چیف جسٹس اختیارات بل: سپریم کورٹ کے حکم امتناع پر پاکستان بار کونسل کی رائے تقسیم
پنجاب اسمبلی کے انتخابات اور چیف جسٹس کے اختیارات سے متعلق بل پر حکومت اور عدلیہ کے درمیان تناؤ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے جبکہ پاکستان بار کونسل کی صفوں میں بھی اختلافات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق بار کونسل سےعلیحدہ ہونے والے ایک گروپ نے 17 اپریل کو جاری کردہ اعلامیہ سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اعلامیہ عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے اور اس کے وقار کو داغدار کرنے کے مذموم مقصد کے تحت جاری کیا گیا تھا۔
پاکستان بار کونسل کے 7 ارکان کے دستخط شدہ ایک صفحے کے اعلان میں کہا گیا کہ یہ اعلامیہ عدلیہ کی آزادی پر حملہ اور آئین کی خلاف ورزی ہے، ان 7 وکلا میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے عابد شاہد زبیری اور شفقت محمود چوہان، چوہدری اشتیاق احمد خان، منیر کاکڑ، طاہر فراز عباسی، شہاب سرکی اور حفیظ الرحمٰن چوہدری شامل ہیں۔
بعد ازاں حفیظ الرحمٰن چوہدری نے پاکستان بار کونسل کے لیٹر ہیڈ پر ایک علیحدہ بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہمیشہ قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی کے ساتھ کھڑے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت 90 دن کے اندر انتخابات کرائے جانے چاہیے تھے، میں نے بار کے عہدے پر رہتے ہوئے ہمیشہ عدلیہ کی آزادی کے لیے جدوجہد کی۔
بیان میں کہا گیا کہ ’میں پاکستان بار کونسل کے تمام فیصلوں پر قائم ہوں اور اعلان کرتا ہوں کہ میں آزاد گروپ کے ساتھ ہوں اور مستقبل میں بھی اس گروپ میں رہوں گا‘۔
17 اپریل کو پاکستان بار کونسل کی ایک نمائندہ کانفرنس میں دھمکی دی گئی تھی کہ اگر سپریم کورٹ نے مجوزہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کو معطل کرنے کے لیے اپنے 13 اپریل کے حکم کو واپس نہ لیا تو ملک گیر تحریک شروع کر دی جائے گی۔
یہ بیان تمام صوبائی بار کونسلز، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشنز کے نمائندوں کے اجلاس کے بعد جاری کیا گیا جنہوں نے سپریم کورٹ پر زور دیا کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کرے اور سیاسی بحران میں فریق نہ بنے۔
پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین حسن رضا پاشا نے کہا کہ گزشتہ روز کے اعلامیے پر دستخط کرنے والوں نے ہمیشہ کونسل کے فیصلوں کی مخالفت کی۔
17 اپریل کو جاری ہونے والے بیان سے اظہار لاتعلقی کرنے والے گروپ نے اپنے دفاع میں کہا کہ کہ وہ عدلیہ کے ساتھ کھڑے ہیں اور الزام عائد کیا کہ یہ اعلان ایک منتخب گروپ کے دماغ کی اختراع ہے جس کا مقصد ایک مخصوص سیاسی جماعت کے ایجنڈے کو آگے بڑھانا ہے۔
گروپ نے کہا کہ 17 اپریل کو جاری ہونے والا بیان اسمبلی کی تحلیل کے 90 روز کے اندر انتخابات کرانے کی آئینی ذمہ داری کے حوالے سے بھی خاموش ہے۔
ان کے مطابق ’نام نہاد نمائندہ کانفرنس‘ اور مجوزہ بل پر ان کا نقطہ نظر عدلیہ کی آزادی، آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی پر حملہ ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ کُل 150 میں سے صرف 18 صوبائی بار کونسلز نے اجلاس میں شرکت کی، یہ کہنا غلط ہے کہ یہ بار ایسوسی ایشنز کا نمائندہ اجلاس تھا۔
انہوں نے اس اعلامیے کے ساتھ ساتھ پاکستان بار کونسل کی جانب سے یوم سیاہ منانے کی کال بھی مسترد کر دی، انہوں نے تمام جماعتوں پر زور دیا کہ وہ اختلافات دور کریں اور ملک کی ترقی اور بہتری کے لیے کام کرنے کے لیے اتحاد پیدا کریں۔