تھکاوٹ کا ہماری نیند سے کتنا تعلق ہے اور کیا انسان بغیر نیند کے بھی تر و تازہ رہ سکتا ہے؟
ہم ایک تیز رفتار دنیا میں رہتے ہیں جہاں کرنے کو ہمیشہ بہت کچھ ہوتا ہے۔ نوکری، لوگوں کے ساتھ میل ملاقات، خاندان اور دوستوں کا خیال رکھنا، ای میل اور فیس بک چیک کرنا، موبائل پر رابطے میں رہنا۔
اس تیز رفتار زندگی کی وجہ سے ہمیں اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم کسی کنویئر بیلٹ پر موجود ہیں جس کی رفتار مسلسل بڑھ رہی ہے۔
ایک ایسی دنیا جہاں ہمیشہ زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی خواہش ہوتی ہے مگر ایک چیز ایسی بھی ہے جو مسلسل کم ہو رہی ہے: یہ ہمارے سونے کے اوقات ہیں۔
جب ہم اپنے دوستوں سے پوچھتے ہیں کہ آپ کیسا محسوس کرتے ہیں تو اکثر جواب ملتا ہے کہ ’ہم تھک گئے ہیں۔‘
دنیا بھر میں نیند کی کمی پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ نیند کی کمی سے امریکی معیشت کو سالانہ چار ٹریلین ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔
اب اہم سوال یہ ہے کہ تھکاوٹ کا ہماری نیند سے کتنا گہرا تعلق ہے اور کیا انسان بغیر نیند کے بھی تروتازہ رہ سکتا ہے؟
بی بی سی نے اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے چار ماہرین سے بات کی۔
پرانے زمانے میں لوگ کتنا سوتے تھے؟
یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈیوڈ سیمسن کا کہنا ہے کہ ’تقریباً سات ماہ تک میں رات کو جاگ کر کام کرتا تھا۔ ایک گریجویٹ طالب علم کے طور پر، اگر آپ اپنا کام مکمل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کے پاس جذبہ ہونا چاہیے۔‘
ڈیوڈ سیمسن کی نیند اس وقت ختم ہو گئی تھی جب وہ طالب علم تھے۔ اب ایک ماہر حیاتیات کے طور پر، وہ دور دراز علاقوں میں بہت سفر کرتے ہیں۔ انھوں نے اورنگوٹین کو سوتے ہوئے دیکھنے کے لیے تقریباً دو ہزار گھنٹے کی ویڈیو گرافی کا تجزیہ کیا کیونکہ ڈیوڈ ارتقا اور نیند کے درمیان تعلق کو سمجھنا چاہتے تھے۔
اورنگوٹین نو سے سولہ گھنٹے سوتے ہیں۔ ڈیوڈ سیمسن نے اس کی بنیاد پر ایک ماڈل تیار کیا اور اندازہ لگایا کہ انسانوں سے کتنے گھنٹے کی نیند کی توقع کی جا سکتی ہے۔
ڈیوڈ سیمسن کہتے ہیں کہ ’انسانوں کو 24 گھنٹوں میں 10.3 گھنٹے سونا چاہیے۔ یقیناً ہم ایسا نہیں کرتے، ہمیں اوسطاً چھ یا سات گھنٹے کی نیند آتی ہے۔‘
نیند کے فوائد
ڈیوڈ بتاتے ہیں کہ ’گہری نیند بہت فائدہ مند ہے۔ یہ یادداشت کو بہتر بناتی ہے اور جذبات کو کنٹرول کرنے میں مدد کرتی ہے۔‘
مختصر یہ کہ انسان بڑے بندروں کے مقابلے میں کم سوتے ہیں لیکن اس سے کہیں زیادہ گہری نیند سوتے ہیں۔
ڈیوڈ سیمسن کی تحقیق کے مطابق یہ تبدیلی 18 لاکھ سال پہلے ہوئی تھی جب جھونپڑی اور آگ کی دریافت نے بہتر نیند میں مدد کی۔
کم وقت سونے کا مطلب ہے کہ ہمارے پاس دوسرے کام کرنے کے لیے زیادہ وقت ہے۔
ڈیوڈ سیمسن نے ہمارے آباؤ اجداد کی نیند کے نمونوں کو سمجھنے کے لیے Fitbit نامی مانیٹر استعمال کیا۔ یہ تنزانیہ کے ایک قبیلے کی کلائی پر باندھا گیا تھا۔
ڈیوڈ سیمسن بتاتے ہیں کہ ’وہ رات میں چھ یا ساڑھے چھ گھنٹے سوتے ہیں۔ وہ دن میں کچھ دیر سوتے ہیں۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان میں سے زیادہ تر 24 گھنٹے کے دوران سات گھنٹے تک سوتے ہیں۔‘
نیند پر صنعت کاری کا اثر
ڈیوڈ سیمسن نے تنزانیہ میں رہنے والوں سے پوچھا کہ کیا انھیں نیند کی کمی کا کوئی مسئلہ ہے تو جواب تھا ’نہیں۔‘
ڈیوڈ نے مڈغاسکر کے کسانوں پر بھی نظر رکھی۔ ان میں سے اکثر کو صرف سات گھنٹے کی نیند مل رہی تھی۔
ڈیوڈ بتاتے ہیں کہ مڈغاسکر کے کسان ٹائم ٹیبل پر سختی سے عمل کرتے ہیں۔ ’وہ ایک خاص وقت پر اٹھتے ہیں، مقررہ اوقات میں کام کرتے ہیں اور مقررہ وقت پر سو جاتے ہیں۔‘
دوسری طرف تنزانیہ کے قبائلی عوام کا نقطہ نظر مختلف ہے۔
ڈیوڈ سیمسن بتاتے ہیں کہ ’ان کی زندگی میں زیادہ لچک ہے۔ خاص طور پر کام کے وقت کے ساتھ۔ کسی نہ کسی طرح اس کا تعلق اس حقیقت سے بھی ہے کہ ان کو نیند کے مسائل نہیں ہوتے جبکہ وہ زیادہ نہیں سوتے۔‘
صنعت کاری نے بھی انسانی نیند کو متاثر کیا۔
راجر ایکرک تاریخ کے پروفیسر ہیں۔ 1980 کی دہائی کے وسط میں وہ صنعتی دور سے پہلے رات کی زندگی پر ایک کتاب لکھ رہے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب بجلی نہیں تھی۔
ہر کسی کی طرح، راجر نے بھی یقین کیا کہ انسان ہمیشہ اسی طرح سوتے ہیں جس طرح ہم اب سوتے ہیں۔ یعنی وہ ایک ہی وقت میں نیند پوری کر لیتے ہیں لیکن مطالعے کے دوران مختلف معلومات سامنے آئیں۔
راجر ایکرک بتاتے ہیں کہ ’مجھے پہلی نیند، یعنی نیند کے پہلے دور کے بارے میں معلومات ملنا شروع ہوئیں۔ اس کا تذکرہ اس طرح ہوا جیسے یہ ایک عام سی بات ہو۔ اس کے بعد دوسری جھپکی کی بات سامنے آئی۔ اہم بات یہ تھی کہ لوگ آدھی رات کے بعد سو رہے تھے۔‘
راجر ایکرک نے اس بارے میں جتنی زیادہ تحقیق کی، اتنی ہی زیادہ معلومات حصوں میں لی گئی نیند سے متعلق پائی گئیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’چارلس ڈکنز سے لے کر ٹالسٹائی تک یورپ کے تقریباً ہر بڑے ناول نگار نے نیند کے اس انداز کا ذکر کیا ہے۔‘
’پہلی اور دوسری نیند کے درمیان لوگ جو کچھ کرتے تھے وہ سب سے زیادہ دلچسپی پیدا کرنے والی چیز تھی۔‘
راجر ایکرک کہتے ہیں کہ ’کچھ لوگوں کے لیے یہ مراقبہ کرنے کا صحیح وقت تھا۔ وہ ان خوابوں کے بارے میں سوچیں گے جو انھوں نے حال ہی میں دیکھے تھے۔ ان کے پاس کبھی ایسا وقت نہیں تھا جہاں اتنی خاموشی ہو۔‘
اسے 16ویں صدی کے فرانسیسی معالج کے الفاظ میں بیان کریں تو یہ وقت جوڑوں کے لیے بہت بہتر تجربہ حاصل کرنے کا وقت تھا۔
نیند اور تھکاوٹ
خوش رہنا اچھی چیز ہے لیکن کیا اس وقت بھی لوگ تھکاوٹ محسوس کرتے تھے؟
اس سوال پر راجر ایکرک کا کہنا ہے کہ ’ہاں، وہ تھکاوٹ محسوس کرتے تھے، اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ دو حصوں میں سوتے تھے جس کی وجہ سے کافی نیند نہیں آتی۔‘
19ویں صدی سے نیند سے متعلق حالات میں بہتری آئی اور یہاں سے دو مرحلوں میں سونے کی عادت تبدیل ہونے لگی۔ صنعتی انقلاب کے ساتھ وقت پیسے کی طرح قیمتی ہو گیا۔ کام کی کارکردگی اور پیداواری صلاحیت کو بہت اہمیت دی گئی۔ جلدی اٹھنے کی مہم بھی چلائی گئی۔
جو لوگ نئے طریقہ کار کے مخالف تھے انھوں نے لندن میں 1851 کی نمائش میں اس کا حل تلاش کیا۔
راجر ایکرک بتاتے ہیں کہ ’ایک الارم بستر سے جلدی اٹھنے والوں کے لیے بنایا گیا تھا۔ گھنٹی بجنے کے بعد، اس کا اگلا حصہ نیچے گر جاتا تھا۔ اس طرح سوئے ہوئے شخص کے پاؤں بستر سے گر جاتے تھے۔ بستر کے نیچے ٹھنڈے پانی کا ایک ٹب ہوتا تاکہ نیند سے جلدی جاگا جا سکے۔‘
یہ واحد تکنیک نہیں تھی۔ صنعتی ترقی کے ساتھ نیند سے نمٹنے کے لیے مصنوعی روشنی جیسی بہت سی چیزیں سامنے آئیں۔
نیند کا بحران
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے پروفیسر میتھیو واکر کا کہنا ہے کہ ’میں یہ کہوں گا کہ اگر لوگ میری باتیں سنتے ہوئے سو جائیں یا اونگھتے رہیں تو میں غصہ نہیں کروں گا۔‘
پروفیسر میتھیو واکر نیند کے بارے میں تقریباً سب کچھ جانتے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ نیند کے انداز کیسے بدل گئے۔
وہ بتاتے ہیں کہ 1940 کی دہائی میں، لوگ ہر رات اوسطاً آٹھ گھنٹے سے کچھ زیادہ سوتے تھے۔ ’آج کے جدید دور میں ہماری نیند کم ہو کر 6.7 یا 6.8 گھنٹے فی رات رہ گئی ہے۔ 70 سالوں کے دوران اس میں حیران کن کمی آئی۔ ہم اس مرحلے پر ہیں جہاں نیند میں تقریباً 20 فیصد کمی آئی ہے۔‘
کم نیند ہمیں کتنی تکلیف دے رہی ہے؟
آج کی جدید دنیا میں بہت کچھ ایسا ہے جس کی وجہ سے نیند کم ہو رہی ہے۔ کیفین ہمیں بیدار رکھتی ہے، شراب خوابوں کو روکتی ہے۔
اگرچہ نیند کے لیے درکار وسائل بہتر ہوئے ہیں، جیسا کہ بہتر گدے، دھوئیں سے پاک گھر، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ماحول کو کنٹرول کرنے سے مسائل میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
میتھیو واکر کہتے ہیں کہ ’اس مسئلے کی ایک وجہ سینٹرل ہیٹنگ اور سینٹرل ایئر کنڈیشننگ ہے۔ جب سورج غروب ہوتا ہے تو درجہ حرارت گر جاتا ہے۔ جب سورج نکلتا ہے تو درجہ حرارت بڑھنے لگتا ہے۔‘
’جسم درجہ حرارت میں اس تبدیلی کو محسوس کرنا چاہتا ہے۔ لیکن ہم نے خود کو قدرتی سگنل سے دور کر لیا ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ سونے کا وقت کب ہے۔‘
اس کے علاوہ ٹیکنالوجی کا اثر بھی ہے۔ مصنوعی روشنیاں اور ایل ای ڈی سکرینیں جن سے نیلی روشنی نکلتی ہے نیند متاثر کرتی ہیں۔
میتھیو بتاتے ہیں کہ ’یہ نیلی روشنی رات کے وقت میلاٹونن نامی پروٹین کے اخراج کو روکتی ہے۔ یہ ہارمون اشارہ کرتا ہے کہ آپ کو کب سو جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ معاشی اور سماجی دباؤ بھی ہے کہ ہم زیادہ کام کریں اور کم وقت سویں۔‘
پروفیسر واکر کا کہنا ہے کہ سات گھنٹے سے کم سونے کا اثر صحت پر نظر آتا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’ہر بڑی بیماری جو ترقی یافتہ دنیا میں ہمیں مار رہی ہے، چاہے وہ کینسر ہو، موٹاپا، ذیابیطس، بے چینی، ڈپریشن، خودکشی کا رجحان، سب کا نیند کی کمی سے براہ راست اور مضبوط تعلق ہے۔‘
میتھیو واکر کہتے ہیں کہ ’اگر آپ لوگوں کا سروے کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ تقریباً 65 فیصد لوگ زیادہ سونا چاہتے ہیں۔‘
1980 کی دہائی میں تقریباً 30 فیصد لوگ ایسا کہتے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس زمانے میں لوگ آج کے مقابلے میں زیادہ سوتے تھے۔
نیند کا لمبی عمر سے کیا تعلق ہے؟
مصنف جیسا گیمبل کہتی ہیں، یہ زیادہ جینے کے بارے میں ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب نیند اور خواب غائب ہو رہے ہیں، وہ خواب دیکھتی ہیں کہ ایک دن انسانوں کو سونے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ انھوں نے سب سے پہلے نینسی کرس کی کتاب پڑھتے ہوئے یہ سوچا۔
جیسا گیمبل بتاتی ہیں کہ ’انھوں نے ایک ایسی دنیا بنائی جہاں وہ لوگ جن کو نیند کی ضرورت تھی وہ نچلے طبقے سے تھے اور ان لوگوں کی حکمرانی تھی جنھوں نے اپنے جین تبدیل کیے اور انھیں سونے کی ضرورت نہیں تھی۔‘
’ایک طویل عرصے کے بعد میں نے محسوس کرنا شروع کیا کہ ایسے لوگ ہیں جو حقیقت میں ایسا مقام حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
جیسا گیمبل نے اس بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش شروع کر دیں کہ اس مقصد کے حصول کے لیے سائنسدان کیا کر رہے ہیں۔
امریکی فوج طویل عرصے سے نیند کو دور رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کے لیے نیند کو کم کرنے والی ادویات جیسے کیفین اور ادویات کا استعمال کیا جاتا ہے۔
تاہم اگر ہم کم وقت سونا چاہتے ہیں تو ہمیں اچھی نیند لینا ہو گی۔ اس سلسلے میں کچھ تحقیق ہوئی ہے جس میں لوگوں کو جلد از جلد گہری نیند کی حالت میں لانے پر توجہ دی گئی ہے۔
آپ کی دادی بتا سکتی ہیں کہ اگر آپ کا چہرہ اور ہاتھ گرم ہوں گے تو نیند جلد آئے گی، لیکن ایک ایسی چیز ہے جو آپ کی دادی نہیں بتا سکتیں۔
بہتر نیند کا طریقہ
ان میں سے ایک گلابی شور ہے۔ بالکل وہی آواز جو آپ ایک سٹیشن سے دوسرے سٹیشن پر سیٹ کرتے وقت ریڈیو پر سنتے ہیں۔
جیسا گیمبل کہتی ہیں کہ ’اگر آپ ہر سیکنڈ میں گلابی شور سنتے ہیں، تو یہ آپ کی دھیمی لہروں کو تیز کر دے گا۔ اس سے آپ صبح میں بہت زیادہ تروتازہ ہو جائیں گے۔‘
جیسا گیمبل کا کہنا ہے کہ ’مقناطیس کی مدد سے برقی لہروں کو دماغ تک پہنچانے کا خیال تھوڑا ڈراؤنا لگتا ہے لیکن یہ کارآمد بھی ہو سکتا ہے۔‘
لیکن ایسی ٹیکنالوجی اب بھی لیبارٹری یعنی تجربے کی حد تک محدود ہے۔ تاہم، وہ کہتی ہیں کہ گلابی شور پیدا کرنے والے آلات جلد ہی مارکیٹ میں آ سکتے ہیں۔
جیسا گیمبل کہتی ہیں کہ ’موجودہ ٹیکنالوجی کے ساتھ، لوگ ایک یا دو گھنٹے کی نیند کو کم کرنے کی بات کرتے ہیں۔ لیکن ایک ممکنہ منظر یہ بھی ہے کہ جاگتے رہتے ہوئے ہماری نیند کی تلافی ہو سکتی ہے۔‘
’یہ کچھ ایسا ہو گا جہاں ہوائی جہاز کو ہوا میں ایندھن ملتا ہے اور اسے کبھی لینڈ نہیں کرنا پڑتا۔ مجھے یہ خیال پسند ہے۔ آخر مستقبل کے بارے میں کون جانتا ہے۔‘
اسی سوال کی طرف آتے ہیں کہ تھکاوٹ کا ہماری نیند سے کتنا گہرا تعلق ہے اور کیا انسان بغیر نیند کے بھی تروتازہ رہ سکتا ہے؟
جیسا کہ ماہرین بتا رہے ہیں کہ نیند کو دوسری چیزوں کے لیے قربان کرنا ہماری فطرت ہے لیکن ٹیکنالوجی اور سماجی تبدیلی کے ذریعے ہم نے اس کی حد کو بہت بڑھا دیا ہے۔
اس نے ہمارے سونے کے روایتی طریقے اور سونے میں لگنے والے کل وقت کو متاثر کیا ہے۔ لہٰذا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ ہم تھکاوٹ محسوس کرتے ہیں۔
سائنس کی مدد سے ہم نیند کی ضرورت کو کسی حد تک کم کر سکتے ہیں۔
اچھی بات یہ ہے کہ اس وقت آسان اور درد سے پاک حل مفت میں دستیاب ہیں۔
اور ہاں اس تحریر کو پڑھنے کے بعد بھی اگر آپ آنکھیں بند کر کے تکیے پر سر رکھ کر سو جائیں تو شاید ہی کسی کو اعتراض ہو۔
امید ہے کہ آپ اچھے خواب دیکھیں گے۔