ایک ساتھی نے ہیڈماسٹر اختر حسین کو میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارا لیڈرہے۔ بس جناب زندگی میں پہلی بار اتنے ڈنڈے میرے جسم پر پڑے کہ میں حواس باختہ ہوگیا اور اس دن سے آج تک میں نے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور حق کی خاطر تن تنہا لڑتا جارہا ہوں۔تاہم1987ء میں جب میں مولانا آزاد کالج کلکتے کے اسٹوڈنٹس یونین کا جنرل سیکریٹری بنا تو مجھے اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ جس لڑکے نے اسکول میں میر جعفر بن کر مجھے “لیڈر”بتا یا تھا اس کی بات سچ نکلی اور ہم نے اپنی زندگی کا سیاسی کئیریر کا آغاز آن و شان سے کرتے ہوئے اپنے دور میں طلباء کے حقوق

کے لیے اور ظلم و زیادتی کے خلاف بے شمار احتجاج کئے جو کہ ہمارا بنیادی حق تھا۔

احتجاج اپنی نوعیت کے اعتبار سے اکثر جھنجھلاہٹ اور تکلیف کا باعث ہوتا ہے۔ عام زندگی گزارنے میں جو رکاوٹیں ہیں اس میں یہ مسائل کی طرف توجہ دلاتی ہے اور ہماری عوامی بحث کومتحرک کرتی ہے۔آج ہم جن حقوق اور آزادیوں کو قبول کرتے ہیں ان میں سے بہت سے ایسے اقدامات کے ذریعے محفوظ کیے گئے ہیں جو اس وقت بہت سے لوگوں کے لیے خاصی پریشانی اور تکلیف کا باعث ہے۔بہت سے بین الاقوامی معاہدوں میں احتجاج کے حق کے واضح الفاظ موجود ہیں۔ ایسے معاہدوں میں 1950کا یوروپی کنونشن برائے انسانی حقوق، خاص طور پر آرٹیکل 9سے 11شامل ہیں۔ اور 1966کا بین الاقوامی معاہدہ برائے شہری اور سیاسی حقوق، خاص طور پر آرٹیکل 18سے 22ہے۔آرٹیکل 9،” فکر، ضمیر اور مذہب کی آزادی کے حق “کی وضاحت کرتا ہے۔ آرٹیکل  “11دوسروں کے ساتھ وابستگی کی آزادی کے حق، بشمول اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ٹریڈ یونین بنانے اور اس میں شامل ہونے کا حق” ہے۔ تاہم ان اور دیگر معاہدوں میں اجتماع کی آزادی کا حقوق، انجمن کی آزادی، اور تقریر کی آزادی کچھ حدود کے تابع ہیں۔ مثال کے طور پر، شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے میں “جنگ کے پروپگنڈے “اور “قومی، نسلی یا مذہبی منافرت”کی وکالت پر پابندیاں شامل ہیں۔ اور یہ اجتماع کی کی آزادی پر پابندی کی اجازت دیتا ہے۔ اگر یہ ضروری ہو “جمہوری معاشرے میں قومی سلامتی یا عوامی تحفظ، امن عامہ، صحت عامہ یا اخلاقیات کے تحفظ کے لیے ہے۔ تاہم، ضروری نہیں کہ احتجاج پر تشدد ہو یا قومی سلامتی یا عوامی تحفظ کے مفادات کے لیے خطرہ ہو۔ 

جدوجہد آزادی کے دوران ہندوستانیوں نے بڑی حد تک پر امن احتجاج کے ذریعے آزادی کی بنیاد رکھی۔ 1915ء میں گاندھی جی نے ستیہ گرہ متعارف کرایا، جو کہ ایک ایسی تحریک تھی جو مضبوطی سے عدم تشدد کی مزاحمت پر مبنی تھی اور سچائی کو اپنی طاقت بناتی تھی۔ اور بعد میں برسوں تلک متعدد تحریکیں عدم تشدد پر مبنی پر امن مارچ تھیں جس کی وجہ سے ہندوستانیوں کی غلامی ختم ہوئی۔

جب سے اسرائیل نے حماس کے حملے کے بعد غزہ پر اپنی درندگی کا ننگا ناچ، ناچ رہا ہے تب سے دنیا بھر میں فلسطین کی حمایت میں آواز بلند سے بلندتر ہوتی جارہی ہے۔لندن سمیت برطانیہ کے کئی شہروں میں اسرائیلی کے خلاف اور فلسطین کی حمایت میں جلوس نکالے گئے جس سے حکومت بوکھلا گئی ہے اور ہوم سیکریٹری نے سیدھے سیدھے پولیس کو نشانہ بناتے ہوئے الزام لگایا کہ پولیس نے فلسطینی احتجاجی کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔جبکہ پولیس نے کہا کہ ہم نے احتجاج میں ایسی کوئی بات نہیں پائی کہ ہمیں احتجاجیوں کے خلاف کاروائی کرنی پڑتی۔دراصل ہوم سیکریٹری مس بریومین جن کے شوہر ایک یہودی ہیں،کہیں اپنے شوہر کی دباؤ میں آکر پولیس پر اپنا غصہ نہ اتار رہی ہوں۔ تاہم مس بریو مین کو منہ کی کھانی پڑی اور پورا معاملہ ٹھنڈے بستر میں چلا گیا۔

اسی طرح کا ایک واقعہ اور مشرقی لندن کے ٹاور ہیملیٹ کے علاقہ میں رونما ہوا جہاں راتوں رات کسی نے تمام اسٹریٹ لیمپ پوسٹ پر فلسطینی جھنڈے باندھ دئیے۔ٹاور ہیملیٹ بنگلہ دیشی لوگوں کا علاقہ ہے۔ بس مت پوچھیے، اس کے بعد یہ واقعہ خبروں کی سرخیاں بن گئی اور لوکل کاونسل اور مرکزی حکومت نے فوراً فلسطینی جھنڈے کو ہٹانے کا حکم دیا۔ 

پر امن احتجاج کا حق جمہوری غبارے کا ایک گرہ ہے۔ جس طرح گرہیں غبارے کے اندر ہوا کو روکتی ہیں،اسی طرح یہ جمہوریت کی روح کو برقرار رکھتی ہے۔تھوڑی دیر کے لیے اگر ہم ہندوستان کی مثال لیں تو ہندوستان میں کئی برسوں سے اختلاف رائے کوڈ ی کوڈ کرنے کے لیے پر امن احتجاج کا مشاہدہ کیا جارہا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک جن کی اولین فکر اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود، انسانی حقوق کی تحفظ، جمہوریت کی روح کو برقرار رکھنا اور اپنے لوگوں کی سالمیت اور وقار کی وکالت کرنا ہے، وہی وہ ہمیشہ احتجاج کرنے والے سے اختلاف رائے کا اظہار کرنے کا حق بھی رکھتے ہیں۔ بہت سے بین الاقوامی معاہدوں میں پوری دنیا میں عام طور پر انسانی حقوق اور انسانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے احتجاج کے حق کا واضح اظہار ہوتا ہے۔

میرا ماننا ہے کہ اجتماعی آزادی ایک بنیادی حق ہے اور مضبوط اور متحرک جمہوریتوں کو یقینی بنانے کے لیے اہم ہے۔احتجاج لوگوں اور مسائل کو آواز دینے اور اداروں کو ان کے اعمال کا محاسبہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔احتجاج کا حق جمہوریت کا ایک اہم حصہ ہے۔ پر امن احتجاج،آزادی یا اپنے مقصدیا زیادتی کی طرف پہلا قدم ہے اور ہمیں ہمیشہ اسے اپنے تحفظ اور مشقت کا ایک طاقتور ہتھیار سمجھنا ہے۔ ہمیں اپنے حقوق کے لیے لڑنا چاہیے اور دوسروں کے حقوق کو پامال کیے بغیر اور دوسروں کے زندگی اور جذبات کو متزلزل کیے بغیر اپنی قوم کے لیے کھڑے رہیں چاہے وہ آپ کے حق میں ہو یا نہ ہو۔

جس طرح امریکہ اور برطانیہ فلسطین کی حمایت میں جلسہ اور جلوسوں سے بوکھلائے ہیں، اس سے ایک بات تو صاف عیاں ہے کہ ان کی اسرائیلی حمایت انہیں کہیں نہ کہیں گلے کی ہڈی ثابت ہورہی ہے۔ خیر ہمیں اپنا احتجاج پر امن طریقے سے جاری رکھنا چاہیے۔بقول فیض احمد فیض ہم دیکھیں گے، وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے، جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں، روئی کی طرح اُڑ جائیں گے۔ ہم دیکھیں گے۔۔۔