ایرانی جنرل قاسم سلیمانی عراق میں امریکی حملے میں ہلاک
ایرانی پاسدارانِ انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کو عراق میں امریکی افواج نے ہلاک کر دیا ہے۔
امریکی فوجی ادارے پینٹاگون نے ان کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ انھیں صدارتی حکم کے مطابق نشانہ بنایا گیا۔ ایران کی خبر رساں ایجنسی فارس پر نشر ہونے والے ایک بیان میں پاسدارانِ انقلاب نے بھی ان کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے۔
اس سے قبل اطلاعات تھیں کہ بغداد کے ہوائی اڈے پر حملہ ہوا ہے جس میں متعدد افراد ہلاک ہوئے۔
جنرل سلیمانی کا ایرانی حکومت میں ایک کلیدی کردار تھا۔ ان کی قدس فورس صرف رہبرِ اعلی آیت اللہ علی خمنہ ای کو جوابدہ ہے اور انھیں ملک میں ایک ہیرو تصور کیا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ چند روز قبل ایران نواز گروہوں کی جانب سے بغداد میں واقع امریکی سفارت خانے پر دھاوا بولا گیا تھا۔
مبصرین کے خیال میں ان کی موت پر ایران کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آنے کا امکان ہے جس سے خطے کی کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا۔
امریکی صدر ٹرمپ نے جنرل سلیمانی کی ہلاکت کے بعد اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر امریکی جھنڈے کی تصویر لگائی، جس کے ردِ عمل میں کئی ایرانی سوشل میڈیا صارفین اپنے اکاؤنٹس سے بھی ایرانی جھنڈے کی تصویریں شیئر کر رہے ہیں۔
جنرل سلیمانی کی ہلاکت پر ایران کے وزیر خارجہ نے اپنے بیان میں امریکی اقدام کو ’عالمی دہشت گردی‘ قرار دیا اور کہا کہ وہ اور ان کی قدس فورس خطے میں نام نہاد دولتِ اسلامیہ، النصرہ اور القائدہ سمیت دیگر تنظیموں سے لڑنے والی سب سے مؤثر قوّت تھی۔
جنرل سلیمانی سنہ 1998 سے پاسدارنِ انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ تھے۔ یہ یونٹ بیرونِ ملک خفیہ آپریشنز کرتا تھا۔ اس سے قبل انھوں نے 1980 کی دہائی میں ایران اور عراق کے درمیان لڑی جانے والی جنگ میں نام کمایا۔
جنرل سلیمانی کا کردار اہم کیوں؟
جنرل سلیمانی اس حوالے سے بھی جانے جاتے ہیں کہ انھوں نے شام کے صدر بشار الاسد کی باغیوں کے خلاف کارروائیوں میں مدد کی اور کئی اہم شہروں اور قصبوں کو باغیوں سے چھڑانے میں کردار ادا کیا۔
ایران نے ہمیشہ اس بات کی تردید کی ہے کہ اس کی فوج شام اور عراق میں موجود ہے، لیکن ایران ان دونوں ملکوں میں ہلاک ہونے والے فوجیوں اور ’فوجی مشیروں‘ کے عوامی جنازوں کا انعقاد گاہے بگاہے کرتا رہتا ہے۔
قاسم سلیمانی ان میں سے کچھ جنازوں میں شرکت کر چکے ہیں۔
ایران اور امریکہ نظریاتی اعتبار سے ایک دوسرے کے سخت حریف ہو سکتے ہیں لیکن عراق میں دولت اسلامیہ کے خلاف محاذ نے دونوں ممالک میں ایک بالواسطہ اشتراک قائم کر دیا ہے۔
یہ وہ راستہ ہے جس کی جانب جنرل سلیمانی نے پہلے قدم بڑھایا تھا۔
سنہ 2001 میں جب امریکہ نے افغانستان میں طالبان کے خلاف کارروائی شروع کی تو ایران نے امریکہ کو فوجی انٹیلیجنس فراہم کی تھی۔ اسی طرح سنہ 2007 میں واشنگٹن اور تہران نے اپنے نمائندے بغداد بھیجے تاکہ وہاں کی سکیورٹی صورتحال پر مذاکرات کریں۔
اس وقت سابق عراقی وزیراعظم نوری المالکی بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ تشدد سے نبرد آزما ہو رہے تھے۔
2013 میں بی بی سی فارسی کی ایک دستاویزی فلم کے لیے ایک انٹرویو میں عراق میں سابق امریکی سفیر رائن کروکر نے بتایا تھا کہ جنرل سلیمانی کا بغداد مذاکرات میں اہم کردار تھا۔
رائن کروکر کے مطابق انھوں نے جنرل سلیمانی کے اثرو رسوخ افغانستان میں بھی محسوس کیا تھا جب وہ بطور امریکی سفیر افغانستان میں تعینات تھے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا ‘افغانستان کے حوالے ایران میں میرے باہمی میل جول کے لوگوں نے مجھ پر واضح کیا کہ وہ وزارت خارجہ کو مطلع رکھیں گے، آخرَکار وہ جنرل سلیمانی ہی تھے جنہیں فیصلے لینے تھے۔’
گذشتہ چند سالوں میں جنرل سلیمانی کا ایران کے خارجہ امور میں کردار مزید ابھر کر سامنے آیا تھا۔ وہ فون لائن کی دوسری طرف پائے جانے والے ایک چھپی ہوئی شخصیت نہیں رہے تھے۔ آج کل وہ ایران میں جانی پہچانی شخصیت ہیں۔
گزشتہ ماہ تہران میں معروف فجر فلم فیسٹیول میں ایک فاتح نے اپنے ایوارڈ جنرل سلیمانی کے نام کیا۔
یہ بھی اعلان کیا گیا کہ ایران میں اس کے پرانے حریف صدام حسین پر بننے والی ایک نئی فلم کی پروڈکشن میں سپروائزر کے طور پر بھی خدمات سرانجام دے سکتے ہیں۔
تاہم جنرل سلیمانی کی اس چمک دمک سے تمام لوگ خوش نہیں ہیں۔
دسمبر 2014 میں مانامہ ڈائیلاگ سکیورٹی سمٹ کے دوران کینیڈین اور ایرانی شرکا کے درمیان جنرل سلیمانی کے کردار کے حوالے سے تند و تیز جملوں کا تبادلہ بھی ہوا تھا۔
کینیڈا کے اس وقت کے وزیر خارجہ جون بائرڈ نے انھیں نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے خلاف لڑنے والا ’خطے میں ہیرو کے روپ میں دہشت کا ایجنٹ‘ کہا تھا۔