آنول سے حاصل کیے گئے خلیوں نے ممکنہ طور پر بچے کا دل ٹھیک کر دیا
ایک ہارٹ سرجن کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے پلیسنٹا یعنی آنول سے حاصل کیے گئے سٹیم خلیوں کے ذریعے ’دنیا میں پہلی مرتبہ‘ آپریشن کر کے ’ممکنہ طور پر ایک بچے کی جان بچا لی ہے۔‘
برسٹل ہارٹ انسٹیٹیوٹ کے پروفیسر میسیمو کپوتو نے فِنلے نامی بچے کے دل کے مرض کو ٹھیک کرنے کے لیے سٹیم خلیوں کے ذریعے ایک سہارا تیار کیا جو اپنے آپ میں ایک نیا طریقہ ہے۔
انھیں امید ہے کہ وہ اس ٹیکنالوجی میں مزید بہتری لائیں گے تاکہ دل کے نقائص کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کو آپریشنز کی ضرورت نہ پڑے۔
وہ کہتے ہیں کہ دو سالہ فِنلے اب ایک خوش باش بچہ ہے اور بڑھ رہا ہے مگر پیدائش کے وقت ان کے دل کی مرکزی شریانیں الٹی تھیں اور چار دن کے بعد ہی اُنھیں برسٹل رائل ہاسپٹل فار چلڈرن میں اپنی پہلی اوپن ہارٹ سرجری سے گزرنا پڑا۔
بدقسمتی سے اس سرجری نے یہ مسئلہ حل نہیں کیا۔ ان کے دل کی کارکردگی کم ہونے لگی اور دل کی بائیں جانب خون کی سخت کمی پیدا ہونے لگی۔
ان کی والدہ میلیسا کہتی ہیں: ’ہم پہلے دن سے ذہنی طور پر تیار تھے کہ اس کے بچنے کے امکانات بہت زیادہ نہیں۔‘
’فِنلے 12 گھنٹے بعد سرجری سے باہر آ گیا مگر مگر اسے زندہ رہنے کے لیے دل اور پھیپھڑوں کی بائے پاس مشین کی ضرورت تھی اور اس کی دل کی کارکردگی بہت حد تک گر گئی تھی۔‘
کئی ہفتوں تک انتہائی نگہداشت میں رہنے کے بعد یہ واضح ہونے لگا تھا کہ فِنلے کی حالت میں بہتری کا کوئی روایتی طریقہ نہیں اور وہ دواؤں پر منحصر رہیں گے۔
مگر پھر آنول سے حاصل کیے گئے سٹیم خلیوں کے ذریعے ایک نیا طریقہ آزمایا گیا۔ پروفیسر کپوتو نے فِنلے کے دل میں براہِ راست سٹیم خلیے انجیکٹ کر دیے۔ اُنھیں امید تھی کہ اس سے خون کی تباہ رگیں دوبارہ نشونما پانے لگیں گی۔
’ایلوجینک‘ کہلائے جانے والے ان خلیوں کی افزائش لندن کے رائل فری ہاسپٹل میں کی گئی تھی اور ان میں سے کروڑوں فِنلے کے دل کے پٹھوں میں انجیکٹ کیے گئے۔
ایلوجینک خلیوں کے پاس ان ٹشوز میں بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے جنھیں جسم نے مسترد نہیں کیا ہوتا، چنانچہ فِنلے کے کیس میں ان خلیوں نے دل کے تباہ ہو چکے پٹھوں کی دوبارہ افزائش کی ہے۔
پروفیسر کپوتو کہتے ہیں: ’ہم نے اسے تمام دواؤں اور وینٹیلیشن سے ہٹوا دیا۔ وہ انتہائی نگہداشت سے باہر آ چکا ہے اور اب ایک خوش باش بچہ ہے جو تیزی سے بڑھ رہا ہے۔‘
ایک بائیو پرنٹر کے ذریعے سٹیم خلیوں کا ایک سہارا بنایا گیا تاکہ خون کی رگوں میں موجود خامیوں کو دور کر کے دل کے دو چیمبرز کے درمیان موجود سوراخوں کو بھرا جا سکے۔
مصنوعی ٹشوز عام طور پر بچوں میں دل کی مرمت کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں مگر یہ ناکام ہو سکتے ہیں اور دل کے ساتھ ساتھ بڑے نہیں ہوتے، اس لیے جب بچے بڑے ہونے لگتے ہیں تو اُنھیں مزید آپریشنز کی ضرورت ہوتی ہے۔
پروفیسر کپوتو کو امید ہے کہ اگلے دو برس میں اس حوالے سے مزید کلینکل ٹرائلز ہوں گے۔
سٹیم خلیوں کے پلاسٹرز ویلز سے تعلق رکھنے والے لوئی جیسے مریضوں کے لیے بھی امید کی کرن ہیں، جو پیدائشی طور پر دل کے کئی نقائص کے حامل ہیں۔
پروفیسر کپوتو نے کارڈف سے تعلق رکھنے والے 13 سالہ لوئی کی پہلی ہارٹ سرجری دو ہفتوں کی عمر میں کی تھی اور اس کے بعد دل میں لگائے گئے مٹیریل کی تبدیلی کے لیے دوبارہ چار برس کی عمر میں ایک سرجری کی۔
چونکہ یہ مٹیریل مکمل طور پر حیاتیاتی نہیں، اس لیے یہ ان کے دل کے ساتھ بڑا نہیں ہو رہا، اس لیے اُنھیں بار بار آپریشنز کی ضرورت پڑتی ہے۔
برٹش ہارٹ فاؤنڈیشن کے مطابق لوئی کی طرح برطانیہ میں ہر روز تقریباً 13 بچوں میں دل کے پیدائشی امراض کی تشخیص ہوتی ہے۔
چونکہ دل کی مرمت کے لیے لگائے گئے مٹیریلز کو جسم کا مدافعتی نظام مسترد کر سکتا ہے، اس سے دل میں زخم ہو سکتے ہیں جس سے مزید پیچیدگیاں ہو سکتی ہیں اور یہ مٹیریل کچھ ماہ یا سال میں مکمل طور پر ناکام ہو جاتے ہیں۔
اس لیے ایک بچے کو اپنے پورے بچپن میں کئی مرتبہ دل کا ایک ہی آپریشن کروانا پڑتا ہے۔ ہر برس برطانیہ میں دل کے پیدائشی امراض کے تقریباً 200 ریپیٹ آپریشن کیے جاتے ہیں۔
لوئی کو امید ہے کہ اس نئی پیشرفت سے اُنھیں کم آپریشنز کروانے پڑیں گے۔
وہ کہتے ہیں ’مجھے آپریشن کروانا پسند نہیں۔ یہ طویل مدت کے لیے بہتر نہیں کیونکہ مجھے ہر دو سال میں آپریشن کروانا پڑتا ہے، اس لیے مجھے اس سے کافی سکون ملے گا۔‘
پروفیس کپوتو اور ان کی ٹیم کے مطابق وہ سٹیم سیلز کی ٹیکنالوجی پر کام کر کے نیشنل ہیلتھ سروس کے لیے ہر آپریشن پر سالانہ 30 ہزار پاؤنڈ بچا سکتے ہیں جس سے بالآخر لاکھوں پاؤنڈز کی بچت ہو گی۔