آٹو امیون ہائپو تھائی رائڈزم: ’یہ ایک خاموش مرض ہے لیکن آپ کا جسم چیخ رہا ہوتا ہے‘
’میں اپنے پارٹنر کے ساتھ سونا چاہتی ہوں لیکن میرا دل ہی نہیں کرتا۔ میں صبح جلدی اٹھنا چاہتی ہوں، ہزاروں کام کرنا چاہتی ہوں، لیکن میں ایسا کچھ بھی نہیں کر سکتی جو پہلے کر لیتی تھی۔‘
’میں کتاب پڑھنا چاہتی ہوں لیکن ذہن پر دھند طاری رہتی ہے۔ میں پر سکون رہنا چاہتی ہوں لیکن کچھ ہے جو مجھے مجبور کرتا ہے کہ میں سامنے والے شخص پر چیخوں، چلاؤں اور اسے غصے سے ماروں۔ میں وزن کم کرنا چاہتی ہوں، میں نے کوشش بھی کی لیکن نہیں ہو پایا۔‘
’میں خوش رہنا چاہتی ہوں اور میرے پاس خوش رہنے کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن کچھ ہے جو میری توانائی چوس لیتا ہے اور خوشی کے آڑے آتا ہے۔ میں ان علامات اور احساسات کے اتار چڑھاؤ سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہوں۔‘
لارا، ایرین اور لوریٹا تین مختلف ملکوں میں رہتی ہیں جن میں چلی، سپین اور کروشیا شامل ہیں لیکن اوپر دی گئی تحریر ان تینوں پر ہی بیتنے والی کہانی کا خلاصہ ہے۔ ان تینوں خواتین نے ہی یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان کے ساتھ آخر مسئلہ کیا ہے۔
لوریٹا کہتی ہیں کہ میں 17 سال کی تھی جب مجھے عجیب و غریب علامات کا سامنا ہوا۔ ورٹیگو، کان میں ہر وقت بجتی آواز۔ پہلے ڈاکٹرز کو لگا یہ مرگی ہے لیکن چھ ماہ تک ٹیسٹ کروانے کے بعد پتا چلا کہ اصل میں یہ تھائی رائڈ کا مسئلہ تھا۔
ایرین کا کیس 2009 میں معدے کی تکلیف سے شروع ہوا۔ ایک ڈاکٹر نے ان کو یہاں تک کہا کہ ان کی بیماری ذہنی اختراع ہے لیکن کچھ عرصے بعد ان کے مرض کی تشخیص ہو گئی۔
لارا کا کیس بھی دلچسپ ہے۔ ایک ڈاکٹر نے ان کے موٹاپے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ وینیزویلا کے لوگ اپنی خوراک کی وجہ سے موٹے ہو جاتے ہیں۔
ان تینوں خواتین کو آٹو امیون ہائپو تھائی رائڈزم کا مرض ہے۔
ایک تتلی جو جسم کی توانائی کنٹرول کرتی ہے
تھائی رائڈ تتلی کی شکل کا غدود ہے جو گردن میں موجود ہوتا ہے۔ اس کا کام ایسے ہارمون یا مادے پیدا کرنا ہوتا ہے جو جسمانی توانائی کے استعمال کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ یہ جسم کو گرم رکھنے اور دماغ، دل، پٹھوں اور دیگر جسمانی اعضا کے درست طریقے سے کام کو بھی ممکن بناتے ہیں۔
پالوما گل ایک اینڈو کرائنولوجسٹ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’یہ جسم کی بیٹری ہے۔ اگر یہ درست طریقے سے کام کرنا بند کر دے تو علامات ظاہر ہوتی ہیں۔‘
’اگر یہ کام نہیں کرتا، تو ہائپو تھائی رائڈزم ہو جاتا ہے جس میں ایسا لگتا ہے کہ کھلونے کی بیٹری ختم ہو گئی ہو اور اگر یہ زیادہ کام کرے تو پھر ہائپر تھائی رائڈزم کا شکار ہو جاتے ہیں جس میں ایسے لگتا ہے کسی نے کیفین کی زیادہ مقدار کھا لی ہو۔‘
ان دونوں ہی بیماریوں میں کئی علامات ہیں جیسا کہ بال گرنا، تیزی سے موڈ بدل جانا، وزن میں کمی یا اضافہ، جلد پر اثرات، ماہواری میں تبدیلی، بھول جانا یا دماغ پر دھند سی چھا جانا۔
ڈاکٹر فرانسسکو ہیویئر سپین کی سوسائٹی آف اینڈو کرائنولوجی کے رکن ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہائپو تھائی رائڈزم زیادہ عام ہے اور اس کی تشخیص بھی مشکل سے ہوتی ہے کیونکہ اس کی علامات ڈپریشن سے بھی ملتی جلتی ہوتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ تقریبا آدھے مریضوں میں تشخیص نہیں ہو پاتی۔ ’زیادہ تر یہ خواتین میں ہوتا ہے اور تمام مریضوں میں سے 80 فیصد خواتین ہوتی ہیں۔‘
ہارمونز کے عدم توازن کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ایک عام طریقہ علاج لیوو تھائی روکسین نامی گولی ہے۔
ڈاکٹر گل کا کہنا ہے کہ ’ایک بار جب ہارمون ٹھیک ہو جائیں تو مریض بلکل صحت مندانہ زندگی گزار سکتا ہے۔‘
لیکن لوریٹا، ایرین اور لارا کے کیس میں ایسا نہیں ہوا۔
لوریٹا کا کہنا ہے کہ ’میں اکثر مایوس رہتی ہوں، ہر چیز مجھے تھکا دیتی ہے۔ اس بیماری کے ساتھ زندگی کی رفتار برقرار رکھنا بہت مشکل ہے۔‘
لارا کہتی ہیں کہ ایسے بھی دن گزرتے ہیں جب ان کو بستر میں رہ کر کام کرنا پڑتا ہے۔ ایرین کے مطابق وہ کوشش کرتی ہیں کہ ہر کام جتنا بہتر ہو سکے کریں لیکن سو فیصد ایسا کرنا ممکن نہیں۔
لوریٹا کی طبیعت مزید بگڑ چکی ہے اور عین ممکن ہے کہ ان کا تھائی رائڈ آپریشن سے نکال دیا جائے۔ ’ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ میرے تمام مسائل اسی سے جڑے ہیں۔‘
ڈاکٹر فرانسسکو کہتے ہیں کہ 80 سے 90 فیصد مریض صحتیاب ہو جاتے ہیں لیکن ایسے کیس بھی ہوتے ہیں جو اس مرض سے مکمل چھٹکارا نہیں پا سکتے۔
یہ پیچیدہ کیس ہوتے ہیں۔ ہائیپو تھائی رائڈزم کی آٹو امیون بیماری میں دوائی لینی پڑتی ہے لیکن جسم کے دیگر عضو متاثر ہوتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اس سے ہوتا یہ ہے کہ جسمانی سسٹم خود پر ہی حملہ کر دیتا ہے۔ جسم میں ایسی اینٹی باڈیز بنتی ہیں جو دوسرے خلیوں پر حملہ آور ہوتے ہیں، مثال کے طور پر بالوں یا آنتوں میں مسائل ہو سکتے ہیں۔‘
اس کے علاوہ ڈاکٹر فرانسسکو کے مطابق تھائی رائڈ ہارمون دماغ سے جڑے نظام کے ساتھ ساتھ ہر چیز کو متاثر کرتا ہے۔ جذباتی عدم توازن، چڑچڑا پن بھی ہوتا ہے۔ اگر تھائی رائڈ ٹھیک ہو بھی جائے تو یہ علامات باقی رہ سکتی ہیں۔
اتنی پیچیدہ بیماری کا شکار ہونے والے ایسے بھی مریض ہوتے ہیں جن کو کبھی اس مسئلے کا جواب نہیں ملتا۔
خود ہی سیکھا جانے والا راستہ
بی بی سی منڈو نے جن تین خواتین کا انٹرویو کیا انھوں نے کہا کہ اس مرض سے مکمل طور پر باخبر ڈاکٹرز کی تعداد بہت کم ہے اور ایسا علاج بھی دستیاب نہیں جس میں اس مرض کے دیگر جسمانی اعضا پر اثرات کا جائزہ لیا جا سکے۔
ایرین کہتی ہیں کہ ہر چیز جڑی ہوئی ہے، یہ جسم سے علیحدہ کوئی عضو نہیں۔
لوریٹا، ایرین اور لارا کو جب محسوس ہوا کہ ان کو جو جواب درکار ہیں وہ ان کو نہیں مل رہے تو انھوں نے خود ہی سیکھنے کا عمل شروع کیا جس میں کتابوں، ویڈیوز، کورسز اور ایسے حل کا سہارا لیا گیا جو تجرباتی تھے۔
ان تینوں خواتین کو ہی ایک فائدہ حاصل تھا۔ وہ پرائیویٹ ڈاکٹر کی مدد لے سکتی تھیں۔ لارا اور ایرین دونوں نے ہی ایسے سپیشلسٹ سے رجوع کیا جنھوں نے ان کی تمام علامات کا ایک ساتھ ہی علاج کیا۔
ازیبیل گارسیا اینڈوکرائینولوجی کے ساتھ ماہر خوراک بھی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ بہت سے مریض ادھر ادھر پھرنے کے بعد ان کے پاس آتے ہیں جن کو ڈاکٹرز درست طریقے سے نہیں دیکھتے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہر بیماری کی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر بیماری کا علاج ایک گولی میں ہو۔‘ ان کا ماننا ہے کہ جدید طبی علاج میں خوراک اور کھانے پینے کی عادات پر توجہ نہیں دی جاتی۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی کیس میں دوا یا سپلیمنٹ طبی معالجے کے بغیر نہیں لینے چاہیے۔
ڈاکٹر گارسیا اپنی پریکٹس میں ٹوکسن ختم کرنے پر زور دیتی ہیں جیسا کہ مرکری سے بھری ڈینٹل فلنگ۔ ساتھ ہی ساتھ خوراک میں اہم تبدیلیاں بھی تجویز کی جاتی ہیں جیسا کہ چینی اور ایسی خوراک ختم کرنا جس میں گائے کا دودھ ہو، گلوٹین ہو۔ سورج کی روشنی سے واٹامن ڈی حاصل کرنا اور ورزش بھی مفید ثابت ہوتے ہیں لیکن اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ورزش کا عمل جسم پر بوجھ نا بنے۔
ڈاکٹر گارسیا کے مطابق موبائل فون، انٹرنیٹ کے استعمال میں کمی بھی ضروری ہے جبکہ تھراپی لینے سے بھی مسائل کم ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ سب کام کرنے سے مثبت نتائج حاصل ہوتے ہیں۔
خود کو جانیں
ایرین، لوریٹا اور لارا مانتی ہیں کہ اپنی ذات کو جاننا بہت ضروری ہے۔
لارا کہتی ہیں کہ اگر کوئی بات مجھے پریشان کر رہی ہے تو مجھے معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ہارمونز کی وجہ سے ہے۔
’اپنے آپ کو جاننا بہت ضروری ہے اس لیے جب کبھی موڈ میں تبدیلی ہو تو اس کو لکھ لیں، بیماری سے سیکھیں۔‘
ایرین کا کہنا ہے کہ قریبی لوگوں کی مدد بھی اہم ہوتی ہے جن کو اپنے مسائل اور علاج کے طریقے سے آگاہ کیا جا سکے۔
’اگر قریبی لوگوں کو نہیں بتایا جائے تو وہ غلط طرح سوچتے ہیں کہ کہ کوئی سست ہے، کھانا عجیب طرح کھاتا ہے، شراب نہیں پیتا۔‘
ایرین نے اپنی خوارک میں بہت تبدیلی کی تاکہ وہ نقصان دہ چیزوں سے گریز کر سکیں۔
لارا اب شکر گزار ہیں کہ ان کو ہائپو تھائی رائڈزم کی وجہ سے بہت کچھ جاننے کا موقع ملا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’یہ ایک خاموش مرض ہے لیکن آپ کا جسم چیخ رہا ہوتا ہے۔ اس کی آواز کو سنیں اور اس کو قبول کریں تاکہ آپ اپنا خیال رکھ سکیں۔‘