صحت

بریسٹ کینسر کی ویکسین کے ٹرائل کے حوصلہ کن نتائج

Share

امریکی ماہرین کی جانب سے تیار کردہ بریسٹ کینسر کے علاج کی ویکسین کے ابتدائی ٹرائل کے حوصلہ کن نتائج کے بعد سائنسدانوں کو امید ہے کہ ویکسین علاج کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگی۔

دنیا بھر کے ماہرین گزشتہ چند سال سے موذی مرض کینسر کے علاج کے جدید اور تیز رفتار طریقے تلاش کرنے میں مصروف ہیں اور اسی ضمن میں امریکا کی یونیورسٹی آف واشنگٹن اور میڈیسن کینسر ویکسین انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے بریسٹ کینسر کے علاج کے لیے بنائی گئی ویکسین کا تجربہ کیا گیا۔

ماہرین نے مذکورہ ویکسین کو تجربے کے لیے بنایا تھا، جس کے ابتدائی ٹرائل کے نتائج نے سائنسدانوں کو اس پر مزید تحقیق کے لیے آمادہ کیا۔

طبی جریدے ’جاما آنکالوجی‘ میں شائع تحقیق کے مطابق ماہرین کی جانب سے تیار کرہ ویکسین بریسٹ کینسر کا سبب بننے والی خصوصی پروٹین ’اِی آر بی بی ٹو‘ یا ’ایچ ای آر ٹو‘ (ERBB2 یا HER2) ’ کو نشانہ میں کامیاب گئی۔

تحریر جاری ہے‎

مذکورہ پروٹین بریسٹ کینسر میں غدود یا گُلٹی پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے اور یہ پروٹین اوورین سمیت دیگر کینسرز کے تیزی سے پھیلاؤ میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔

ماہرین نے تجربے کے لیے 34 سے 77 سال کی 66 خواتین رضاکاروں کی خدمات حاصل کیں، جن میں ایڈوانس اسٹیج کے بریسٹ کینسر کی تشخیص ہوئی تھی۔

ماہرین نے رضاکار خواتین کو تین مختلف گروپوں میں تقسیم کرتے ہوئے انہیں 10 سے 100 اور 500 مائگروگرام کی ویکسین دینے کے بعد ان کے خون اور ڈی این اے کے ٹیسٹ بھی کیے۔

رضاکاروں کو تین ماہ تک ماہانہ بنیادوں پر نئی ویکسین کی مختلف خوراکیں دی گئیں۔

ماہرین نے ٹرائل کے اختتام پر تمام رضاکاروں کے ٹیسٹ کیے تو نتائج سے معلوم ہوا کہ جن خواتین کو 100 سے 500 مائکروگرام کا انجکشن لگایا گیا، ان کا قوت مدافعت مضبوط ہوکر کینسر کے سیلز سے جنگ کرنے کے لیے تیار ہوگیا جب کہ 10 مائکرو گرام انجکشن والے رضاکاروں کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچا۔

تحقیق کے دوران ویکسین سے رضاکاروں میں بخار، نزلے اور تھکاوٹ جیسے منفی اثرات بھی رپورٹ کیے گئے۔

ماہرین نے تجرباتی ویکسین کے ابتدائی ٹرائلز کے نتائج کو حوصلہ کن قرار دیتے ہوئے اس پر مزید تحقیق کرنے پر زور دیا ہے اور امید کا اظہار کیا ہے کہ مستقبل میں مذکورہ ویکسین فائدہ مند ثابت ہوگی۔

ماہرین کے مطابق یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ بریسٹ کینسر کے لیے بنائی گئی مذکورہ ویکسین کب تک عام استعمال کے لیے تیار ہوگی، تاہم اس میں چند سال لگ سکتے ہیں۔