پاکستان

25 کی روٹی، 30 روپے کا نان: پاکستان میں آٹا غریب کی پہنچ سے باہر کیوں؟

Share

پاکستان میں ایک بار پھر گندم اور آٹے کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ملک بھر میں آٹے کی قیمتیں روز بروز بڑھ رہی ہیں اور اس سے لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔

ادارہ شماریات کے مطابق دسمبر کے آخری ہفتے میں آٹے کی قیمت میں تقریباً تین فیصد (2.81 فیصد) تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ رواں ہفتے میں آٹے کے 20 کلو تھیلے کی قیمت میں کم از کم 200 روپے تک کا اضافہ ہو چکا ہے۔

موسم سرما کے دوران کئی علاقوں میں صورتحال یہ ہے کہ اگر گھر کی گیس کا پریشر کم ہو تو پھر تندور کا رُخ کرنا پڑتا ہے جبکہ تندور سے ایک روٹی 25 روپے سے کم کی نہیں مل رہی ہے۔

ملک کے مختلف صوبوں میں 20 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت بھی یکساں نہیں ہے۔ اگر مارکیٹ ریٹ کی بات کی جائے تو صوبہ خیبرپختونخوا میں آٹے کی قیمت دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ ہے اور یہاں 20 کلو آٹے کا تھیلا 2600 روپے تک میں فروخت ہو رہا ہے۔ خیبرپختونخوا میں 20 کلو آٹے کے تھیلے کی سرکاری قیمت اگرچہ لگ بھگ مارکیٹ ریٹ سے نصف ہے تاہم عوام کی طویل قطاروں اور سرکاری آٹے کی محدود مقدار میں دستیابی کے باعث اس کا حصول لگ بھگ نامکن ہے۔

پنجاب میں 20 کلو آٹے کا تھیلا 2450 سے 2500 روپے کے درمیان دستیاب ہے جبکہ صوبہ بلوچستان میں اس کی قیمت 2400 تک ہے۔

اسی طرح صوبہ سندھ میں 20 کلو آٹے کا تھیلا 2400 سے 2500 کے درمیان دستیاب ہے۔

ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود گذشتہ دو برسوں سے پاکستان اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے گندم کی درآمد پر انحصار کر رہا ہے۔

گندم پاکستان میں خوراک کا اہم جُزو ہے اور ہر پاکستانی اوسطاً 124 کلو گرام گندم سالانہ کھا لیتا ہے۔

مصدق عباسی اسلام آباد کے رہائشی علاقے جی ٹین میں تندور چلا رہے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے علاوہ بجلی، گیس اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔

ان کے مطابق ’میں دو ملازمین کی تنخواہ کے علاوہ تندور کا 15 ہزار ماہانہ کرایہ ادا کرتا ہوں جبکہ بجلی اور گیس کا بل علیحدہ سے جمع کراتا ہوں۔‘

مصدق عباسی کے مطابق ’آٹے کی قیمت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں 25 روپے کی بھی روٹی بیچ کر سارے اخراجات پورے کرنا مشکل ہو رہا ہے۔‘

مصدق عباسی مزید وقت ضائع کیے بغیر اپنے گاہکوں کے لیے تندور میں پھر سے روٹی لگانے میں مصروف ہو گئے مگر ذہن میں یہ سوال تو ضرور پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس سارے بحران کا ذمہ دار کون ہے یا پھر اس بحران پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے؟

Pakistan

کیا صوبائی حکومتوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟

وفاقی حکومت نے اس حوالے سے معاملہ صوبوں پر ڈال دیا ہے کہ یہ مسئلہ یا بحران ملز ایسوسی ایشنز اور صوبائی حکومتوں کا پیدا کردہ ہے۔ حکومت کے مطابق آٹے کے ذخیرے اور فلور ملز کو فراہمی سمیت اس کی قیمتیں مقرر کرنا بھی صوبائی حکومتوں کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔

بی بی سی نے وزیراعظم شہباز شریف کی کابینہ میں شامل وفاقی وزرا اور فلور ملز ایسوسی ایشنز کے نمائندوں سے اس معاملے پر بات کی ہے اور اس بحران کو سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ آخر اس مسئلے سے کیسے باہر نکلا جا سکتا ہے۔

اس بحران کو سمجھنے سے قبل یہ ذہن میں رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت رواں برس مئی میں ایک اجلاس ہوا، جس میں ملک میں گندم کی پیداوار، موجودہ ذخائر اور صوبائی و قومی سطح پر کھپت جیسے معاملات زیر غور آئے۔

اس اجلاس میں رواں برس گندم کی مجموعی پیداوار کا ہدف دو کروڑ 29 لاکھ میٹرک ٹن لگایا گیا تھا جبکہ متوقع پیداوار دو کروڑ 26 لاکھ میٹرک ٹن تک ہو گی۔ گندم کی ملکی سطح پر مجموعی کھپت کا تخمینہ تین کروڑ میٹرک ٹن لگایا گیا۔

وزیراعظم کی زیر صدارت اس اجلاس کو بتایا گیا کہ گندم کی حکومتی سطح پر خریداری کے حوالے سے پنجاب نے 91.66 فیصد، سندھ نے 49.68 فیصد، بلوچستان نے 15.29 فیصد جبکہ پاسکو نے 100 فیصد ہدف حاصل کر لیا ہے۔

مقامی ضرورت کے مقابلے میں گندم کی کم پیداوار کی وجہ سے وفاقی کابینہ نے ملک میں 30 لاکھ گندم کی درآمد کی منظوری دی۔

یہ بھی واضح رہے کہ گذشتہ برس ملک میں دو کروڑ 28 لاکھ میٹرک ٹن گندم کی پیداوار ہوئی تھی تاہم یہ پیداوار بھی ملکی ضرورت سے کم تھی اس لیے پاکستان نے 20 لاکھ ٹن گندم بیرون ملک سے منگوائی تھی۔

اب موجودہ بحران پر وفاقی وزرا سے بات کرنے سے قبل فلور ملز ایسوسی ایشن کا مؤقف جانتے ہیں۔

’صوبوں میں مختلف جماعتوں کی حکومت ہے، جہاں اس وقت سیاسی کھینچا تانی چل رہی ہے‘

چیئرمین آل پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن عاصم رضا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت 2300 روپے فی من پر آٹا دے رہی ہے حکومت، 20 کلو آٹا 1295 کا مل رہا ہے لیکن سرکاری نرخ میں تو فرق نہیں ہے لیکن 15 کلو میں پرائیویٹ گندم کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ان کے مطابق آج سے صرف دس دن پہلے گندم فی من 3300 روپے میں مل رہی تھی اور آج یہ نرخ 4350 تک پہنچ چکا ہے۔

انھوں نے کہا کہ سرکاری اجرا جو ملز کو ہو رہا ہے وہ کم ہے۔ مثال کے طور پر بلوچستان گندم دے ہی نہیں رہا، سندھ سوا دو لاکھ ٹن تک ماہانہ گندم دے رہا ہے حالانکہ سندھ کو پونے تین لاکھ ٹن ایشو کرنا چاہیے۔

ان کے مطابق پنجاب میں ان دنوں میں 30 ہزار ٹن ایشو کیا جاتا رہا ہے، آج ساڑھے 21 ہزار ٹن ایشو کیا جا رہا ہے۔ خیبرپختونخوا میں سات ہزار ٹن ایشو ہوتا ہے آج پانچ ہزار ٹن ایشو ہو رہا ہے۔

عاصم رضا کے مطابق اس لیے اگر تمام صوبوں کا فرق نکالیں تو یہ دس ہزار ٹن یومیہ ہے، اس کا مطلب ہے ایک لاکھ بوری۔ اس کی وجہ سے سارا بوجھ اوپن مارکیٹ پر آتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جس کے پاس گندم پڑی ہے وہ اپنی من مانی کے ریٹ مانگ رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس وقت کھینچا تانی چل رہی ہے۔ ’صوبوں میں مختلف جماعتوں کی حکومت ہے، سندھ میں پیپلز پارٹی ہے، خیبرپختونخوا، پنجاب اور بلوچستان میں تحریک انصاف کی حکومت ہے تو یہ کھچڑی بنی ہوئی ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم کیوں دیں، ہم کیوں کریں۔‘

انھوں نے کہا کہ وفاق کو چاہیے کہ صوبوں کو گندم دے اور پھر بعد میں صوبوں کے کوٹے سے اسے نکال لے۔ انھوں نے کہا کہ بین الصوبائی پابندی لگانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ الٹا نقصان ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت وفاق اور صوبوں کی جانب سے گندم بچانے کی بجائے اس کے اجرا کی ضرورت ہے تاکہ مارکیٹ معمول پر آ جائے۔

’دوسرا بڑا حل اس کا یہ ہے کہ یہ نجی سیکٹر کو گندم درآمد کرنے کی اجازت دیں، ہمیں وہ 3300 سے 3400 روپے کے درمیان پڑے گی۔ ہم اگر لے آتے ہیں تو مارکیٹ خود بخود 4300 سے 3400 پر آ جائے گی۔‘

Punjab

’وفاقی حکومت اپنے ذخیرے سے گندم دے تو قیمت کم ہو سکتی ہے‘

چیئرمین فلور ملز اسوسی ایشن سندھ چوہدری محمد یوسف کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کے پاس سٹاک موجود ہے، اگر وہ آج ہی وہ گندم ایشو کر دیتے ہیں تو آٹا 50 روپے فی کلو کم ہو سکتا ہے، یا تو ہمیں اجازت دیں تو ہم 30 روپے کلو کم کر دیں۔

انھوں نے کہا کہ حمزہ شہباز نے ستمبر میں ایشو کی جانے والی گندم مئی میں ایشو کر دی۔ اس میں سٹاک اور سبسڈی ضائع کی گئی جس کا خمیازہ آج ہمیں بھگتنا پڑ رہا ہے۔’

چوہدری محمد یوسف نے کہا کہ وفاق نے ہمیں باندھ دیا ہے، یا تو ہمیں درآمد کرنے کی اجازت دے دیں، یا پھر خود ایشو کر دیں کیونکہ غریب آدمی اس وقت بددعائیں دے رہے ہیں۔

Food

فلور ملز قیمتوں میں کمی نہیں لائی، وفاق نے گندم درآمد بھی کی: وفاقی وزیر برائے فوڈ سکیورٹی

وفاقی وزیرِ برائے فوڈ سکیورٹی طارق بشیر چیمہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وفاق نے تو گندم درآمد بھی کی ہے اور ہم تو فلور ملز ایسوسی ایشنز کی منتیں کر رہے ہیں کہ وہ قیمتوں میں کمی لائیں لیکن وہ ایسا نہیں کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ محکمہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان نے رواں برس کے پہلے نو ماہ میں 80 کروڑ ڈالر کی گندم درآمد کی۔

وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ فلور ملز اسوسی ایشنز کو گندم صوبوں نے دینی ہوتی ہے وفاق نے نہیں۔

وزیر مملکت برائے بین الصوبائی ہم آہنگی مہر ارشاد نے بی بی سی کو بتایا کہ گندم ایک صوبائی معاملہ ہے۔ اس حوالے سے وفاق کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومتیں ہیں جہاں سے گندم کا بحران پیدا کیا جا رہا ہے۔

وفاق کے اختیارات سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ گندم کی خریداری تک صوبے کرتے ہیں، گودام اور سٹورز تک صوبوں کے پاس ہیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وفاق کے پاس تھوڑی مقدار پاسکو کی گندم کی ہو گی۔ مگر وفاق تو مسئلہ نہیں پیدا کر رہا ہے، وفاق نے بھی تو اپنے ہی ملک کو یہ گندم دینی ہے۔

مہر ارشاد کے مطابق ’یہ محمکہ خوراک کا مسئلہ ہے۔ وفاق بھرپور اپنی ذمہ داری ادا کر رہا ہے۔ تاہم ذخیرہ اندوزی کو روکنا صوبوں کی ذمہ داری ہے۔

Sindh

’سندھ کے اعداد و شمار کا علم نہیں‘

سندھ کی طرف سے کوٹے سے کم گندم کے سوال پر وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ انھیں ابھی اعداد و شمار کا تو صحیح علم نہیں ہے مگر وہ ایک بات وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ ’سندھ کو ہمیشہ ایک سازش کے تحت بدنام کیا جاتا ہے، اسے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔‘

ان کے مطابق سندھ کبھی مستحق کا حق نہیں مارتا اور یہی وجہ ہے کہ صوبے وہ بہترین سہولتیں ہیں کہ جو پورے پاکستان کے عوام کو حاصل نہیں ہیں۔

رواں برس مئی میں وزیر اعظم کی زیر صدارت اجلاس میں طے پایا تھا کہ گندم کی پیداوار کے ہدف اور پیداوار میں فرق کی وجوہات میں گندم کی کاشت میں کمی، پانی کی قلت اور گذشتہ حکومت کی کھاد کی فراہمی میں بد انتظامی کی وجہ سے بحران پیدا ہوا۔

مزید یہ کہ مارچ میں گندم کی امدادی قیمت کے دیر سے اعلان کی وجہ سے کسانوں کی گندم کی کاشت میں دو فیصد کمی کا رجحان بھی دیکھنے میں آیا۔ تیل کی قیمتوں میں اضافے اور ماحولیاتی تبدیلی یعنی وقت سے پہلے گرمی کی شدت میں اضافہ بھی گندم کے طے شدہ ہدف کے حصول میں بڑی رکاوٹ رہے۔

گندم کے شعبے سے وابستہ افراد اور ماہرین کے مطابق اگر گندم کی بلند قیمت اور روپے کی کم قیمت برقرار رہی تو درآمدی گندم پاکستانیوں کے لیے آٹے کی قیمت کو مزید بڑھا دے گی، جو ملک میں پہلے سے موجود مہنگائی کی بلند سطح کو اوپر کی جانب دھکیل دے گی۔