دنیابھرسے

بنگلہ دیش کے زرِ مبادلہ کے ذخائر پر آئی ایم ایف کا اعتراض کیا؟

Share

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے کہا ہے کہ بنگلہ دیش کے زرمبادلہ کے ذخائر کا جس طرح سے اندازہ لگایا جا رہا ہے وہ درست نہیں ہے۔ آئی ایم ایف جس طرح سے حساب لگانے کو کہہ رہا ہے اس کے مطابق ملک کے موجودہ ذخائر 26 ارب ڈالر ہیں۔

بنگلہ دیش بینک کے گورنر عبدالرؤف تالقدار نے 9 نومبر کو آئی ایم ایف کے نمائندوں سے ملاقات کے بعد کہا کہ ’ملک کے پاس اس وقت 34.3 ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر ہیں۔ اس میں سے آٹھ ارب ڈالر گھٹا کر جو رقم بچے گی وہ زرمبادلہ کے نیٹ ذخائر ہیں ۔ اس تناظر میں نیٹ ذخائر کی رقم 26.3 ارب ڈالر ہے۔ انہوں نے پریس کانفرنس میں کہا کہ آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کو مجموعی کے بجائے نیٹ میں ظاہر کیا جائے۔ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

زرمبادلہ کے ذخائر کا حساب کیسے کیا جاتا تھا ؟

دنیا کے تمام ممالک میں مرکزی بینک کے پاس موجود زرمبادلہ کے ذخائر کو ملک کا نیٹ ذخیرہ تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن بنگلہ دیش میں اب تک ریزرو کا حساب نیٹ ریزرو کے ساتھ ساتھ مختلف چیزوں میں سرمایہ کاری یا ریزرو سے قرض کے طور پر دیے جانے والے ڈالرز کو بھی شامل کیا جاتا تھا۔

بنگلہ دیش بینک کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ملک میں زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر کی مقدار 34.23 ارب ڈالر ہے۔ آئی ایم ایف نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق بنگلہ دیش بینک کو وہی رقم ظاہر کرنی چاہیے جو اس نے استعمال کے لیے رکھی ہے۔ ورنہ ذخائر کے معاملے پر درست پیغام نہیں جائے گا۔

آئی ایم ایف
،تصویر کا کیپشنآئی ایم ایف کے مطابق بنگلہ دیش کے زرمبادلہ کے ذخائر کا اندازہ درست نہیں ہے

بنگلہ دیش بینک کے ترجمان ابوالکلام آزاد نے اتوار کو بی بی سی بنگلہ سے بات کرتے ہوئے کہا، ’ہم مجموعی اور خالص دونوں کھاتوں کو رکھتے تھے۔ لیکن ذخائر کو مجموعی طور پر دکھایا گیا۔ اب متعلقہ محکمے اسے نیٹ ذخائر کے طور پر دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس وقت یہ عمل جاری ہے۔

بنگلہ دیش بینک کے گورنر نے بدھ کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا ’ہم نے مختلف اشیاء میں تقریباً آٹھ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ اس میں کمی کے بعد نیٹ ذخائر 26.3 ارب ڈالر ہو جائیں گے۔

یم ن امیں ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ فنڈ ای ڈی ایف میں 60 کروڑ ڈالر شامل ہیں تاکہ برآمد کنندگان کو مختلف اشیاء کی برآمدات میں سہولت فراہم کرنے کے لیے غیر ملکی کرنسی میں قرضے حاصل کرنے کے قابل بنایا جا سکے، ماحول دوست صنعتوں میں سرمایہ کاری کے لیے قائم کیے گئے گرین ٹرانسفارمیشن فنڈ جی ٹی ایف میں 20 کروڑ ڈالر، لانگ ٹرم فائنینشل فیسیلٹی میں سے 3.5 ملین ڈالر کو بھی بنگلہ دیش کے مجموعی زرمبادلہ کے ذخائر کے حصے کے طور پر دکھایا گیا ہے۔

گورنر نے کہا ہے کہ ’ہم آئی وی ایف کے تحت 120 دن کے لیے قرض دیتے ہیں۔ آپ جب چاہیں اسے واپس لے سکتے ہیں۔ معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے اگست 2021 میں بنگلہ دیش کے ریزرو سے سری لنکا کو 20 کروڑ ڈالر کا قرض دیا گیا۔ اس سے پہلے مسلسل تین ماہانہ اقساط میں واپس کرنے کی بات ہوئی تھی۔ لیکن بعد میں اس ڈیڈ لائن میں توسیع کر دی گئی۔ اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ہم سری لنکا کو دیا گیا 20 کروڑ ڈالر کا قرض واپس کرنے کی سمت کام کر رہے ہیں۔ سری لنکا کے گورنر سے ملاقات ہوئی ہے۔ انہوں نے یہ قرض واپس کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ لیکن سرمایہ کاری شدہ فنڈز یا قرض کی رقم کی عدم ادائیگی کی وجہ سے بنگلہ دیش کے ذخائر 26.3 ارب ڈالر رہیں گے‘۔



علامتی تصویر
،تصویر کا کیپشنبرآمدات اور ترسیلات بنگلہ دیش کی زرمبادلہ کمانے کا اہم ذریعہ ہیں

26 ارب ڈالر کے ریزرو کا کیا مطلب ہے؟

برآمدات اور ترسیلات زربنگلہ دیش کے زرمبادلہ کمانے کا اہم ذریعہ ہیں۔ لیکن گزشتہ اکتوبر سے ان دونوں کی آمدنی میں کمی آئی ہے۔ اکتوبر میں ترسیلات زر کے ذریعے 164.70 کروڑ ڈالر کا زرمبادلہ ملک میں آیا جو کہ گزشتہ ڈیڑھ سال میں سب سے کم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں برآمدی آمدنی بھی 7.85 فیصد کم ہو کر 4.35 ارب ڈالر رہ گئی۔ جس کی وجہ سے بیلنس آف پیمنٹ کا خسارہ مزید بڑھ گیا ہے۔

بنگلہ دیش بینک کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق جولائی سے ستمبر کے تین ماہ کے دوران غیر ملکی لین دین کا موجودہ تجارتی توازن خسارہ 36.1 کروڑ ڈالر رہا۔ یعنی 3.61 ارب ڈالر کی اشیاء برآمد کی گئیں لیکن مجموعی تجارتی خسارہ 7.55 بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ یعنی اس عرصے کے دوران بنگلہ دیش کی برآمدات اور ترسیلات سے 1180 کروڑ ڈالر کی آمدنی ہوئی۔ لیکن درآمدات کے اخراجات اور بیرون ملک جانے والی کرنسی کی کل رقم 1935 کروڑ ڈالر تھی۔ یعنی مجموعی تجارتی خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔

مالی سال 2022-2023 کا آغاز 18.70 ارب ڈالر کے بھاری توازن ادائیگی کے خسارے کے ساتھ ہوا۔ تاہم غیر ملکی قرضے اور مالی امداد حاصل کرکے اور درآمدی اخراجات میں کمی سے اس خسارے کو کسی حد تک پورا کیا جاتا ہے۔

لیکن جس طرح بنگلہ دیش کا تجارتی خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے، ماہرین اقتصادیات کو اس خسارے کو پورا کرنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ بنگلہ دیش کی قومی پارلیمنٹ میں وزیر اعظم شیخ حسینہ نے 6 نومبر کو کہا تھا، ’ہمارے پاس موجود ذخائر کی مقدار سے کم از کم پانچ ماہ کے درآمدی اخراجات کی ادائیگی ممکن ہے۔

علامتی تصویر
،تصویر کا کیپشنملک میں درآمدی اخراجات کے مقابلے برآمدی آمدنی اور ترسیلات میں اضافہ نہیں ہو رہا

لیکن برآمدات اور ترسیلات سے آمدنی میں کمی کے باعث موجودہ تجارتی خسارہ مزید بڑھ رہا ہے۔ اس نقصان کو پورا کرنے کے لیے بنگلہ دیش کے ذخائر سے ہر ماہ 833 ملین ڈالر کی رقم کم کی جا رہی ہے۔ ماہریِن اقتصادیات اس سے پریشان ہیں۔ ماہرین اقتصادیات اور محقق غلام معظم کا کہنا ہے کہ درآمدی اخراجات کے مقابلے برآمدی آمدنی اور ترسیلات میں اضافہ نہیں ہو رہا بلکہ کم ہو رہا ہے، اس سے فرق بڑھ رہا ہے۔ اس کی تلافی کے لیے ذخائر سے فنڈز دینے پڑتے ہیں۔ لیکن یہ فرق مسلسل بڑھ رہا ہے. بنگلہ دیش کی حکومت صرف اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے آئی ایم ایف سے قرض لے رہی ہے۔ لیکن بنگلہ دیش کا تجارتی خسارہ جس سطح پر پہنچ چکا ہے، اس قرض سے بھی اسے پورا کرنا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف نے اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے کچھ اصلاحات تجویز کی ہیں۔ ان میں ریونیو اور ٹیکسز کی مد میں بہتری، اخراجات کا معقول نظام تیار کرنا، اور زرِ مبادلہ کی جدید پالیسی تیار کرنا شامل ہے۔