پاکستان

پی ٹی آئی رہنماؤں پر کون سے مقدمات درج ہیں اور رہائی کے بعد دوبارہ گرفتاری کی وجہ کیا ہے؟

Share

گرفتاری، ضمانت، رہائی اور پھر گرفتاری۔۔۔

تحریک انصاف کے کس رہنما کو کس کیس میں ضمانت مل رہی ہے اور رہائی کے فوراً بعد دوبارہ کس مقدمے میں گرفتار کیا جا رہا ہے؟ یہ وہ بنیادی سوال ہے جو پچھلے چند روز سے سوشل میڈیا پر پوچھا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ گرفتار ہونے والے رہنماؤں کے اہلخانہ اور وکلا بھی یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں ’اب کس کیس میں گرفتار کیا گیا ہے؟‘

تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری کی ہی بات کی جائے تو رواں ہفتے انھیں پہلے ایک کیس میں حراست میں کیا گیا، ضمانت پر رہائی ملتے ہی انھیں اڈیالہ جیل کے باہر سے دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ 17 مئی کو اسلام آباد ہائیکورٹ سے انھیں دوبارہ ضمانت ملی اور ایک مرتبہ پھر ان کی رہائی عمل میں لائی گئی مگر 17 مئی کی ہی رات انھیں ایک مرتبہ پھر گرفتار کر لیا گیا۔

یاد رہے کہ 9 مئی کو پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کو القادر ٹرسٹ کیس میں اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا تھا جس کے فوری بعد ہی ملک کے مختلف شہروں میں پرتشدد احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ ان مظاہروں کے نتیجے میں توڑ پھوڑ، سرکاری و عسکری املاک سمیت کئی اہم عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا۔

ان مظاہروں کے دوران اور بعد میں تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں پر مختلف نوعیت کے مقدمات کا اندراج ہوا اور ساتھ ہی ایک طرف تحریک انصاف کی قیادت اور ورکرز کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں شروع ہو گئیں تو دوسری جانب اکثر رہنما روپوش ہو گئے۔

دوسری جانب تحریک انصاف کی وہ مرکزی قیادت جو اگرچہ خود تو مظاہروں میں شریک نہیں تھی انھیں بھی نقضِ امن یعنی ایم پی او کے قانون کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔

اس وقت تحریک انصاف کے ایک درجن سے زائد رہنما گرفتار ہیں جبکہ ان میں سے کچھ کو عدالت کی جانب سے ریلیف ملنے کے بعد رہائی بھی ملی ہے جبکہ کچھ ایسے ہی ہیں جنھیں ضمانتیں تو ملیں مگر رہائی کے فوراً بعد انھیں دوبارہ حراست میں لے لیا گیا۔

PTI

تحریک انصاف کا کون سا رہنما کس قانون کے تحت گرفتار ہے؟

شاہ محمود قریشی، اسد عمر، شیریں مزاری، سیف اللہ نیازی، عالیہ حمزہ، مسرت چیمہ، ملیکہ بخاری، فلک ناز چترالی، فیاض الحسن چوہان، قاسم سوری، علی زیدی، علی محمد خان، شہریار آفریدی، فردوس شمیم نقوی سمیت دیگر رہنماؤں کو ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ ایم پی او کے تحت ان افراد کو حراست میں لیا جاتا ہے یا نظر بند کیا جاتا ہے جن کے آزاد گھومنے پھرنے سے، حکومت کے مطابق، امن و عامہ کے مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔

فواد چوہدری اور اسد قیصر کو بھی ایم پی او کے تحت ہی پکڑا گیا تھا تاہم عدالت سے ریلف ملنے کے بعد انھیں رہائی مل چکی ہے اور اب تک انھیں کسی دوسرے مقدمے میں گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔

مرکزی رہنماؤں کے علاوہ اس وقت صوبہ پنجاب میں تحریک انصاف کی لیڈرشپ میں حراست میں لیے جانے والوں میں ڈاکٹر یاسمین راشد، محمود الرشید، عمرسرفراز چیمہ، علی افضل ساہی سمیت دیگر رہنما شامل ہیں۔

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے گذشتہ روز دعویٰ کیا تھا کہ مرکزی رہنماؤں کے علاوہ ان کی جماعت کے لگ بھگ ساڑھے سات ہزار افراد اس وقت زیر حراست ہیں۔ تاہم حکام کی جانب سے گرفتار کیے گئے افراد کی مکمل تفصیلات جاری نہیں کی گئی ہیں۔

پنجاب میں متعلقہ حکام کے مطابق ایم پی او کے تحت گرفتاری کے لیے متعلقہ علاقوں کے ڈپٹی کمشنرز کی جانب سے ایک ایگزیکٹیو آرڈر جاری کیا گیا تھا جس کے بعد رہنماؤں کی گرفتاری عمل میں لائی گئی تاہم اس دوران عدالت کی جانب سے کئی رہنماووں کے ایم پی اور آرڈرز کو خارج بھی کیا گیا مگر ان کی رہائی کے فوری بعد ہی انھیں کسی اور مقدمے میں پکڑ لیا گیا۔

مثال کے طور پر، ڈاکٹر شیریں مزاری کو پہلے ایم پی اورتحت گرفتار کیا گیا عدالت نے ان کی رہائی کا حکم دیا لیکن انھیں رہا ہونے کے فوراً بعد اقدام قتل اور اسلحے کی نمائش کے ایک کیس میں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا اور دوبارہ ضمانت کے بعد اب انھیں ایک بار پھر ایم پی او کے قانون کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔

دیگر مقدمات کی تفصیلات

بی بی سی نے پولیس اور وکلا سے موصول ہونے والی ایف آئی آرز کی بنیاد پر یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ اس وقت کس پی ٹی آئی رہنما پر کون کون سے مقدمات ہیں۔

ڈاکٹر یاسمن راشد

تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد پر یہ الزام ہے کہ کور کمانڈر ہاؤس لاہور پر حملے میں ان کا اہم کردار تھا۔ جس کے باعث ان پر مختلف نوعیت کے تین مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ جن میں لوگوں کو اشتعال دلانے، توڑ پھوڑ کرنے کے علاوہ دیگر دفعات شامل ہیں۔

محمود الرشید

پنجاب سے تحریک انصاف کے رہنما میاں محمد الرشید کو متعدد مقدمات میں نامزد کیا گیا ہے۔ جس میں دہشت گردی کی دفعات کے علاوہ ایک شہری کے قتل کا مقدمہ بھی شامل ہے۔

عمر سرفراز چیمہ

سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کو ان کے گھر سے اینٹی کرپشن کی ٹیم نے گرفتار کیا ہے۔ تاہم گرفتاری کے بعد ان کو بھی لوگوں کو اشتعال دلانے اور دہشت گردی سمیت کئی مقدمات میں نامزد کیا گیا۔

اعجاز چوہدری

تحریک انصاف کے سینیٹر اعجاز چوہدری پر لاہور کور کمانڈر ہاوس پر جلاؤ گھیراؤ کے الزام پر دہشت گردی سمیت کئی اور دفعات لگائی گئی ہیں۔

اس کے علاوہ تحریک انصاف کے کئی رہنماوں ایسے بھی ہیں جن کے خاف سنگین نوعیت کے مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ تاہم ان کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی جا سکی ہے۔ ان میں مراد سعید، حماد اظہر، فرخ حبیب، علی امین گنڈا پور، اسد زمان، شوکت بسرا، زبیر نیازی، میاں اسلم اقبال سمیت دیگر صوبائی اور مرکزی قیادت کے افراد شامل ہیں۔

مختلف شہروں میں درج ہونے والے کئی مقدمات اسے بھی ہیں جن میں پوری پوری لیڈرشپ کو نامزد کیا گیا ہے۔ تاہم پولیس کے مطابق وفاقی دارالحکومت سے گرفتار ہونے والے زیادہ تر رہنماؤں کے خلاف ایم پی او کے تحت کارروائی کی گئی ہے مگر دیگر مقدمات نئے سامنے آنے والے شواہد کی بنیاد پر درج کیے جا سکتے ہیں۔

ایک طرف تحریک انصاف کی قیادت کے خلاف دہشت گردی جیسے مقدمات درج کیے گئے ہیں اور دوسری جانب ہنگاموں کے دوران موٹر سائیکل چوری، پٹرول پمپ سے نقدی چوری سمیت توڑ پھوڑ سے ہونے والے نقصان کی ذمہ داری سے متعلق مقدمات میں کئی پی ٹی آئی رہنماؤں سمیت کارکنوں کو نامزد کیا گیا ہے۔

اگر ایف آئی آرز کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کئی رہنماؤں پر دفعہ 144 کی خلاف ورزی کے مقدمات بھی درج ہوئے ہیں۔

اس کے علاوہ حال ہی میں آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق فوج یہ ارادہ بھی رکھتی ہے کہ کور کمانڈر ہاؤس لاہور، جی ایچ کیو اور دیگر عسکری املاک کو نقصان پہنچانے والوں سمیت ان کے سہولت کاروں کے خلاف آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمے درج ہوں۔

تاہم وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے 17 مئی کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ گرفتار افراد میں سے آرمی ایکٹ کے تحت کس کے خلاف مقدمات چلیں گے اس کا فیصلہ قانون اور شواہد کی روشنی میں کیا جائے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت کسی بے گناہ شخص کو مقدمات میں نہیں الجھائے گی۔

’اس وقت پاکستان میں قانون اور آئین کی سخت خلاف ورزی ہو رہی ہے‘

اس معاملے پر بی بی سی گفتگو کرتے ہوئے قانونی ماہر اور وکیل اسد جمال کا کہنا تھا کہ ’اس وقت زیادہ تر لوگوں کو ایم پی او کے تحت پکڑا گیا ہے اور یہ قانون پاکستان بننے سے بھی پہلے استعمال ہوتا آ رہا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اس کے تحت آپ کسی بھی شخص پر پابندی لگا سکتے ہیں، اسے گرفتار کر سکتے ہیں، نظر بند کر سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر آپ کو یہ خدشہ بھی ہے کہ فلاں شخص لوگوں کو اکسا سکتا ہے تو اسے آپ بار بار پکڑ سکتے ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’زیادہ اہم بات یہ ہے کہ کس طرح لوگوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ جیسا کہ عثمان ڈار کیس دیکھیں۔ پولیس کو وہ گھر پر نہیں ملے تو ان کی والدہ کو ہراساں کیا گیا۔ یہ رویہ کئی افراد کے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے جو قانون کے خلاف ہے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’قانون میں حراست میں لینے کے حوالے سے یہاں تک موجود ہے کہ کسی شخص یعنی ملزم کا وقار مجروح نہ ہو۔‘

’اس کے علاوہ لوگوں کو معلوم ہی نہیں ہے کہ ان کے خلاف کون سا مقدمہ کہاں درج ہے۔ وہ ایک مقدمے سے رہا ہوتے ہیں تو کسی دوسرے مقدمے میں پکڑ لیے جاتے ہیں۔‘

اسد جمال کے مطابق ’قانون کہتا ہے کہ ہر شخص کو انصاف تک رسائی ہونی چاہیے اور وہ اسی وقت ممکن ہے جب اسے پتا ہو گا کہ اس پر الزام کیا ہے۔‘

’قانون کے مطابق جب آپ کسی کو حراست میں لیتے ہیں تو پولیس اس بات کی پابند ہوتی ہے کہ وہ ملزم کو 24 گھنٹوں کے اندر اندر مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرے لیکن ہمارے ملک میں پکڑ پہلے لیے جاتا ہے اور گرفتاری بعد میں ڈالی جاتی ہے۔‘

’تمام گرفتار افراد کا ڈیٹا پبلک کیا جائے گا‘

17 مئی کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ حکومت نے پورے پاکستان سے نو مئی کے واقعات کے تناظر میں گرفتار افراد کا ڈیٹا، ان پر عائد الزامات اور اُن کے خلاف دستیاب شواہد کو عوام کے سامنے لانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے اس حوالے سے ’پراپیگنڈے‘ کو بے نقاب کیا جا سکے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ گرفتاریاں قانون کے مطابق کی جا رہی ہیں اورعمران خان کے دور حکومت کے برعکس موجودہ حکومت فاشزم پر یقین نہیں رکھتی اور نہ ہی کسی کو بے بنیاد مقدمے میں پھنسانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ایسے لوگ جو نو مئی واقعات کی منصوبہ بندی میں شامل تھے ان کے ساتھ کسی قسم کی کوئی رعائت نہیں برتی جائے گی۔