وزیراعلٰی پنجاب کا حالیہ انٹرویو: عمران خان کے ساتھ اختلافی اندازِ گفتگو سے پرویز الٰہی کیا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کی واحد اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ ق کے وزیر اعلیٰ کئی بار پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو یقین دلا چکے ہیں کہ وہ جب کہیں گے پنجاب اسمبلی توڑ دی جائے گی۔
سابق وزیر اعظم عمران خان اعلان کر چکے ہیں کہ رواں ماہ کی 23 تاریخ کو پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں گی۔ جب سنیچر کو لاہور میں عمران خان یہ اعلان کر رہے تھے اس وقت بھی وزیرِاعلٰی پنجاب پرویز الٰہی ان کے ساتھ تھے۔
جلسے کے اختتام پر وہاں سے جاتے ہوئے پرویز الٰہی نے مقامی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی ’تمام باتوں سے اتفاق کرتے ہیں اور آج بھی پی ٹی آئی کے اتحادی ہیں۔‘
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا تھا کہ ان کی پی ٹی آئی کے ساتھ آئندہ انتخابات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ میں بات چیت شروع ہو چکی ہے۔
تاہم اگلے ہی روز وزیرِ اعلٰی پنجاب پرویز الٰہی نے ایک نجی ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو تنقید کا نشانہ بنانے پر پی ٹی آئی اور عمران خان سے ناراضگی کا اظہار کیا۔
انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ انھیں ’اس وقت بہت برا لگا جب عمران خان نے یہ ناانصافی کی کہ ہمیں ساتھ بٹھا کر اور میرے سامنے (قمر جاوید) باجوہ صاحب کو تنقید کا نشانہ بنایا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت کچھ کہہ نہیں سکے ’کیونکہ بہت لوگ موجود تھے اور مجھے عمران خان سے اکیلے ملاقات کا موقع نہیں ملا۔‘
وزیرِاعلٰی پنجاب نے کہا کہ سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے ان پر، عمران خان اور پی ٹی آئی پر بہت احسانات ہیں۔
’باجوہ صاحب نے پی ٹی آئی کو اس وقت اٹھایا جب یہ کچھ بھی نہیں تھی اور بعد میں ان کی حکومت کی بھی مدد کرتے رہے۔‘
وزیرِاعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے کہا کہ ’انھوں (پی ٹی آئی) نے مذاق بنا لیا ہے۔ کیا کوئی اتنا احسان فراموش ہو سکتا ہے؟ میں نے خود عمران خان کو بتایا تھا کہ باجوہ صاحب میرے، آپ کے اور پی ٹی آئی کے محسن ہیں۔ پی ٹی آئی کے لوگوں کو حد میں رہنا چاہیے۔‘
پرویز الٰہی نے کہا کہ ’اب اگر پی ٹی آئی نے سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ پر تنقید کی وہ خود سب سے پہلے اس کے خلاف بات کریں گے۔‘
اسی انٹرویو کے دوران انھوں نے اس بات کا اظہار بھی کیا کہ عمران خان ان کے صاحبزادے مونس الٰہی کو وفاقی وزیر نہیں بنانا چاہتے تھے اور یہ کہ سابق سربراہ آئی ایس آئی جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے کہنے پر ان کو اور ان کے بیٹے کو نیب کے ذریعے گرفتار کروایا گیا۔
’یہ کس قسم کا رویہ ہے؟ ہم نے کب عمران خان کا ساتھ نہیں دیا؟ پی ٹی آئی تو اس وقت سیدھی ہوئی جب ہم نے سینیٹ کے انتخابات میں ان کا ساتھ دیا۔ پھر انھوں نے مونس الٰہی کو وزیر بنایا۔‘
عمران خان: ’ق لیگ آزاد ہے، ان کا اپنا مؤقف ہے‘
لاہور میں پیر کو بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے ایک ملاقات میں چیئرمین عمران خان نے وزیرِ اعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے حالیہ انٹرویو اور بیانات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پرویز الٰہی کا سابق آرمی چیف کے حوالے سے اپنا مؤقف ہے جو ان سے مختلف ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’چوہدری پرویز الٰہی نے ماضی میں (سابق آرمی چیف) جنرل باجوہ سے کوئی فائدہ لیا ہو گا جو ان کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ تنقید نہیں کرنا چاہتے تو نہ کریں، میری تنقید میرے خیالات کی عکاسی ہے۔‘
عمران خان کا کہنا تھا کہ پرویز الٰہی اور ان کی جماعت کا اپنا نقطہ نظر ہے جو ہم سے مخلتف ہو سکتا ہے۔ وہ ماضی میں سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ اچھے رہے ہیں۔ ہمارا ان کے ساتھ تجربہ اچھا نہیں رہا۔
پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے حوالے سے سابق وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ چوہدری پرویز الٰہی لکھ کر انھیں دے چکے ہیں کہ وہ ان کے کہنے پر اسمبلی توڑنے کی سمری بجھوا دیں گے۔
’مونس الٰہی خود مجھے یہ یقین دہانی کروا چکے ہیں کہ ہمارے کہنے پر پنجاب اسمبلی تحلیل کر دی جائے گی۔‘
جبکہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ایک موقع پر پرویز الٰہی کا کہنا تھا کہ 23 تاریخ میں ابھی کافی وقت پڑا ہے۔
اس پر ردعمل دیتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ جمعے کے روز سب کچھ سامنے آ جائے گا تاہم ان کے خیال ان کے چوہدری پرویز الٰہی اور ان کی جماعت سے کوئی اختلافات نہیں۔ ’ان (پرویز الٰہی) کا فائدہ ہی ہمارے ساتھ رہنے میں ہے۔‘
کیا حالیہ سیاسی بیان بازی اور صورتحال میں یہ اشارہ ملتا ہے کہ آنے والے دنوں میں پرویز الہی، عمران خان کے کہنے پر پنجاب اسمبلی تحلیل کر دینے کے اپنے فیصلے پر نظرِثانی بھی کر سکتے ہیں؟
اگر ایسا نہیں تو اپنے حالیہ انٹریو میں پی ٹی آئی اور عمران خان کے ساتھ اختلافی اندازِ گفتگو اپنا کر وزیرِاعلٰی پنجاب پرویز الٰہی کیا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟
’پرویز الٰہی نے ان کو راستہ دکھانے کی کوشش کی ہے‘
صحافی اور تجزیہ نگار سلمان غنی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو کے ذریعے بنیادی طور پر ’چوہدری پرویز الٰہی نے عمران خان کو سمجھانے کی کوشش کی ہے اور ساتھ راستہ بھی دکھا دیا۔‘
سلمان غنی کے خیال میں ’پرویز الٰہی نے واظح طور پر یہ بتا دیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کیا چاہتی ہے۔ ابھی حال ہی میں وہ راولپنڈی بھی گئے ہوئے تھے اور وہاں ان کی اہم ملاقات بھی ہوئی ہے۔‘
سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ پنجاب کے وزیرِاعلٰی نے خود اپنی زبانی بتا دیا ہے کہ اسمبلی کے ممبران کی اکثریت اس وقت اسمبلی توڑنے کے حق میں نہیں۔ ساتھ ہی انھوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر اسمبلی تحلیل کی جاتی ہے تو حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے پاس عدالت سے رجوع کرنے کی آپشن بھی موجود ہے۔
تجزیہ نگار سلمان غنی کے خیال میں پرویز الٰہی نے سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے حوالے سے پی ٹی آئی اور عمران خان کو جس طرح مخاطب کیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’انھوں نے ایک طرح سے عمران خان کو چارج شیٹ کیا ہے۔ انھیں یاد دلایا ہے کہ قمر جاوید باجوہ کے ان پر اوران کی جماعت پر کتنے احسانات ہیں۔‘
تو کیا پرویز الٰہی اسمبلی توڑنے کی بات سے پیچھے ہٹ سکتے ہیں؟
صحافی اور تجزیہ نگار عاصمہ شیرازی سمجھتی ہیں کہ انٹرویو میں حالیہ بیانات کے ذریعے ’چوہدری پرویز الٰہی نے اس بات کی بنیاد تو رکھ دی ہے۔ یہ اشارہ بھی دے دیا ہے کہ کوئی انتہائی فیصلہ کیا جا سکتا ہے لیکن اب چوہدری پرویز الٰہی کے اپنے فیصلوں کے حوالے سے بھی ایک اعتماد کا فقدان پایا جاتا ہے۔‘
عاصمہ شیرازی کا اشارہ چوہدری پرویز الٰہی کے پی ٹی آئی کا ساتھ دینے کے فیصلے کی طرف تھا جس کے بارے میں پی ڈی ایم کی جماعتیں یہ دعوٰی کرتی ہیں کہ پرویز الٰہی انھیں ساتھ دلانے کا یقین دلا کر آخری وقت پر پی ٹی آئی کی طرف چلے گئے۔
وہ سمجھتی ہیں کہ اپنے انٹرویو کے ذریعے چوہدری پرویز الٰہی نے یہ بھی بتا دیا کہ ان کی ریڈ لائن کیا ہے۔
’انھوں نے بڑے واضح انداز میں عمران خان کو بتا دیا ہے کہ سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ پر پی ٹی آئی کی تنقید کے حوالے سے ان کا مؤقف کیا ہے۔ اس کو وہ اپنے لیے ریڈ لائن سمجھتے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی بتا دیا کہ اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے ان کی رائے کیا ہے۔‘
’طاقتور حلقے بھی چاہیں گے کہ اسلمبلیاں بچ جائیں‘
صحافی اور تجزیہ نگار سلمان غنی کہتے ہیں کہ پرویز الٰہی کے حالیہ بیانات سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کیا چاہتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہو سکتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہو تاہم پاکستان میں وہ ایک سیاسی حقیقت ہے۔
’اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ ملک کی سیاست میں ایک حقیقت ہے اور بیشک وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ نیوٹرل ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ ملک میں طاقتور حلقے بھی یہ نہیں چاہیں گے کہ اسمبلیاں تحلیل ہو جائیں اور ملک میں عدم استحکام پیدا ہو۔‘
سلمان غنی کے مطابق چوہدری پرویز الٰہی نے اپنے انٹرویو کے ذریعے اس جانب بھی اشارہ کیا۔ ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی بتا دیا ہے کہ کوئی سیاسی جماعت اپنی ہی اسمبلیاں تحلیل نہیں کرتی۔
’آپ دیکھیں کہ عمران خان نے قومی اسمبلی سے بھی مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا تھا لیکن اس کا ان کو کیا فائدہ ہوا؟ ان کے ممبران آج بھی تنخواہ لے رہے ہیں اور صورتحال ان کے اپنے لیے ہی مشکل ہو گئی ہے۔‘ صحافی اور تجزیہ نگار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ ایسی باتیں کر کے کہ 99 فیصد ممبرانِ اسمبلی تحلیل نہیں چاہتے، جلد الیکشن ہوتے نظر نہیں آتے اور یہ کہ حزبِ اختلاف عدالت جا سکتی ہے، پرویز الٰہی نے صاف انداز میں یہ بتا دیا کہ ’وہ نہیں چاہتے کہ اسمبلی تحلیل کی جائے۔‘
تاہم یہ دیکھنا باقی ہے کہ پرویز الٰہی آنے والے چند روز میں اس حوالے سے براہِ راست کوئی قدم اٹھاتے ہیں یا نہیں۔
’پی ٹی آئی کو علم ہے کہ پرویز الٰہی کیسے ان کے ساتھ آئے تھے‘
صحافی اور تجزیہ نگار عاصمہ شیرازی سمجھتی ہیں کہ پرویز الٰہی یہ بارہا بتا چکے ہیں کہ وہ کیسے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ کے کہنے پر پاکستان تحریک انصاف کی طرف آئے تھے اور اب وہ یہ کہہ رہے کہ وہ پی ٹی آئی کی طرف سے سابق آرمی چیف پر تنقید برداشت نہیں کریں گے۔
’اگر پرویز الٰہی کی باتیں درست ہیں تو پی ٹی آئی اور عمران خان کو اچھی طرح معلوم ہو گا کہ چوہدری پرویز الٰہی کی ہمدردیاں کس طرف ہیں اور وہ کس طرح ان کا ساتھ دینے کے لیے آئے تھے اور یہ بھی کہ اب وہ کیا کر سکتے ہیں۔‘
تاہم عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ چوہدری پرویز الٰہی اب سیاسی چال چل رہے ہیں۔ ایک طرف ان کے اختلافی بیانات سامنے آ رہے ہیں تو دوسری طرف ان کے صاحبزادے مونس الٰہی عمران خان سے ملاقات کر کے ان کو یقین دلا رہے ہیں کہ اسمبلی ان کی امانت ہے۔
’مونس الٰہی ایک طرح سے سیاسی توازن برقرار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ انتخابی سیاست اور حلقوں کی سیاست کو بھی سامنے رکھ کر فیصلے کر رہے ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ انتخابی سیاست میں پی ٹی آئی ان کی جماعت سے زیادہ طاقتور ہے۔‘
تاہم دوسری جانب وہ سمجھتی ہیں کہ معاملات پی ٹی آئی کے لیے بھی آسان نہیں کیونکہ ق لیگ کے پاس اس وقت جو دس نشستیں پنجاب کے اندر ہیں وہ حکمتِ عملی کے حساب سے بہت اہم ہیں۔
ان کے خیال میں پی ٹی آئی اور عمران خان کے پاس بھی آپشنز محدود ہوتے جا رہے ہیں اس لیے ان کو بھی کھل کر سامنے آنا ہو گا۔