میجر (ر) خرم روکھڑی کون ہیں اور عمران خان سے ان کے کتنے قریبی تعلقات تھے؟
جمعرات کی شب پاکستان کے نجی چینل جیو نیوز پر حامد میر کے پروگرام میں میجر (ر) خرم حمید روکھڑی کا ایک انٹرویو نشر ہوا جس میں وہ یہ دعویٰ کرتے پائے گئے کہ اُنھوں نے ’ذاتی تعلقات‘ کو بروئے کار لاتے ہوئے میجر جنرل فیصل نصیر سے عمران خان کی ایما پر ناصرف خود ملاقات کی بلکہ ایک ملاقات میں پی ٹی آئی رہنما گلوکار سلمان احمد بھی شریک ہوئے۔
اس انٹرویو کے نشر ہونے کے بعد پی ٹی آئی کے بعض اہم رہنما میجر (ر) خرم حمید سے اظہار لاتعلقی کرتے پائے گئے جبکہ جمعہ کی شام تحریک انصاف نے اُن کی بنیادی پارٹی رکنیت بھی ختم کر دی۔
میجر (ر) خرم حمید روکھڑی کے مذکورہ انٹرویو اور بعد کی صورتحال نے کئی سوالات کو جنم دیا، جن میں اہم سوال یہ بھی ہے کہ وہ کس طرز اور سطح کے سیاست دان ہیں، ان کی سیاست کا آغاز کیسے اور کب ہوا؟ اور پی ٹی آئی میں اُن کا کردار کتنا اور کس اہمیت کا حامل رہا ہے؟
سوال یہ بھی ہے کہ اُن کے عمران خان سے تعلقات کس نوعیت کے تھے اور پی ٹی آئی کے مقامی حلقوں میں یہ تاثر کیوں پایا جاتا ہے کہ میجر خرم سابق وزیرِ اعظم کی ہمشیرہ علیمہ خان کے قریبی ہیں؟ اس رپورٹ میں ہم اِن سوالات کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔
میانوالی شہر میں جہاز چوک سے آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر سماجی و سیاسی سطح پر مشہور قصبہ ’روکھڑی‘ واقع ہے جو میجر (ر) خرم حمید کا آبائی علاقہ ہے تاہم اب اُن کا خاندان میانوالی شہر کے ایک محلہ یارو خیل میں آباد ہے۔
اُن کے والد اصغر خان روکھڑی مشہور وکیل تھے اور زیادہ عرصہ لاہور میں مقیم رہے۔ اصغر خان روکھڑی کے بارے میں مقامی سیاست دان اور میجر ریٹائرڈ خرم حمید کے دوست پرویز خان شہباز خیل کا کہنا ہے کہ ’وہ (اصغر خان) کُھلے ذہن کے حامل شخص تھے۔‘
اسی طرح ایک اور مقامی سیاسی کارکن زبیر خان نیازی، جن کی والدہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی کزن ہیں، کا کہنا تھا کہ ’میجر (ر) خرم حمید کے والد اصغر خان روکھڑی فوجداری معاملات کے اہم وکیل تھے اور دائیں بازو کے خیالات کے حامل تھے۔‘
زبیر خان نیازی نے بتایا کہ ’خرم مجھ سے دو سال جونیئر تھے۔میں جب تھرڈ ایئر کا سٹوڈنٹ تھا، تو یہ گورنمنٹ کالج میانوالی میں فرسٹ ایئر میں داخل ہوئے۔ زمانہ طالبعلمی میں ان کے پاس کالے رنگ کی کاواساکی موٹر سائیکل ہوتی تھی۔ بعد میں وہ فوج میں چلے گئے۔‘
بی بی سی کے رابطہ کرنے پر میجر (ر) خرم حمید کا کہنا تھا کہ ’میں 1987 میں فوج میں گیا اور 2012 میں ریٹائرڈ ہوا۔ لیکن میں گورنمنٹ کالج میانوالی کا سٹوڈنٹ کبھی نہیں رہا۔‘
میجر (ر) خرم حمید میانوالی کی سیاست میں کتنے سرگرم ہیں؟
پرویز خان شہباز خیل کا دعویٰ ہے کہ ’یہ (خرم) مجھے کہتے تھے کہ کسی طرح پی ٹی آئی کا حصہ بنوا دیں۔ پھر میرے ایک عزیز نے اس کو امجد خان سے ملوایا۔ امجد خان نے اُن کے اعزاز میں ایک تقریب رکھی اور انھیں میانوالی ضلع کا سینیئر نائب صدر بھی بنا دیا، مگر بعد میں امجد خان سے بھی خرم کے معاملات خراب ہوگئے۔‘
اسی طرح کی رائے کا اظہار زبیر خان نیازی کا بھی تھا۔
تاہم جب میجر (ر) خرم حمید سے اس بابت پوچھا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ ’میں پی ٹی آئی کا ووٹر تھا۔ پی ٹی آئی میں خود آیا اور اپنے متحرک سیاسی کردار سے ضلعی سینیئر نائب صدر بنا۔اس میں امجد خان کا کوئی کردار نہیں۔البتہ جس تقریب میں، مجھے یہ عہدہ دیا گیا وہ تقریب امجد خان نے کروائی تھی۔‘
سلیم گُل جو اس وقت پی ٹی آئی میانوالی کے ضلعی صدر ہیں، کا کہنا ہے کہ ’میجر خرم پی ٹی آئی کے ووٹر اور سپورٹر ضرور تھے مگر زیادہ متحرک نہیں تھے۔ یہ تھوڑا عرصہ کے لیے ضلعی سینیئر نائب صدر رہے مگر پھر جلد ہی اس عہدے سے الگ ہوگئے۔ وہ عمران خان کے قریب کبھی نہیں رہے۔‘
عمران خان اور میجر خرم کے تعلقات کیسے تھے؟
جب یہ سوال میانوالی میں میجر (ر) خرم حمید کے قریبی حلقے کے لوگوں کے سامنے رکھا گیا تو زبیر خان نیازی کا کہنا تھا کہ ’عمران خان کے یہ کبھی قریب نہیں رہے۔ایک، آدھ ملاقات نمل کالج میں ہوئی تھی۔ وہ بھی اس وجہ سے کہ وہاں عمران خان آئے ہوئے تھے اور یہ اُس تقریب میں موجود تھے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ایک بار عمران خان کا پورٹریٹ بھی انھوں نے پی ٹی آئی چیئرمین کو پیش کیا تھا۔‘
اسی سوال کے جواب میں پرویز خان شہباز خیل کا کہنا تھا کہ ’میانوالی میں، حفیظ اللہ خان نیازی، ضیا اللہ خان اور میں عمران خان کے ساتھ، ضیا اللہ خان کی سرخ رنگ کی جیپ میں سیاسی میٹنگز کرتے تھے۔ میں ستانوے، اَٹھانوے سے پی ٹی آئی کے ساتھ ہوں اور 2012 سے پہلے پارٹی کی مقامی ذمہ داری میرے سپرد تھی۔ میجر خرم ریٹائرمنٹ کے بعد میرے قریب رہا۔ ان کی عمران خان سے کبھی کوئی خاص ملاقات نہیں ہوئی۔‘
پی ٹی آئی رہنما سلیم گل نے دعویٰ کیا کہ ’یہ تو کبھی سیاسی طور پر متحرک ہی نہیں رہے۔جب کبھی میانوالی عمران خان نے آنا ہوتا تو یہ تھوڑا بہت سرگرم ہو جاتے تھے۔‘
مقامی سینیئر صحافی غلام حسین کے مطابق ’میجر خرم کا عمران خان سے تو شاید کوئی تعلق کبھی نہیں رہا۔ مقامی سطح پر یہ سیاسی طور پر زیادہ سرگرم بھی نہیں رہے۔
تاہم میجر (ر) خرم حمید سے جب اس بابت پوچھا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ ’2014 سے سیاست میں سرگرم ہوں۔ کئی شہروں میں پی ٹی آئی کی انتخابی مہم کا حصہ رہا ہوں اور ہر جلسے جلوس میں موجود ہوتا ہوں لیکن مجھے زیادہ نمایاں ہونے کا شوق نہیں۔ میں سٹیج پر آگے آنے کے لیے دھکے نہیں کھا سکتا، اس لیے پیچھے رہنا پسند کرتا ہوں۔‘
میجر (ر) خرم حمید نے سابق وزیرِ اعظم کی بہن علیمہ خان کا اعتماد کیسے حاصل کیا؟
اُن کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ علیمہ خان کے بہت قریب ہیں اور اس کا اقرار مقامی رہنما اور صحافی بھی کرتے ہیں۔
اس حوالے سے پرویز خان کا کہنا ہے کہ ’میانوالی میں نمل کالج کے انتظامات ایک پروفیسر جان خان دیکھتے تھے۔ یہ سب سے پہلے اُن کے قریب ہوئے، نمل آنا جانا شروع کر دیا کیونکہ یہ رابطہ کرنے اور اسے پروان چڑھانے کی شہرت رکھتے ہیں۔ وہاں کی تقریبات میں شامل ہونے لگے اور یہیں سے اُن کا تعلق علیمہ خان سے بنا۔ یہ نمل کالج کی انتظامیہ کو مقامی نوعیت کے مسائل حل کروانے میں معاونت فراہم کرتے تھے۔
زبیر خان نیازی کا کہنا ہے ’میجر خرم نے فنڈ ریزنگ کا ایک آدھ پروگرام بھی کروایا۔ یہ نمل کالج کے انتظامات میں دلچسپی لیتے تھے اور کوئی بھی مسئلہ درپیش ہوتا تو اسے یہ حل کرواتے۔‘
مقامی صحافی رانا اقبال اور غلام حسین بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہیں کہ نمل کالج کے انتظامی مسائل میں اِن کی دلچسپی کی وجہ سے علیمہ خان انھیں چھوٹے موٹے مسائل بتا دیتیں جنھیں یہ حل کروا دیتے۔
اسی طرح کا خیال مقامی شخص ملکطارق رکھی کا بھی ہے جو کہ پی ٹی آئی کی ضلعی سیاست میں متحرک رہے۔ ’فنڈ ریزنگ کروانے میں متحرک کردار اور نمل کالج کے انتظامات میں دلچسپی انھیں علیمہ خان کی نظروں میں لانے کا باعث بنی۔‘
جب میجر (ر) خرم حمید سے ہم نے پوچھا کہ علیمہ خان سے تعلق کیسے بنا؟ تواُن کا کہنا تھا کہ ’مَیں نے نمل میں کئی تقریبات کروائیں، فنڈ ریزنگ کی۔ نمل کالج کے انتظامات کی ذمہ داری میرے سپرد رہی۔ علیمہ خان مجھ پر اس سلسلے میں اعتماد کرتی ہیں۔‘
مگر کیا موجودہ صورتحال میں ان پر علیمہ خان کا اعتماد برقرار رہ پائے گا؟ اس سوال کے جواب میں میجر (ر) خرم نے کہا کہ ’میں علیمہ خان کا ذکر بیچ میں نہیں لانا چاہتا۔ جہاں تک تعلقات کی بات ہے تو ایک بار دراڑ آ جائے تو قائم رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ وہ عمران خان کی بہن ہیں اور صاف ظاہر ہے کہ عمران خان کے ساتھ کھڑی ہوں گی۔‘
میجر (ر) خرم حمید نے انیل مسرت کو زمین کیسے خرید کر دی؟
جولائی 2019 میں میانوالی میں ہسپتال کے سنگ بنیاد کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے انیل مسرت کی مالی معاونت کا شکریہ ادا کیا تھا۔ میانوالی کے علاقہ موسیٰ خیل میں انیل مسرت کے مالی تعاون سے ہسپتال کے لیے چار سو کنال جگہ خریدی گئی۔
مشتاق نیازی جو کہ مقامی زمین دار ہیں اور اُن کی زمین اس چار سو کنال زمین کے ساتھ بھی ہے، کا کہنا تھا ’یہ زمین انیل مسرت نے خریدی اور زمین کی خریداری میں میجر(ر) خرم حمید کا بنیادی کردار تھا۔‘
زمین کے مالکان میں سے عمران یوسف ایڈووکیٹ نے ہمیں بتایا کہ ’یہ زمین لگ بھگ چار سو کنال کے قریب تھی۔ یہ ہماری وراثتی زمین تھی، جو ہسپتال کے لیے سستے داموں ہم نے فروخت کی، بلکہ ایک لحاظ سے گفٹ کی۔ میجر خرم کا میرے بھائی کے ساتھ تعلق رہا ہے۔اس زمین کی فروخت میں اُن کا کردار تھا۔ ہم نے ہسپتال کے لیے زمین دی مگر ابھی تک اس پر کوئی کام نہیں ہوا۔‘ اس طرح کی اطلاعات مقامی صحافیوں اور سیاستدانوں نے بھی بتائیں۔
اس ضمن میں میجر (ر) خرم حمید کا کہنا تھا کہ ’یہ زمین میری وجہ سے خریدی گئی۔ یہ اور اس طرح کی دیگر ذمہ داری نبھانے پر مجھے علیمہ خان کا اعتماد حاصل ہوا تھا۔‘
کیا پی ٹی میں آئی میں شمولیت سے قبل میجر خرم جماعت الدعوۃ میں بھی رہے؟
میانوالی میں شہباز خیل موڑ پر جامع مسجد ابوبکر ہے۔ یہ مسجد پرویز خان شہباز خیل کی عطیہ کردہ زمین میں قائم ہے۔
زبیر خان نیازی کا دعویٰ ہے کہ |پی ٹی آئی میں شمولیت سے پہلے میجر خرم جماعت الدعوۃ کے حامی بھی رہے اور مختلف مساجد سمیت جامع مسجد ابوبکر میں بعض مواقع پر نماز بھی پڑھاتے رہے۔ خرم نے اپنے والد کا جنازہ خود پڑھایا تھا، میں اس جنازے میں شامل تھا۔ یہ اُن کی ریٹائرڈ منٹ کے فوری بعد کا زمانہ ہے۔ اس وقت ان کی داڑھی طویل تھی اور شلوار ٹخنوں سے اونچی رہتی تھی۔‘
پرویز خان شہباز خیل سے جب رابطہ کیا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ ’اس مسجد کے لیے زمین ہم نے مختص کی تھی اور میجر خرم اس میں ایک عرصہ تک نماز پڑھاتے رہے۔ تاہم جلد ہی جماعت الدعوۃ سے منحرف ہو گئے۔‘
تاہم میجر (ر) خرم حمید اس کی نفی کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا ’مَیں ہندوؤں کے ساتھ بھی بیٹھنے کو تیار رہتا ہوں۔ مسیحیوں کے ساتھ بھی میری دوستیاں ہیں۔اسی طرح ہر فرقے اور مسلک کے لوگوں کے ساتھ تعلقات میں مجھے کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ اگر کوئی میرے ساتھ اُٹھتا بیٹھتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں اس جماعت کا حصہ ہوں۔‘