قطر: دنیا کے امیر ترین ملک میں ’نظروں سے پوشیدہ‘ غربت جس پر بات کرنا آسان نہیں
دنیا کے امیر ترین ملک قطر میں غربت کو دیکھنا اور اس کے بارے میں بات کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔
ایک پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی منڈو کو بتایا کہ جو لوگ اس کے بارے میں بات کرنے پر آمادہ ہوتے بھی ہیں وہ بھی اپنے الفاظ کا انتخاب احتیاط سے کرتے ہیں کیونکہ یہ ایک ’پیچیدہ مسئلہ ہے جس سے آپ کو خود کو بچانا پڑتا ہے کیونکہ حکام اسے کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘
دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک قطر بھی غربت سے پاک نہیں ہے۔ اور اگر اس کے بارے میں کافی بات نہیں کی جاتی ہے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں موجود غربت دنیا کی نظر سے پوشیدہ ہے۔
ایسے غیر ملکی افراد جو قطر میں رہتے ہوئے بھی غربت کی زندگی کا سامنا کرتے ہیں وہ الگ تھلگ اور کم رابطے میں آنے والے ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں غیر ملکی سیاح یا فٹبال شائقین نہیں جاتے۔
بنیادی طور پر تیل اور گیس سے حاصل ہونے والی آمدن کی بدولت، قطر کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) 180 ارب ڈالرز ہے جس کے باعث لاکھوں تارکین وطن صحرا میں بڑے پیمانے پر ہونے والے تعمیراتی منصوبوں پر کام کرنے کی غرض سے یہاں آتے ہیں۔
قطر میں تقریباً 30 لاکھ آبادی ہے جس میں سے صرف 350,000 افراد (آبادی کا 10فیصد) قطری ہیں، باقی سب غیر ملکی ہیں۔ قطری شہری اور یہاں بسنے والے مغربی تارکین وطن قطر میں ملنے والی زیادہ تنخواہوں اور دستیاب اچھی سماجی سہولیات پر فخر کرتے ہیں۔
قطری حکومت کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اگرچہ قطر نے عملی طور پر غربت کا خاتمہ کر دیا ہے مگر پاکستان سمیت جنوب مشرقی ایشیا سے آنے والے بہت سے تارکین وطن کے لیے یہ اب بھی ایک حقیقت ہے۔
پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور کا کہنا تھا کہ ’ان میں سے بہت سے افراد جو انڈیا، نیپال، بنگلہ دیش یا پاکستان جیسے ممالک سے آتے ہیں اور کوئی قابلیت نہیں رکھتے اور بمشکل انگریزی بولتے ہیں اُن کا بڑا حصہ اس ملک میں کم از کم اجرت کے ساتھ زندگی گزارتا ہے۔ اگرچہ ان کا معیار زندگی اپنے آبائی ممالک کے مقابلے میں بہتر ہے، مگر وہ اپنے ممالک میں پیسے بھیجنے کے لیے ایک کمرے میں چھ، چھ افراد رہتے ہیں۔‘
غیر مساوی سلوک
ایک ایسے ملک میں جہاں قطری اور مغربی تارکین وطن تو سالانہ دسیوں ہزار ڈالر اور دیگر فوائد اور سہولیات کما سکتے ہیں وہیں بہت سے غیر ہنر مند غیرملکی ملازمین کم از کم ماہانہ اجرت یعنی 275 ڈالر سے زیادہ تنخواہ حاصل نہیں کر پاتے۔
قطر 2020 میں متنازع کفالہ (کفیل) کے نظام کو مؤثر طریقے سے ختم کرنے والا پہلا عرب ملک بنا تھا اور کویت کے بعد تمام مزدوروں کے لیے ان کی قومیت سے قطع نظر کم از کم اجرت قائم کرنے والا دوسرا ملک بن گیا تھا۔
جب کفالہ نظام رائج تھا، تو اس وقت اگر کوئی ملازم اپنے کفیل کی اجازت کے بغیر ملازمت بدلتا تھا تو اسے مجرمانہ الزامات، گرفتاری اور ملک بدری کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
قطری آجر بعض اوقات اپنے ملازمین کے پاسپورٹ جبری طور پر ضبط کر لیتے تھے اور انھیں غیر معینہ مدت تک ملک میں رہنے پر مجبور کرتے تھے۔
بہت سے تارکین وطن کو اپنا ملک چھوڑنے سے پہلے ملازمتوں پر بھرتی کرنے والوں کو 500 ڈالرز سے لے کر 3500 ڈالرز کے درمیان بھرتی کی فیس بھی ادا کرنی پڑتی تھی۔ ایسا کرنے کے لیے، زیادہ تر افراد کو سود پر قرضوں کا سہارا لینا پڑا جس کی وجہ سے وہ کمزور معاشی حالت اور غربت میں مزید دھنسے۔
اپنے لیبر رائٹس ریگولیشن کے تحت قطر نے ایک قانون بھی نافذ کیا جس کے تحت کنٹریکٹ مکمل کرنے والے ورکرز کو آزادانہ طور پر ملازمتیں تبدیل کرنے کی اجازت دی گئی اور ان کمپنیوں پر جرمانے عائد کیے گئے جنھوں نے ملازمین کے پاسپورٹ ضبط کیے تھے۔
لیکن ان ترقی پسندانہ اقدامات کے باوجود انسانی حقوق کے عالمی ادارے ہیومن رائٹس واچ جیسی تنظیموں کا اصرار ہے کہ ’مہاجر کارکن ملک میں داخلے، رہائش اور ملازمت کی سہولت کے لیے اب بھی اپنے آجروں پر انحصار کرتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ آجر ان کی کام کے اجازت نامے اور رہائش کی درخواست، تجدید اور منسوخی کے ذمہ دار ہیں۔‘
ہیومن رائٹس واچ کی سنہ 2020 کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’جب آجر اس طرح کے عمل کی تعمیل کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو کارکنوں کو بغیر کسی دستاویزات کے چھوڑ دیا جاتا ہے اور اس صورتحال میں پکڑے جانے پر نتائج انھیں خود بھگتنا پڑتے ہیں نہ کہ ان کے آجروں کو۔‘
ہیومن رائٹس نے گذشتہ برس بھی کہا تھا کہ غیر ملکی مزدوروں کو ’اب بھی غیر قانونی اور بطور سزا اجرتوں میں کٹوتیوں‘ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ’انھیں کئی کئی دن بغیر تنخواہ کے گھنٹوں سخت مشقت کا کام کرنا پڑتا ہے۔‘
اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق، کمپنیاں اب بھی ورکروں اور مزدوروں پر ملازمتیں تبدیل کرنے سے روکنے کے لیے دباؤ ڈال رہیں ہیں۔
قطری حکومت کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ملک کی جانب سے کی جانے والی اصلاحات سے زیادہ تر غیر ملکی مزدوروں اور ورکروں کے کام کے حالات بہتر ہو رہے ہیں۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ ’اصلاحات کو مؤثر طریقے سے نافذ کرنے کے لیے اہم اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ اب ان قوانین کو توڑنے والی کمپنیوں کی تعداد کم ہو جائے گی کیونکہ قوانین کو نافذ العمل کر دیا گیا ہے۔‘
فٹبال ورلڈکپ
قطر نے 2022 فٹبال ورلڈ کپ کے لیے سات نئے سٹیڈیم تعمیر کیے، ساتھ ہی ایک نیا ایئرپورٹ، میٹرو، سڑکیں اور رہائشی عمارات بھی تعمیر کی ہیں۔
فٹبال ورلڈکپ مقابلے کے فائنل کا مقام، لوسیل سٹیڈیم، لوسیل شہر میں واقع ہے جسے عملی طور پر گذشتہ پانچ برسوں کے دوران بنایا گیا ہے۔
قطری حکومت کے مطابق سٹیڈیم کی تعمیر کے لیے 30,000 غیر ملکی مزدوروں اور ورکروں کی خدمات حاصل کی گئیں جن میں زیادہ تر بنگلہ دیش، انڈیا، نیپال اور فلپائن سے آئے تھے۔
ورلڈ کپ کی تیاریوں کے دوران مختلف واقعات میں ہلاک ہونے والے ان تارکین وطن کی تعداد ایک متنازع مسئلہ رہی ہے۔
قطر میں سفارت خانوں کی معلومات کی بنیاد پر، برطانوی اخبار دی گارڈین نے رپورٹ کیا تھا کہ 2010 میں جب سے قطر کو ورلڈ کپ کی میزبانی دی گئی تھی، انڈیا، پاکستان، نیپال، بنگلہ دیش اور سری لنکا کے 6500 کارکن قطر میں ہلاک ہو چکے ہیں۔
لیکن قطر ایسے اعداد و شمار کو گمراہ کن اور غلط قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کرتا ہے، کیونکہ ان میں سے تمام ریکارڈ شدہ اموات ورلڈ کپ سے منسلک منصوبوں پر کام کرنے والے مزدوروں کی نہیں ہیں اور بہت سے لوگ بڑھاپے یا دیگر قدرتی وجوہات کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں۔
قطر کا کہنا ہے کہ اس کے ریکارڈ میں 2014 اور 2020 کے درمیان سٹیڈیم کے تعمیرات کے دوران 37 مزدوروں کی اموات ہوئیں اور ان میں سے صرف تین ہی ’کام سے متعلق‘ تھیں۔
لیکن انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کا کہنا ہے کہ یہ تعداد حقیقت کو ظاہر نہیں کرتی ہے، کیونکہ قطر میں دل کا دورہ پڑنے یا سانس کی خرابی، ہیٹ سٹروک کی عام علامات اور زیادہ درجہ حرارت میں کام کے دوران زیادہ وزن اٹھانے سے ہونے والی اموات کو شمار نہیں کیا جاتا۔
آئی ایل او کے مطابق، صرف 2021 میں 50 غیر ملکی مزدور ہلاک ہوئے اور 500 سے زیادہ شدید زخمی ہوئے ، جبکہ مزید 37,600 کو معمولی سے سے درمیانے درجے کے زخم آئے۔
بی بی سی عربی سروس نے بھی شواہد اکٹھے کیے ہیں کہ قطری حکومت غیر ملکی کارکنوں کی اموات کی تعداد کو کم قرار دیتی ہے۔
سٹیڈیم کی تعمیر میں شامل مزدوروں کے ساتھ سلوک کے لیے بین الاقوامی دباؤ کے بعد اور اس کی بہتری کے اقدامات کے طور پر، قطر نے لیبر سٹی (کام کا شہر) تعمیر کیا، جو ان میں سے بہت سے تارکین وطن کو ٹھہرانے کے لیے ایک کیمپ ہے۔
لیکن قطر میں اس شہر جس کے لیے کروڑوں ڈالر مختص کیے گئے ہیں، پریس کو وہاں تک رسائی بہت محدود ہے اور اسے دوحہ کے مضافات میں قائم کرنے کے باعث تنقید کے نشانہ بنایا گیا ہے کیونکہ یہ دنیا بھر کی ٹیلی ویژن سکرینوں پر نظر آنے والے عیش و آرام سے بہت دور اور مختلف ہے۔