صحت

کورونا وائرس کے مریض کتنے وقت تک بیماری کو آگے پھیلا سکتے ہیں؟

Share

کورونا وائرس کے معتدل یا بغیر علامات والے مریض کب تک اس بیماری کو دیگر تک منتقل کرسکتے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب جاننے کے لیے طبی ماہرین اس وبا کے آغاز سے کام کررہے ہیں۔

ایک نئی تحقیق میں اس کا ممکنہ جواب دیا گیا ہے۔

امریکا کی اوریگن ہیلتھ اینڈ سائنس یونیورسٹی اور اوریگن اسٹیٹ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ کورونا وائرس کے معتدل یا بغیر علامات والے مریض ممکنہ طور پر 10 دن تک اس بیماری کو دیگر تک منتقل کرسکتے ہیں۔‎

یا یوں کہہ لیں کہ وہ 1 دن سے زیادہ متعدی نہیں ہوتے۔

طبی جریدے انفیکشن کنٹرول اینڈ ہاسپٹل ایپیڈیمولوجی میں شائع تحقیق میں درجنوں تحقیقی رپورٹس کا تجزیہ کرنے کے بعد دریافت کیا کہ کووڈ 19 کے مریضوں میں وائرس کے جھڑنے یا دیگر تک منتقل ہونے کا دورانیہ شدت کے لحاظ سے مختلف ہوسکتا ہے۔

تحقیق کے مطابق جو لوگ کووڈ 19 کی سنگین شدت کا شکار ہوتے ہیں وہ ممکنہ طور پر 20 دن تک وائرس کو آگے منتقل کرسکتے ہیں۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ وائرل آر این اے کی شناخت کا اس کے غیرفعال ہونے سے ممکنہ ططور پر کوئی تعلق نہیں۔

محققین کا کہنا تھا کہ مریضوں سے وائرس کے جھڑنے کے دوران کے لیے مزید ڈیٹا کی ضرورت ہے تاکہ وائرس کے پھیلاؤ کے خطرے کا تعین کیا جاسکے۔

اس تحقیق میں شامل ماہرین نے اس تجزیے کا فیصلہ کورونا وائرس کی منتقلی کے بارے میں مزید معلومات کے حصول اور وبا کی روک تھام کی تدابیر میں مدد کے لیے کیا۔

محققین نے بتایا کہ اگرچہ لوگوں سے وائرس جھڑنے کا طویل طویل وقت تک ہوسکتا ہے مگر جن تحقیقی رپورٹس کا ہم نے تجزیہ کیا، ان سے عندیہ ملتا ہے کہ متعدی یا زندہ وائرس معتدل یا بغیر علامات والے مریضوں میں صرف 9 دن تک ڈکٹیکٹ ہوسکتا ہے۔

اس تحقیق میں 77 تحقیقی رپورٹس کا تجزیہ کیا گیا تھا جن میں سے 59 طبی جرائد میں شائع ہوئی تھیں۔

تمام تحقیقی رپورٹس میں وائرس کے جھڑنے کی جانچچ پڑتال کے لیے روایتی طریقہ کار کا استعمال کیا گیا تھا۔

اس وبا کے آغاز میں ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ ایسے افراد جو نوول کورونا وائرس کے انفیکشن کا شکار ہوتے ہیں، ان کی جانب سے کووڈ 19 کا شکار ہونے کے بعد اولین 7 دن میں اسے دیگر صحت مند افراد میں منتقل کرنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

جرمنی کی ہنڈسوئیر انسٹیٹیوٹ آف مائیکرو بائیولوجی، Klinikum München-Schwabing، Charité Universitätsmedizin Berlin اور یونیورسٹی ہاسپٹل ایل ایم یو میونخ کی اس تحقیق میں بتایا تھا کہ آخر کیوں یہ وائرس بہت آسانی سے پھیل رہا ہے، کیونکہ بیشتر افراد اس وقت اسے پھیلا رہے ہوتے ہیں، جب اس کی علامات معمولی اور نزلہ زکام جیسی ہوتی ہیں۔

محققین نے کووڈ 19 کے شکار 9 افراد کے متعدد نمونوں کا تجزیہ کیا جن کا علاج میونخ کے ایک ہسپتال میں ہورہا تھا اور ان سب میں اس کی شدت معتدل تھی۔

یہ سب مریض جوان یا درمیانی عمر کے تھے اور کسی اور مرض کے شکار نہیں تھے۔

محققین نے ان کے تھوک ، خون، پیشاب، بلغم اور فضلے کے نمونے انفیکشن کے مختلف مراحل میں اکٹھے کیے اور پھر ان کا تجزیہ کیا۔

مریضوں کے حلق سے لیے گئے نمونوں سے انکشاف ہوا کہ یہ وائرس جب کسی فرد کے جسم میں داخل ہوتا ہے تو پہلے ہفتے میں سب سے زیادہ متعدی ہوتا ہے، جبکہ خون اور پیشاب کے نمونوں میں وائرس کے کسی قسم کے آثار دریافت نہیں ہوئے تاہم فضلے میں وائرل این اے موجود تھا۔

محققین کا کہنا تھا کہ یہ سارس وائرس سے بالکل مختلف ہے، جس میں وائرس کی منتقلی کا عمل 7 سے 10 دن میں عروج پر ہوتا ہے مگر نیا نوول کورونا وائرس میں یہ عمل 5 دن سے پہلے ہی تیز ہوجاتا ہے اور سارز کے مقابلے میں ایک ہزار گنا زیادہ ہوتا ہے۔

انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ جن افراد میں اس کی شدت زیادہ ہوتی ہے، ان میں وائرس کے متعدی ہونے کا عمل 10 یا 11 ویں دن تک عروج پر پہنچتا ہے جبکہ معتدل مریضوں میں 5 دن کے بعد اس عمل کی شدت میں بتدریج کمی آنے لگتی ہے اور 10 ویں دن ممکنہ طور پر یہ مریض اسے مزید پھیلا نہیں پاتے۔

ان کا کہنا تھا کہ نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی فرد میں علامات کو 10 گزر چکے ہیں تو اسے ہسپتال سے ڈسچارج کرکے گھر میں الگ تھلگ رکھا جا سکتا ہے۔