پہلا ہندوستانی نژاد برطانوی وزیراعظم رشی سونک
سوموار 24/ اکتوبر کو جہاں ہندوستانی دھوم دھام سے دیوالی منارہے تھے تو وہیں برطانیہ میں سیاسی طور پر سبھوں کی نظریں نئے وزیراعظم اور کنزرویٹیو پارٹی کے نئے لیڈر پر لگی ہوئی تھی۔اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ پچھلے کچھ سال سے برطانوی وزیراعظم” آیا رام اور گیا رام “کے طور پر خبروں کی سرخیاں بنے ہوئے ہیں۔
دوسری وجہ یہ تھی کہ ہندوستانی نژاد رشی سونک کا کنزرویٹیو پارٹی کے لیڈر شپ کی جنگ کے لئے میدان میں دوبارہ اترنا تھا۔تاہم جب رشی سونک لیڈر شپ کی جنگ لِز ٹرس سے ہار گئے تو ایسا لگا کہ برطانیہ کبھی کسی ایشیائی یا افریقی نژاد فرد کو وزیراعظم قبول نہیں کرے گا۔لیکن اب اسے قسمت کہے یا اتفاق یا جنم کنڈلی جس نے برطانیہ کے رشی سونک کو آخر کار وزیراعظم بنا دیا۔ ویسے میں اسے قسمت ہی کہوں گا۔ ورنہ جس طرح سے کچھ ہفتے پہلے رشی سونک کنزرویٹیو پارٹی کی لیڈر شپ میں ہارے تھے اس سے تو ایسا ہی لگا کہ ہندوستانی نژاد رشی سونک تو کیا برطانیہ میں کبھی کوئی ایشیائی یا افریقی نژاد فرد وزیراعظم نہیں بن سکتا۔
ویسے تو آپ نے ریوالوِنگ ڈور تو دیکھا ہوگا جسے بڑے بڑے دفتروں میں داخل ہونے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔یعنی یہ مسلسل گھومنے والا دروازہ گھومتا رہتا ہے اور اس میں بنے خانے کے ذریعے لوگ اندر اور باہر ہوتے رہتے ہیں۔ٹھیک اسی طرح سے جب سے بریکزٹ ہواہے یعنی برطانیہ یوروپین یونین سے باہر ہوا ہے تب سے کنزرویٹیو پارٹی حکومت بنانے اور نئے وزیراعظم کی تلاش میں ہچکولے کھا رہی ہے۔ جس میں بہت حد تک برطانوی عوام کا بھی ہاتھ ہے جنہوں نے جانتے اور سمجھتے ہوئے بار بار کنزرویٹیو پارٹی کو ہی چناہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک،معاشی بدحالی کا شکار ہوگیا ہے اور آئے دن حکومت اور اس کے وزراء ایک کے بعد ایک آرہے اور جارہے ہیں۔
حال ہی میں لِز ٹرس کے اچانک استعفیٰ دینے کے بعد قیاس آرائی کی جارہی تھی کہ آخر کون بنے گا برطانیہ کا نیا وزیراعظم۔تاہم رشی سونک کا وزیراعظم کی دوڑ میں دوبارہ شامل ہونے سے ایک بار پھر سبھی کی نگاہیں رشی سونک کے وزیراعظم بننے پر لگی ہوئی تھی۔ چونکہ رشی سونک کے والدین ہندوستانی ہیں جس سے ایسی چہ میگوئیاں پھر ہونے لگی تھی کہ کیا یہ ممکن ہے کہ برطانیہ کا پہلا ہندوستانی نژاد وزیر اعظم رشی سونک بن جائے۔لیکن کنزرویٹی پارٹی کی لیڈر شپ میں لِز ٹرس سے ہار کے بعد ایسا لگا کہ رشی سونک بھی ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کی طرح کسی پہاڑ میں جا کر اپنی دوبارہ واپسی کی تپسیا میں بیٹھ گئے ہوں۔ فرق صرف یہ تھا کہ ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی الیکشن کے بعد نتائج سے قبل پہاڑوں میں تپسیا میں بیٹھے تھے۔ ممکن ہے رشی سونک لیڈر شپ کی ہار کے بعد اسکاٹ لینڈ یا یارک شائر کی پہاڑوں میں بھٹک رہے ہوں اور اپنے بھگوان سے نئی وزیراعظم لیز ٹرس کو محض 44دن کی وزیراعظم ہونے کی پراتھنا کر رہے ہوں۔
رشی سونک پہلی بار 2015میں شمالی یارکشائر کے رچمنڈ کے لیے ایک ایم پی کے طور پر منتخب ہوئے تھے۔ شاید ایشیائی نژاد اور ایک امیر ترین ہندوستانی بزنس مین کے داماد ہونے کی وجہ سے سابق وزیراعظم بورس جانسن نے رشی سونک کو فروری 2020میں چانسلر یعنی وزیر خزانہ بنایا تھا۔ تاہم رشی سونک نے جیسے ہی برطانیہ کی معیشت کو سنبھالاان پرکورونا وبا اورلاک ڈاؤن شروع ہوتے ہی معاشی بحران کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔پھر بھی رشی سونک نے بطور چانسلر کرونا امراض سے متاثر لوگوں کی مدد کرنے کیلئے کافی کچھ کیا۔ جس سے رشی سونک کی مقبولیت کافی بڑھ گئی تھی۔لیکن خود رشی سونک کو جون 2020میں وزیراعظم کی رہائش گاہ ڈاؤننگ اسٹریٹ میں لاک ڈاؤن قوانین کو توڑنے پر پولیس کی طرف سے جرمانے کی سزا کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔اس کے علاوہ رشی سونک پر یہ بھی الزام لگا کہ انہوں مہنگائی سے جدوجہد کرنے والے گھرانوں کو درپیش رہنے والے اخراجات کودرگزر کیا تھا۔اس کے بعد ان کے خاندان کے مالی معاملات کی سخت جانچ پڑتال کی گئی۔ جس میں ان کی ارب پتی بیوی اِکشتا مورتی کے ٹیکس کے معاملات پر کافی تنقید ہوئی تھی۔بعد میں رشی سونک کی بیوی نے اعلان کیا کہ وہ اپنے شوہر پر سیاسی دباؤ کو دور کرنے کے لیے اپنی بیرون ملک کمائی پر برطانیہ کا ٹیکس ادا کرنا شروع کر دے گی۔
رشی سونک کے والدین مشرقی افریقہ سے برطانیہ آئے تھے اور دونوں ہندوستانی نژاد تھے۔ رشی سونک 1980میں ساؤتھمپٹن میں پیدا ہوئے تھے۔ جہاں ان کے والد پیشے سے ڈاکٹر تھے اوران کی والدہ فارمیسی کی دکان چلاتی تھیں۔رشی سونک نے پرائیوٹ اسکول ونچسٹر کالج سے اپنی تعلیم مکمل کی اور گرمیوں کی چھٹیوں میں ساؤتھمپٹن کے کری ہاؤس میں ویٹر کے طور پر کام کیا۔ پھر فلسفہ، سیاست اور معاشیات کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے آکسفورڈ یونیورسٹی چلے گئے۔اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں ایم بی اے کی تعلیم کے دوران ان کی ملاقات اپنی اہلیہ محترمہ اِکشتامورتی سے ہوئی جو نارائن مورتی کی بیٹی اور ہندوستانی ارب پتی اور آئی ٹی سروس انفوسس کے شریک بانی ہیں۔
یوں تو دنیا بھر میں سرکاری افسر یا وزیر یا نیتا ہر کوئی تنخواہ سے لے کر دیگر فری اخراجات کا خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔اس کے علاوہ اِدھر ادھر کی آمدنی کا تو کوئی حساب کتاب ہی نہیں ہوتاہے۔تبھی تو مجھے دنیا بھر کے سیاستدان کی بے جا دولت پرحیرانی نہیں ہوتی ہے، جنہیں جمہوریت کے پجاری بیچاری عوام چن کر بھیجتی ہے جس کے بعد ان کی زندگی امیر سے امیر ترین بن جاتی ہے اور بیچارے عوام اسی طرح روزمرہ کے اخراجات سے بے حال وپریشان اپنی زندگی کو بمشکل گزارتے رہتے ہیں۔ برطانوی وزیراعظم کو £164,080پونڈ تنخواہ ملتے ہیں اور سابق وزرائے اعظم سالانہ £115,000پونڈتک کاوصول کر سکتے ہیں۔ تاہم اب تک سابق وزیر اعظموں نے کل £571,348وصول کیا ہے۔اس کے علاوہ دیگر اخراجات ایسے پیں جو وزیراعظم کے لئے فری ہوتے ہیں۔
بورس جانسن کی جگہ لینے کی دوڑ میں سب سے آگے، لیز ٹرس 2015کے انتخابات کے بعد کنزرویٹیو کی چوتھی وزیراعظم بن گئی تھی۔لیکن محض 44 دن بعد ہی محترمہ لیزٹرس ٹائے ٹائے فش ہوگئی۔اس عرصے کے دوران ملک معاشی بحران سے بحرانوں کی طرف گامزن رہا اور لوگوں کا اعتماد اب کسی بھی لیڈر پر نہیں رہا۔خیر اب ایک اور نیا وزیراعظم رشی سونک برطانیہ کو ملا ہے جس سے عام لوگوں سے زیادہ کنزرویٹیو ایم پی امید لگائے بیٹھے ہیں کیونکہ حال کہ ایکزٹ پول میں کنزرویٹیو پارٹی کی ہار کی پیشن گوئی کی گئی ہے،جس سے زیادہ تر کنزرویٹیو ایم پی اپنے دن گن رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر برطانوی وزیراعظم کے آنے اور جانے کی خبروں سے لوگوں نے اپنے اپنے طور پر خوب مزاحیہ پیغامات لگائے ہیں۔ جن میں مجھے ایک پیغام کافی دلچسپ اور معنی خیز لگا،وہ تھا نمبر ٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ پر ائیر بی این بی کا اشتہار۔ یعنی ائیر بی این بی میں لوگ مختصر عرصے کے لئے ٹھہرتے ہیں اور پھر کسی اور منزل کے لئے روانہ ہوجاتے ہیں۔وہیں ایک کارٹون ایسا بھی دیکھا گیا ہے جس میں نمبر ٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ کے باہر کافی ساری جوتے اور چپل پھیلے ہوئے ہیں اور ایک ہندوستانی سپاہی پہرہ دے رہا ہے۔ہندوستانی ٹیلی ویژن پر تو رشی سونک کی وزیراعظم بننے کی خبر کو تویوں دکھایا جانے لگا کہ کچھ پل کے لئے لگا کہ رشی سونک برطانیہ کے نہیں بلکہ ہندوستان کے نئے وزیراعظم بن گئے۔ ویسے مجھے اس بات سے حیرانی نہیں ہوگی جب ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی اپنے 56 انچ سینے کو پھلا کر اورپرجوش ہو کر کہیں یہ نہ کہہ دیں کہ رشی سونک کو وزیراعظم بنا نے میں انہوں نے مہترپن بھومیکا نبھایاہے۔ ویسے رشی سونک کے وزیراعظم بننے پر لندن، لیسٹر، نوٹنگھم، لیڈس، لیورپول کے علاوہ دنیا بھر میں بسے ہندوستانیوں نے خوشی کے مارے اس بار دو دیوالیاں منائی ہیں۔
رشی سونک ایک ایسے وقت میں برطانیہ کے اگلے وزیر اعظم کے طور اقتدار سنبھال رہے ہیں جب ملک کو عام زندگی کے بحران،ہڑتال اور ریسیشن کا سامنا ہے۔اس کے علاوہ روس اور یوکرین کی جنگ کے بعد روس نے انرجی اور گیس کی سپلائی پر پابندی لگا دی ہے۔جس سے گیس کی قیمت دس گنا سے بھی زیادہ ہوچکا ہے اور مہنگائی کے خلاف تحریک چلانے والے گروپ نے کہا ہے کہ گیس کی قیمت بڑھنے سے اب لوگوں کو یہ چننا ہے کہ “ہیٹنگ یا ایٹنگ”۔ یعنی آپ کو گھر گرم رکھنا ہے یا پیٹ بھرنا ہے۔سچ تو یہی ہے کہ پچھلے کچھ مہینوں میں جس طرح گیس اور انرجی کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہے اس سے تو برطانیہ کی آدھے سے زیادہ آبادی کا جینا حرام ہوچکا ہے۔
رشی سونک نے کہا ہے کہ “برطانیہ ایک عظیم ملک ہے لیکن ہمیں ایک گہرے معاشی بحران کا سامنا ہے۔اس لیے میں کنزر ویٹو پارٹی کا لیڈر اور آپ کا اگلا وزیراعظم بننے کے لیے کھڑا ہوں۔ میں اپنی معیشت کو ٹھیک کرنا چاہتا ہوں اور اپنی پارٹی کو متحد کرنا چاہتا ہوں اور مجھے اپنے ملک کے لیے اسے بہتر کر کے دینا ہے”۔
بات تو بطور لیڈر بڑی سچی اور درست کہی ہے لیکن رشی سونک شاید بھول رہے کہ وہ اس جہاز کے کیپٹن بنے ہیں جو ڈوبنے والا ہے اور طوفان میں پھنسا ہے۔ یعنی کنزرویٹیو پارٹی سے زیادہ تر لوگ اکتا گئے ہیں اور ملک کی حالت د ن بدن بد تر ہوتی جارہی ہے۔اس کے علاوہ عام طور پر برطانیہ میں وزیراعظم عام انتخاب میں جیت کر بنتا ہے جب کہ رشی سونک کو کنزرویٹیو پارٹی کے ایم پی نے منتخب کیا ہے۔اب یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ رشی سونک بھی ریوولونگ ڈور سے اندر جائے گیں اور پھر باہر آجائے گے یا وہ ریوولونگ ڈور کو اپنی مثبت اور مضبوط پالیسی سے اندر آنے اور جانے کے عمل کو فی الحال روک دیں گے۔