رمضان میں روزے کے ساتھ ورزش کیسے کی جا سکتی ہے؟
رمضان میں روزے کے ساتھ ورزش کرنے کے بارے میں سوچنے سے پہلے آپ کو اس بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ روزہ رکھنے کے باعث آپ کے جسم میں مختلف تبدیلیاں آ رہی ہیں اور توانائی کے لیول فی الحال معمول پر نہیں ہیں۔
تو کیا صرف اس وجہ سے ورزش چھوڑی جا سکتی ہے؟ یہ وہ مشکل سوال ہے جس کے بارے میں ٹرینر بلال حفیظ اور غذائیات کی ماہر نازیمہ قریشی ایک عرصے سے کام کر رہے ہیں۔
یہ دونوں میاں بیوی ہیں اور ’دی ہیلدی مسلمز‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ دونوں نے ’دی ہیلدی رمضان گائیڈ‘ کے نام سے کتاب بھی لکھی ہے جس میں انھوں نے روزے کے ساتھ ورزش اور غذا کے توازن کے بارے میں بات کی ہے۔
حفیظ بتاتے ہیں کہ ’رمضان کا اصل مقصد عبادت، روحانیت اور خود کو بہتر کرنے پر توجہ مرکوز کرنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس مہینے کے دوران حال میں رہنا بھی اہم ہے۔ ہم کیا کھا رہے ہیں اور کیسے ورزش کر رہے ہیں یہ سب اس میں اہم کردار ادا کرتا ہے کیونکہ اس کا ہم پر موجود ذہنی تناؤ، کام اور زندگی میں توازن اور خاندان پر بھی اثر پڑے گا۔‘
اگر آپ صحت مند رہنا چاہتے ہیں اور اپنی فٹنس کو 30 دن روزے رکھنے کے ساتھ بہتر بھی کرنا چاہتے ہیں تو آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ آپ نے کن عوامل کو ذہن میں رکھنا ہے۔
پانی پیتے رہیں
سب سے پہلے تو اس موضوع پر بات کر لیتے ہیں جو آپ کو رمضان شروع ہوتے ہی ہر وقت یاد کروائی جاتی ہے، یعنی زیادہ سے زیادہ پانی پینے کی تلقین۔
نازیمہ قریشی کہتی ہیں کہ ’اکثر افراد کو رمضان کے پہلے چند روز سر درد کی شکایات ہوتی ہے اور یہ عموماً پانی کی کمی کے باعث ہوتا ہے۔
’اس دوران جو ہدف آپ نے ذہن میں رکھنا ہے وہ یہ ہے کہ اتنا ہی پانی پیئیں جتنا آپ روزہ نہ رکھتے ہوئے پیتے ہیں۔ اس لیے آپ کو اس وقت پانی پینا ہے جب آپ روزے سے نہ ہوں، یعنی مغرب اور فجر کے درمیان۔ اس حوالے سے آپ شروعات میں یہ ہدف رکھ سکتے ہیں کہ آپ صبح کے وقت ایک لیٹر پانی پیئیں گے۔‘
اگر آپ عام دنوں میں بھی چائے یا کافی پیتے ہیں تو زیادہ پانی پینا اور بھی اہم ہو جاتا ہے کیونکہ عموماً کیفین کے اچانک نہ ملنے سے بھی سر درد کی شکایت ہو سکتی ہے۔
نازمہ قریشی کہتی ہیں کہ ’اہم بات یہ ہے کہ آپ چائے یا کافی پینے کی شرح میں رمضان شروع ہونے سے پہلے ہی کمی لانی شروع کر دیں‘ تاہم اگر پھر بھی آپ کو سر درد کی شکایت ہو تو زیادہ پانی پینا اس کا اچھا حل ثابت ہو سکتا ہے۔
دن کا آغاز اچھا کریں
حفیظ کہتے ہیں کہ ’کیونکہ آپ اب تین کی بجائے دو مرتبہ کھانا کھائیں گے، یعنی رات کو افطار اور طلوعِ آفتاب سے پہلے سحری اس لیے آپ کو ایسے کھانوں کو چننا ہے جو پورا دن آپ کی توانائی بحال رکھنے میں آپ کی مدد کریں۔‘
نازیمہ اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’لوگ سمجھتے ہیں کہ کیونکہ ان کی توانائی کم ہے تو انھیں سحری کرنے کی بجائے سو جانا چاہیے۔ لیکن آپ کو اس دوران غذا لینا ضروری ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’سحری میں آپ کے کھانے میں کامپلیکس کاربوہائیڈریٹ ہونے چاہییں جن میں پروٹین بھی ہو اور صحت مند فیٹس بھی اور پھر اگر آپ کچھ سبزیاں کھا سکیں یا پھل تو یہ اور بھی مفید ہو گا۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ ’جو کا دلیہ ایک ایسی غذا ہے جو آپ عام طور تجویز کرتے ہیں کیونکہ اس میں وہ تمام اجزا موجود ہوتے ہیں جن کی آپ کو ضرورت ہوتی ہے اور یہ کھانے کے اعتبار سے بھی بہت زیادہ بھاری نہیں ہوتے۔ دلیے کے ساتھ دہی، تخم ملنگا، پھل اور دودھ بھی غذا کے اعتبار سے اہم ہیں۔‘
تاہم نازیمہ یہ بات بھی مانتی ہیں کہ اتنی جلدی کھانا بھی مشکل ہوتا ہے خاص طور پر اگر آپ اس کے عادی نہ ہوں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ آپ کہ جسم کو اس کی جلد ہی عادت ہو جاتی ہے۔ ’اگر آپ کو پہلے چند دنوں میں مشکل ہوتی ہے تو آغاز میں کھانے کے چند نوالے لے کر شروع کریں۔ چوتھے یا پانچویں دن تک عموماً آپ کو بھوک لگنی شروع ہو جائے گی۔‘
شام میں ضرورت سے زیادہ کھانے سے پرہیز کریں
کیونکہ آپ پورا دن روزہ رکھنے کے بعد کھانے لگتے ہیں اس لیے یقیناً افطاری میں کسر پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں، خاص طور پر اگر آپ افطاری گھر والوں اور دوستوں کے ساتھ کر رہے ہوں۔
حفیظ کہتے ہیں کہ ’افطاری کا وقت یقیناً خاصا پرمسرت موقع ہوتا ہے، کیونکہ اس دوران آپ کے ساتھ اور لوگ بھی ہوتے ہیں۔ تاہم افطاری میں لوگ جس قسم کے کھانے کھا رہے ہیں، وہ کیلوریز میں اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ انھیں ضرورت سے زیادہ کھانے کا خطرہ رہتا ہے۔
’اس کی ایک مثال سموسے ہو سکتی ہے۔ ان میں 250 کیلوریز ہوتی ہیں، لیکن کوئی بھی ایک سموسہ نہیں کھاتا، ہمیشہ دو یا تین ہی کھاتا ہے۔ اس لیے آپ عام دنوں میں لینے والی کیلوریز سے زیادہ کھا لیتے ہیں۔‘
وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’اگر آپ ایسا ہفتے میں ایک بار کر رہے ہیں تو شاید پھر بھی ٹھیک ہے، لیکن ایسا عموماً پورے مہینے کے لیے ہر روز کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ اس لیے جہاں آپ روزہ رکھے ہوئے ہوتے ہیں، آپ دراصل سال کے کسی بھی حصے سے زیادہ کیلوریز حاصل کر لیتے ہیں۔‘
نازمہ کہتی ہیں کہ ’زیادہ کھانے کے بعد آپ کو ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے آپ میں بالکل بھی توانائی نہیں ہے اور پھر آپ سست پڑ جاتے ہیں اور اچھا بھی محسوس نہیں کرتے۔‘
’میرے نزدیک روزہ کھولنے کے بعد پانی پی لیں، کجھوریں کھائیں، پھل کھائیں اور پھر نماز پڑھیں اور کھانا کھا لیں۔ اس دوران اپنے ثقافتی کھانے بھی کھائیں لیکن پروٹین، کمپلیکس کاربز اور سبزیاں کھانا مت بھولیے۔ یہ آپ سوپ، سٹیو، مرغی کے گوشت، کباب اور مچھلی کے طور پر لے سکتے ہیں۔‘
ورزش کا وقت خود چنیں
حفیظ کہتے ہیں کہ ’اکثر افراد افطاری سے ایک یا دو گھنٹے پہلے ورزش کرتے ہیں تاکہ جب وہ ورزش ختم کریں تو وہ کچھ کھا پی سکیں۔‘
’لیکن اگر یہ آپ کے شیڈول کے مطابق ٹھیک نہیں ہے تو آپ اپنی عام روٹین کو ہی اپناتے ہوئے ورزش جاری رکھ سکتے ہیں۔ پچھلے سال میں دوپہر کے وقت ورزش کر کے کافی محظوظ ہوا تھا۔ پہلی مرتبہ ورزش کرنا مشکل ہو سکتا ہے لیکن ہمارے جسم بہت جلدی خود کو اس مناسبت سے ڈھال لیتے ہیں۔
’اس کے علاوہ آپ افطاری کے بعد بھی ورزش کر سکتے ہیں لیکن کیونکہ اس دوران عشا کی نماز بھی آتی ہے اس لیے وقت نکالنا مشکل ہو سکتا ہے۔
آہستہ کھائیں اور توازن برقرار رکھیں
اگر آپ کھانے کے دوران دوستوں یا خاندان والوں کے ساتھ بیٹھے ہیں تو آپ پر وہ سب کچھ کھانے کا دباؤ ہو گا جو آپ کو آفر کیا جائے۔ لیکن کچھ ایسے طریقے ہیں جن کے ذریعے اس سے بچا جا سکتا ہے۔
حفیظ کہتے ہیں کہ ’سب سے اہم چیز جو ہم لوگوں کو بتاتے ہیں وہ یہ یہ ہے کہ جب آپ کھانا کھا رہے ہوں تو آہستہ آہستہ کھائیں۔ باتیں زیادہ کریں اور کھانے میں زیادہ وقت لگائیں۔ اگر آپ کے میزبان نے آپ کی پلیٹ خالی دیکھ لی تو وہ آپ کو مزید کھانا لینے کا کہیں گے۔ اس لیے سست روی کا مظاہرہ کریں، ایسے میں آپ پر دباؤ نہیں ہو گا۔‘
جب یہ دونوں میاں بیوی کوئی ایسی تقریب میں شرکت کریں تو یہ خود بھی کچھ ایسا بنا کے لے جاتے ہیں جس وہاں موجود کھانے کی غذائیت میں اضافہ ہو۔ ’ہم وہ جوڑا ہیں جو عموماً سلاد لے کر جاتے ہیں۔‘
نازمہ کہتی ہیں کہ ’مجھے پتا ہے کہ سبزیاں بہت مقبول نہیں ہیں، لیکن عام طور پر ایسے موقعوں پر پروٹین اور کاربوہائیڈریٹ سے بھر ڈشز موجود ہوتی ہیں۔ ایسے میں آپ اپنی ڈش لے جا کر یہ نہیں کہتے کہ ہم صرف اپنا لایا ہوا کھانا کھائیں گے بلکہ دراصل پہلے سے موجود کھانے کی غذائیت میں اضافہ کر دیتے ہیں۔‘
مخصوص قسم کی ورزش پر توجہ دیں
اس سے فرق نہیں پڑتا کہ آپ دن میں کس وقت ورزش کرنے کے بارے میں سوچتے ہیں، ضروری یہ ہے کہ کیا آپ اپنے آپ کو اس کا عادی بناتے ہیں یا نہیں۔
حفیظ کہتے ہیں کہ ’رمضان میں آپ اپنی ورزش کی شدت میں کمی لا سکتے ہیں۔ اس مہینے میں آپ حرکت کرنے، جسم کو مخصوص انداز سے ہلانے، اپنے پیٹ کے پٹھوں کو مضبوط کرنے اور اپنے جسم کے پٹھے مستحکم کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔‘
اپنے کندھوں کے جوڑوں سے لے کر کولہوں اور گھٹنوں تک صرف اس بات پر توجہ دیں کہ آپ مزید متحرک کیسے ہو سکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ظاہر ہے رات کو اچھی نیند بھی بہت ضروری ہے اگر آپ فٹنس برقرار رکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
’آپ ایک تیر اور کمان کے بارے میں سوچیں، رمضان میں آپ تیر کو پیچھے کھینچ رہے ہیں۔ اگر آپ ان 30 روز میں ایک مضبوط بنیاد کھڑی کر دیں تو آپ دیکھیں گے کہ آپ کتنا آگے تک جانے میں کامیاب ہو پائیں گے۔
یہ کم شدت والی ورزش اس وقت بھی بہترین رہتی ہے جب آپ کی کوئی روٹین نہ ہو اور آپ صرف اپنی فٹنس بہتر کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ یہ مہینہ شاید بھرپور انداز میں جم کرنے کے لیے نہیں ہے، آپ باہر جا کر چہل قدمی کرنے سے آغاز کر سکتے ہیں۔
اپنی نیت پر توجہ دیں
اگر آپ کو رمضان میں بوجھل پن محسوس ہو یا توانائی کم لگے تو حفیظ کہتے ہیں کہ روزہ رکھنے کے مقصد کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ صرف روزہ رکھنے سے زیادہ گہری بات ہے۔ اس دوران روحانیت کا درجہ بہت اہم ہے۔ اس دوران اپنی روایات کے ساتھ ہم آہنگ ہونا ضروری ہے۔
’اس دوران آپ کو خود کو مضبوط کرنا ہو گا، اس دوران ہم مزید طاقتور اور بہتر ہونا چاہتے ہیں۔ جب اس طرح کے لمحات آئیں جن میں آپ کو مشکل پیش آئے تو خود کو یہ بتانا ضروری ہے کہ ایسا محسوس کرنا مکمل طور پر نارمل ہے اور یہ کہ ایسا صرف 30 روز کے لیے ہے۔ میرے لیے اس کے ذریعے بہتر سے بہتر کرنے کی خواہش میں اضافہ ہوا۔‘