گو شہ خاص

کچھ اِن تصویروں کا بھی سوچیں!

Share

عزت مآب چیف جسٹس، قاضی فائز عیسیٰ نے بجا طورپر نکتہ اٹھایا ہے کہ آئین توڑنے والے ججوں کی تصویریں، عدالتی کمرہ نمبر ایک میں کیوں لگی ہیں؟ لیکن صرف آئین شکنوں ہی نہیں، اُن کی تصویروں کے بارے میں بھی کچھ سوچنا ہوگا جو طلائی حاشیوں والی ریشمی عبائیں پہن کر انصاف کی قبائیں تار تار کرتے رہے۔ جو بغض وعناد کی بنا پر اللہ تعالیٰ سے باندھا گیا حلفِ وفا توڑتے رہے۔ جنہیں پاکستان کے آئین وقانون سے ’’خُبثِ باطن‘‘ کی گنجائش نہ ملی تو ’’لُغتِ قانونِ سیاہ‘‘ (Black Law Dictionary) سے کسبِ عناد کرتے ہوئے سیاہ کار فیصلے رقم کرتے رہے۔ لگ بھگ پانچ برس بعد، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایون فیلڈریفرنس پر نوازشریف کی اپیل کا فیصلہ سنا دیا۔ یہ داستان میرا موضوع نہیں کہ اِن پانچ برسوں میں نوازشریف پر کیا گزری۔ سو اس معاملے کو ایک طرف رکھتے ہوئے دیکھنا چاہئے کہ انصاف کے ایوانوں میں بیٹھی ’’چنڈال چوکڑی‘‘ نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا کیا حشر کردیا؟ پاکستان کے کروڑوں شہریوں کو کس جرم کی سزا دی جو تین چار فی صد مہنگائی میں کسی نہ کسی طور دو وقت کی روٹی کھا رہے تھے لیکن آج تاریخ کی ریکارڈ سطح، چالیس فی صد پہ پہنچی مہنگائی نے اُن کا جینا حرام کر دیا ہے۔ پاکستان کس طرح تقویم وقت کا پہیہ پیچھے کی طرف دھکیلتے ہوئے نواز شریف کے 2017ء میں چلا جائے کہ آئی۔ایم۔ایف سے نجات کی نوید ایک بارپھر سنائی دے؟ اُسے ایک بار پھر کس نے عالمی ساہوکاروں کے قدموں میں لوٹنے پر مجبور کر دیا ہے؟ کس نے اُس سرزمین کو بیرونی سرمایہ کاری کے حوالے سے کشتِ ویران بنا کے رکھ دیا جہاں نواز شریف ساٹھ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری لے کر آیا تھا؟ کس نے فعال اور متحرک سی پیک کو ناتواں برساتی کینچوا بنادیا؟ کس نے چھ فی صد شرح سود کو بائیس فی صد تک لے جاکر صنعت وحرفت کے فروغ کا راستہ روک دیا؟ قومی گرڈ میں بارہ ہزار میگاواٹ بجلی کے بعد توانائی کے بحران پر قابو پایا جا چکا تھا۔ وہ کون تھے جن کے بغض نے آج پھر یہ صورت حال بنا دی کہ سردیوں میں بھی طویل لوڈشیڈنگ ہونے لگی؟ یہ کس کے ہُنر کا اعجاز ہے کہ دہشت گردی کے جس عفریت کو فولادی نکیل ڈال دی گئی تھی وہ آج پھر گلی کوچوں میں دندنا رہا ہے؟ 28جولائی 2017ء سے آج تک جاری ہمہ پہلو زوال اور سیاسی افراتفری کا سیلِ تُندرو کِن پہاڑوں سے اترا؟ کئی مہینوں سے ملک ’’دیہاڑ داری‘‘ نظام کی جھولی میں پڑا ہے؟ ایسا کیا ہوا کہ اچھا بھلا معاشرہ عدم برداشت، غصے، اشتعال اور نفرتوں کی گہری دلدل میں دھکیل دیا گیا؟ کُتب بدست نوجوان کیوں پٹرول بموں سے کھیلنے لگے؟ کیوں کر اخلاقی زوال اور تہذیبی انحطاط نے سماج کی جڑیں تک ہلا ڈالی ہیں؟ فوج کے اندر بغاوت بپا کرکے آرمی چیف کا تختہ الٹنے کی سازش کیا صرف9 مئی کے افق سے پھوٹی؟ انہیں کیسے نظرانداز کردیاجائے جو مکروہ ذاتی اہداف ومقاصد کیلئے عدل و انصاف کے دامانِ تقدیس کو داغ داغ کرتے اور عمران خان کے آتشکدے کو ہوا دیتے رہے۔ دلیل دی جائے گی کہ منصوبہ ساز کوئی اور تھے۔ بالکل درست۔ وہ منصوبہ ساز آج بھی کہہ رہے ہیں کہ ہاں ہم نے ایسا کیا لیکن ہم سے غلطی ہوگئی۔ وہ کچھ کہیں نہ کہیں، ہمارے نظام میں اتنی توانائی نہیں آس کی کہ کوئی اُن سے باز پرس کرسکے۔ اللہ کرے ریاست کے پیکر خاکی میں کبھی اتنی جان پڑ جائے کہ وہ پاکستان اور پاکستانیوں کو اس حال تک پہنچانے والوں کا کڑا محاسبہ کرسکے لیکن اِس وقت معاملہ ’منصوبہ سازوں‘ کے منصوبے میں رنگ بھرنے اور اُن سے کہیں زیادہ والہانہ ذوق وشوق کے ساتھ اُن کی ’’دوسالہ محنت‘‘ کو ضائع ہونے سے بچانے والے اُن کرداروں کا ہے جو بظاہر ججوں کا بہروپ بھرے، شعوری طور پر، دیدہ دانستہ آئین سے کھیلتے، اپنے حلف کو پائوں تلے روندتے، عدلیہ کے وقار کو پامال کرتے اور نفرت میں لتھڑی اُبکائیوں کو’ عدالتی فیصلوں‘ کے طور پر باور کراتے رہے۔ ستم رسیدہ لوگ عدالتوں کا رُخ کرتے ہیں۔ اُنہیں توقع ہوتی ہے کہ اللہ کو حاضر ناظر جان کر، ہر حال میں بلارغبت وعناد فیصلہ دینے کی قسم کھانے والے منصف، کسی منصوبہ ساز کا نہیں، آئین، قانون اور انصاف کا ساتھ دیں گے۔ وہ ہرگز اس توقع کے ساتھ عدلیہ کے دروازے پر دستک نہیں دیتے کہ جج صاحبان بھی، منصوبہ سازوں کی سپاہ کا حصہ ہو کر کسی پروجیکٹ کے کارندے بن جائیں گے۔ لیکن ایسا ہوا اور برملا ہوا۔ منصوبہ سازوں کی مہم تو 2011ء کے لاہوری جلسے سے آشکار ہوکر 2014ء کے دھرنوں میں موضوعِ کوچہ وبازار بن چکی تھی لیکن عدالتی بہروپیے 2016ء میں اُس وقت اس کھیل کا حصہ بنے جب اسکرپٹ کے عین مطابق انہیں بروئے کار آنا تھا۔ پانامہ، بہانہ بنا جس کا پیٹ کُند نشتر سے چاک کرکے اقامہ نکالا گیا۔ آصف سعید کھوسہ نے ہانک لگائی ’’عمران! سڑکوں پہ کیا کررہے ہو، ہمارے پاس آئو۔‘‘ پھر وہ پٹیشن یکایک معتبر ہوگئی جسے سپریم کورٹ ’’فضول، ناکارہ، لایعنی اور بے وقعت‘‘ قرار دے کر رَد کرچکی تھی۔ وہاں سے عدلیہ کی توہین اور عدل کی تضحیک کی وہ حیا سوز کہانی شروع ہوئی جس کی نظیر شاید ہی عہدِ حاضر کی کسی اور ریاست میں ملے۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے، اِسی مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ ’’12 اکتوبر 1999ء کے اقدام پر بھی کارروائی ہونی چاہئے۔‘‘ یوں تو یہ کہانی 1954ء سے بھی شروع کی جاسکتی ہے لیکن وہ سب کردار معدوم ہوچکے ۔ اکتوبر 1999ء کے کرداروں میں سے بھی کم کم رہ گئے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ خود احتسابی کی مشق پانامہ کے فیصلے سے شروع کر لی جائے۔ بیٹے سے تنخواہ نہ لینے والے ’’تاریخ ساز‘‘ فیصلے کے بعد اک بارش سنگ و آہن تھی کہ بظاہر ’’رائیونڈ‘‘ لیکن دراصل پاکستان پر برستی رہی اور جس کی تباہ کاریاں آج ہم چار سُو دیکھ رہے ہیں۔ ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت پارلیمنٹ کے اختیار قانون سازی کو جوتے کی نوک پر رکھنے اور من پسند فیصلوں کے لئے مرضی کا آئین رقم کرنے کا یہ سلسلہ ثاقب نثار سے شروع ہوکر بندیال کی رخصتی تک جاری رہا۔ بہتر ہو کہ آرٹیکل 184/3 پر نئی قانون سازی کے مطابق سہ رُکنی بینچ بٹھایاجائے جو 28 جولائی 2017ء سے 16 ستمبر2023ء تک کے اُن تمام فیصلوں کا جائزہ لے جن کا تعلق سیاسی معاملات سے تھا۔اس مشق سے عدلیہ کی اُجلی قبا پہ لگے کچھ داغ دُھل گئے توبھی غنیمت ہوگا۔

آئین توڑنے والے ججوں کی تصویریں بھلے اتار دیں۔ اور اگر قرآنی حلف سے روگردانی کرنے والے ’’جج صاحبان‘‘ کی تصویریں، کورٹ روم نمبر ایک کی دیواروں سے ہٹانا مشکل ہوتو کم ازکم انہیں اُلٹا کر ٹانگ دیاجائے۔