فرشتہ قتل کیس میں برطرف 4 پولیس عہدیدار ملازمت پر بحال
اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت میں فرشتہ نامی بچی کے اغوا، ریپ اور قتل کیس میں ملازمت سے برطرف کیے گئے 4 پولیس افسران دوبارہ بحال ہوگئے۔
رپورٹ کے مطابق سینئر پولیس افسران نے ڈان کو بتایا کہ برطرف عہدیداروں کی جانب سے اپنی برطرفی کے خلاف اپیل کے بعد انہیں بحال کیا گیا۔
واضح رہے کہ ان 4 پولیس عہدیداروں میں شہزاد ٹاؤن کے سابق ایس ایچ او، اس کیس کے تفتیشی افسر، ہیڈ کانسٹیبل (مہرر) اور کانسٹیبل شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ تمام چاروں عہدیداروں کو پولیس لائنز ہیڈکوارٹرز میں پولیس لوجسٹک ڈویژن میں تعینات کیا گیا۔
اس سے قبل وزیراعظم عمران خان نے پولیس عہدیداراوں کے خلاف کیس کے اندراج اور ان کے خلاف ادارجاتی کارروائی اور جوڈیشل انکوائری کا حکم دیا تھا۔
بعد ازاں 2 انکوائری رپورٹس کی روشنی میں ڈپٹی انسپکٹر جنرل (آپریشنز) وقار الدین سید کو جون میں اپنے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔
اُس وقت ڈی آئی جی آپریشن وقارالدین سید نے ڈان کو تصدیق کی تھی کہ پولیس رپورٹس کی روشنی میں 4 پولیس عہدیداروں کو ملازمت سے برطرف کیا گیا۔
یہ پولیس افسران کیس درج کرنے میں تاخیر کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا تھا اس کے علاوہ ان پر لڑکی کے والد کو مجبور کرکے تھانے کو صاف کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ایس ایچ اور اور آئی او کے خلاف تعزیزات پاکستان کی دفعہ 166 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا اور یہ کیس عدالت میں تھا۔
اس بارے میں جب ڈی آئی جی آپریشنز وقارالدین سے پوچھا گیا کہ آیا برطرف عہدیداروں کو بحال کردیا گیا تو انہوں نے ‘نہیں’ میں جواب دیا لیکن اگلے ہی لمحے انہوں نے کہا کہ ‘اس بارے میں مجھے کوئی علم نہیں’۔
ڈی آئی جی آپریشن نے مزید کہا کہ مجھے اس معاملے کو دیکھنا ہوگا کیونکہ ہمیں ہماری طاقت (آپریشن ڈویژن) سے خارج کردیا گیا لیکن اس رپورٹ کے جمع کرانے تک جواب نہیں دے سکتا۔
علاوہ ازیں جب ڈی آئی جی ہیڈکوارٹرز محمد سلیم سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس کی تصدیق یا تردید نہیں کی اور کہا کہ ڈی آئی جی آپریشنز سے رابطہ کریں کیونکہ انہوں نے ان لوگوں کو برطرف کیا تھا۔
فرشتہ قتل کیس کا پس منظر
خیال رہے کہ رواں سال مئی میں اسلام آباد کے علاقے شہزاد ٹاؤن کی رہائشی 10 سالہ فرشتہ 15 مئی کو گھر سے باہر نکلی لیکن واپس گھر نہ پہنچی تھی۔
بچی کی گمشدگی کے بعد اہلِ خانہ نے اپنی مدد آپ کے تحت اس کی تلاش کی اور اندراجِ مقدمہ کے لیے پولیس سے رابطہ کیا لیکن پولیس نے اہلِ خانہ کی درخواست پر مقدمہ درج کرنے کے بجائے کہا کہ وہ کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہوگی۔
جس کے بعد رکنِ قومی اسمبلی کی مداخلت اور ان کی جانب سے مذکورہ معاملہ اس وقت کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس محمد عامر ذوالفقار خان کے سامنے اٹھانے پر گمشدگی کے 4 روز بعد 19 مئی کو واقعے کا مقدمہ درج کیا گیا۔
مقدمے کے اگلے ہی روز بچی کی مسخ شدہ لاش تمہ گاؤں کی جھاڑیوں سے برآمد ہوئی جب گاؤں کے کچھ افراد نے لاش دیکھ کر پولیس کو اطلاع دی، بعد ازاں متاثرہ بچی کے والد غلام نبی نے اس کے کپڑوں کی مدد سے لاش کی شناخت کی۔
پولیس کے مطابق لاش 4 روز پرانی تھی اور امکان ظاہر کیا گیا تھا کہ اسے گینگ ریپ اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا تاہم اس کی تصدیق اور لاش کی حتمی شناخت کے لیے ڈی این اے کے نمونے حاصل کیے اور پوسٹ مارٹم کیا گیا۔
لواحقین کے احتجاج کرنے پر تھانہ شہزاد ٹاؤن کے ایس ایچ او کو معطل کردیا گیا تھا جبکہ پولیس حکام نے مقدمہ درج کرنے میں تاخیر کی تردید کی تھی۔
22 مئی کو وزیر اعظم عمران خان نے بچی فرشتہ کے اغوا، مبینہ ریپ اور قتل کے کیس میں ایس ایچ او شہزاد ٹاﺅن اسلام آباد کی گرفتاری میں تاخیر کا سخت نوٹس لیتے ہوئے ڈی آئی جی آپریشنز اور انسپکٹر جنرل پولیس سے وضاحت طلب کر لی تھی۔
پولیس اور اسلام آباد انتظامیہ کے ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے شہزاد ٹاؤن کے سب ڈویژنل پولیس افسر کی معطلی اور سپرنٹنڈنٹ پولیس (دیہی علاقہ جات) کی برطرفی کا حکم بھی دیا تھا۔
جس پر پولیس کے اعلیٰ حکام نے فوری کارروائی کرتے ہوئے شہزاد ٹاؤن تھانے کے ایس ایچ او اور کیس کے تفتیشی افسر کو گرفتار کر لیا تھا۔
بعد ازاں اسلام آباد کے مضافاتی علاقے میں مبینہ ریپ کے بعد قتل کی جانے والی معصوم فرشتہ کے کیس کی جوڈیشل انکوائری کا آغاز کردیا گیا تھا۔
مذکورہ کیس سے متعلق ضلعی مجسٹریٹ نے واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دیتے ہوئے احکامات جاری کیے تھے۔
انکوائری کے دوران فرشتہ کے لواحقین کا کہنا تھا کہ انہوں نے بچی کی گمشدگی کی رپورٹ جمع کروانے کے لیے 3 روز تک متعلقہ تھانے سے رابطہ کیا لیکن تھانے کے ایس ایچ او نے بات کرنے کی زحمت بھی نہیں کی۔