24 گھنٹے کے نوٹس پر پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے اجلاس طلب
اسلام آباد: حکومت نے حیرت انگیز طور پر 24 گھنٹے کے نوٹس پر پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے اجلاس طلب کرلیے۔
دوسری جانب اپوزیشن بھی حیران نظر آئی کہ ایسی کیا ضرورت تھی کہ پارلیمان کے اجلاس اتنی عجلت میں بلائے گئے، تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ مقننہ کو حالیہ اہم پیش رفتوں پر اعتماد میں لینے کے لیے کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق اس ضمن میں جب سینیٹر رضا ربانی سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں 24 گھنٹے میں اجلاس طلب کرنے کی وجہ سمجھ نہیں آرہی جبکہ دھند کے باعث دیگر شہروں سے تعلق رکھنے والے اراکین کو اسلام آباد پہنچنے میں دشواری ہوگی۔
انہوں نے اس بات پر تاسف کا اظہار کیا کہ سینیٹ کا اجلاس اپوزیشن کی جانب سے درخواست دینے کے ایک روز بعد ہی طلب کرلیا گیا۔
رضا ربانی کا کہنا تھاکہ سینیٹ کا اجلاس ایک سو 24 روز کے وقفے کے بعد ہورہا ہے جبکہ اس دوران صرف ایک اجلاس درخواست پر بلایا گیا، حکومت پارلیمان کو نظر انداز کررہی ہے۔
یاد رہے کہ معمول کے مطابق سینیٹ کے آخری اجلاس 29 اگست سے 3 ستمبر تک ہوئے تھے جبکہ قومی اسمبلی کا گزشتہ اجلاس 16 دسمبر کو اچانک ملتوی ہوگیا تھا۔
مذکورہ سیشن کو بزنس ایڈوائزری کمیٹی کے فیصلے کے مطابق 20 دسمبر تک جاری رہنا تھا لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر جلد ہی ملتوی کردیا گیا تھا۔
سینیٹر رضا ربانی کا کہنا تھا کہ آئین کی دفعہ 54 کے تحت صدر مملکت کو جب مناسب لگے وقتاً فوقتاً ایک ایوان یا پارلیمان کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس طلب اور ملتوی کرسکتے ہیں۔
آئین کی دفعہ 54 کے مطابق ایک سال میں قومی اسمبلی کے کم از کم 2 سے 3 اجلاس ہونے چاہیے اور ایک اجلاس کے بعد دوسرے اجلاس کے انعقاد تک کے ایک سو 20 دن سے زائد کا وقفہ نہیں ہونا چاہیے۔
رضا ربانی کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب آئین کے شق کو مسلسل نظر انداز کیا جارہا ہے اور اب وہ اتنے مختصر نوٹس پر اجلاس طلب کررہی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رہنما سینیٹر شیری رحمٰن نے بھی 48 گھنٹے کا ٹائم دیے بغیر سینیٹ کا اجلاس بلانے کو نامناسب قرار دیا اور کہا کہ اس سے سینیٹرز کو دشواری کا سامنا ہوگا کیوں کہ اسموگ کے سبب پروازیں دستیاب نہیں تو سندھ اور بلوچستان سے آنے والے کس طرح پہنچ سکیں گے۔
اسی حوالے سے رکنِ قومی اسمبلی شازیہ مری کا کہنا تھا کہ ’عقل سے خالی حکومت پارلیمان کو بھی اسی بے ہنگم انداز میں چلانا چاہتی ہے جس طرح ملک چلا رہی ہے‘۔
انہوں نے بتایا کہ منگل کی شام 5 بجے اراکین اسمبلی کو میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ اجلاس اگلے ہی روز ہوگا جس کے لیے نہ تو اراکین کو اعتماد میں لیا گیا نہ ہی کوئی نوٹیفکیشن جاری ہوا۔
سینیٹ میں قائد اوان سینیٹر شبلی فراز نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کا ردِ عمل حیرت انگیز ہے کیوں کہ اجلاس انہی کی درخواست پر بلایا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جب اجلاس کے لیے درخواست سینیٹ سیکریٹری کے پاس جمع کروائی گئی تو انہوں نے سینیٹ میں قائد حزب اختلاف راجہ ظفرالحق اور شیری رحمٰن کے ساتھ دیگر پارلیمانی رہنماؤں سے رابطہ کر کے بتایا تھا کہ حکومت ان کی درخواست پر سینیٹ کا سیشن طلب کررہی ہے جس کے لیے 14 روز درکار ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ اجلاس سے لے کر اب تک متعدد اہم پیش رفت ہوچکیں ہیں جس پر حکومت ایوان کو اعتماد میں لینا چاہتی ہے اور وزیراعظم عمران خان بھی سینیٹ اجلاس میں شرکت کریں گے۔