پی ٹی آئی سے راہیں جدا کرنے کا سلسلہ جاری: وجہ دباؤ ہے یا نو مئی کے واقعات پر ناراضی؟
سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف نو مئی کو عسکری تنصیبات اور املاک میں توڑ پھوڑ و جلاؤ گھیراؤ کے واقعات کے بعد اپنی 27 سال کی تاریخ کے بظاہر سب سے کڑے امتحان سے گزر رہی ہے۔
اس امتحان کی شدت کا اندازہ منگل کو ہوا جب سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے 9 اور 10 مئی کو ہونے والے پُرتشدد واقعات اور فوج کے ہیڈکوارٹر جی ایچ کیو پر حملوں کی مذمت کی اور ساتھ ہی اعلان کیا کہ وہ اب کسی بھی سیاسی جماعت کا حصہ نہیں رہیں گی۔
ان سے پہلے اور ان کے بعد بھی متعدد وفادار پی ٹی آئی رہنما، جیسے عامر کیانی اور فیاض الحسن چوہان، پارٹی سے اپنی راہیں جدا کرنے کا اعلانات کر چکے ہیں۔
یہ وہی دِن تھا جب عمران خان نیب میں القادر ٹرسٹ تحقیقات اور انسدادِ دہشت گردی عدالت میں پیش ہونے کے لیے لاہور سے اسلام آباد پہنچے تھے۔ قبل ازیں وہ اپنی گرفتاری کے اسی فیصد امکان کا شبہ بھی ظاہر کرچکے تھے مگر اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے انھیں سات مقدمات میں آٹھ جون تک عبوری ضمانت میں توسیع دے دی۔
اس کے باوجود ایسی قیاس آرائیاں موجود ہیں کہ پی ٹی آئی کے دیگر چند اہم رہنما بھی جماعت چھوڑ سکتے ہیں۔ اس سب کے بیچ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے اپنے قریبی ساتھیوں کی جانب سے راہیں جدا کرنے کو ’جبری علیحدگیوں‘ کا نام دیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ 9 مئی کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کا حتمی نتیجہ کیا نکل سکتا ہے اور آیا ریاست کی پالیسی کے سامنے پاکستان تحریکِ انصاف کھڑی رہ پائے گی؟
کیا پی ٹی آئی رہنماؤں کو پارٹی چھوڑنے کی بنیاد پر رہائی مل رہی ہے؟
سب سے پہلے تو یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا گرفتار پی ٹی آئی رہنماؤں کو اس بنیاد پر رہائی مل رہی ہے کہ وہ پارٹی سے اپنی راہیں ہمیشہ کے لیے الگ کرلیں؟
جب منگل کے روز پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو عدالتی حکم کے تحت اڈیالہ جیل سے رہا کیا گیا تو عمومی طور پر کہا جا رہا تھا کہ شاہ محمود قریشی پریس کانفرنس کریں گے، جس میں وہ سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان کریں گے مگر رہائی کے فوری بعد پنجاب پولیس نے اُن کو دوبارہ گرفتار کرلیا۔
شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’مجھ پر دباؤ ہے کہ پارٹی کوچھوڑ دوں لیکن مَیں پارٹی کو نہیں چھوڑوں گا اور کسی طرح کا دباؤ نہیں لوں گا۔ٗ
مزید براں منگل ہی کے روز مسرت جمشید چیمہ اور اُن کے شوہر جمشید چیمہ کے وکیل نے میڈیا پر بتایا کہ مسرت جمشید چیمہ اور جمشید چیمہ پی ٹی آئی چھوڑ رہے ہیں اور اس کا اعلان وہ رہائی کے بعد کریں گے لیکن عدالتی حکم پر دونوں میاں بیوی کو رہا تو کردیا گیا مگر ساتھ ہی پنجاب پولیس نے دوبارہ انھیں گرفتار کرلیا۔
اس سے یہ پہلو تقویت پاتا ہے کہ رہائی مشروط ہے اور یہ رہائی تب ہی ہو گی جب پارٹی سے اعلان لاتعلقی کِیا جائے گا۔
اس پہلو کو مزید تقویت شیریں مزاری اور فیاض الحسن چوہان کی رہائی کے بعد پارٹی چھوڑنے کے اعلان سے ملتی ہے کیونکہ شیریں مزاری کو پے دَرپے رہائی ملتی رہی اور وہ دوبارہ گرفتار بھی ہوتی رہیں۔ پھر آخرِکار انھیں رہائی کے بعد پارٹی سے الگ ہونے کا اعلان کرنا پڑا۔
دوسری طرف جو پی ٹی آئی رہنما رہائی پا چکے ہیں، اُن کے مؤقف میں سختی ناپید ہو چکی ہے۔ وہ کوئی بیان نہیں دے رہے لیکن 9 مئی کے واقعات کی مذمت کر چکے ہیں۔ اس کی ایک بڑی مثال فواد چودھری ہیں۔
کیا تحریک انصاف کے رہنماؤں پر اسٹیبلشمنٹ کا براہِ راست دباؤ ہے؟
متعدد پی ٹی آئی رہنماؤں کی جانب سے پارٹی چھوڑنے کو عمران خان نے ’جبری علیحدگیاں‘ کہہ کر یہ تاثر دیا کہ پارٹی چھوڑنے والوں پر اسٹیبلشمنٹ کا براہِ راست دباؤ ہے۔
مگر کیا پارٹی چھوڑنے والے ایسے لوگ تھے جن کو پی ٹی آئی نظر انداز کر رہی تھی اور اُن کو ٹکٹ نہیں دیا گیا تھا یا مستقبل میں ٹکٹ نہ ملنے کا اندیشہ تھا جو کسی موقع کی تلاش میں تھے۔
ہم نے پارٹی چھوڑنے والی چند شخصیات سے رابطہ کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے۔
جنوبی پنجاب سے جن نو سابقہ ارکان نے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا ان میں سے ایک قیصر خان مگسی سے جب ہم نے پوچھا کہ ’کیا پارٹی چھوڑنے کے لیے ان پر اسٹیبلشمنٹ کا کوئی دباؤ تھا؟‘ تو اُن کا کہنا تھا ’مَیں تو پہلے ہی پارٹی سے فاصلہ اختیار کرچکا تھا۔ اس کی وجہ عمران خان کی بہن کا چوبارہ کے مقام پر زمین خریدنے کا تنازع تھا۔
’میں، ملک نیاز جکھڑ، مجید نیازی (سابق ایم این اے) اور رفاقت گیلانی (سابق ایم پی اے) کے ساتھ عمران خان سے ملا بلکہ مجھے بلایا گیا اور کہا گیا کہ زمین کا معاملہ حل کراؤ۔ میں نے کہا کہ مجھ سے نہیں ہوتا۔ البتہ جب جنوبی پنجاب کے ارکان نے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا تو اُس پریس کانفرنس میں، میں بھی شریک تھا۔‘
واضح رہے کہ قیصر مگسی 2018 کے الیکشن سے قبل صوبہ پنجاب کے پلیٹ فارم سے پاکستان تحریکِ انصاف میں شامل ہوئے تھے۔
ادھر رکن قومی اسمبلی محمود باقی مولوی کا کہنا تھا ’مجھ پر کوئی بیرونی دباؤ نہیں تھا۔ میرا اپنا فیصلہ تھا‘ جبکہ جلیل شرقپوری کا کہنا تھا ’فوج ہماری ریڈلائن ہے۔ عمران خان اور اس کی جماعت نے فوج کے ساتھ پھڈا ڈالا، ہم اس جماعت اور لیڈر کے ساتھ کیسے چلیں۔ مجھ پر بیرونی دباؤ نہیں بلکہ اندرونی دباؤ تھا۔‘
یہاں یہ سوال ضرور بنتا ہے کہ اگر فوج سے محبت کا جذبہ ہی تھا تو پارٹی چھوڑنے کا اعلان نو مئی کے فوراً بعد کرنے کے بجائے چند دن ٹھہر کر کیوں کیا گیا۔
کیا 9 مئی کے واقعات کے بعد ایک لکیر کھینچ دی گئی؟
9 مئی کو نیب کے القادر ٹرسٹ کیس میں رینجرز کے ہاتھوں عمران خان کی گرفتاری کے ردِعمل میں مختلف مقامات پر جلاؤ گھیراؤ ہوا، فوجی تنصیبات اور شہدا کی یادگاروں پر حملے کیے گئے جس نے صورتحال یکسر بدل دی۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے نو مئی کو یوم سیاہ قرار دیتے ہوئے پیغام دیا کہ ’پہلے تحمل سے کام لیا، اب شدید ردعمل دیا جائے گا۔ جو کام دُشمن 75 سال میں نہ کرسکے، وہ کام سیاسی لبادہ اُوڑھے گروہ نے کر دکھایا۔‘
17 مئی کو سیالکوٹ میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ’شہدا اور اُن کی یادگاروں کی بے حرمتی نہیں ہونے دیں گے۔ منصوبہ بندی کے تحت پیش آنے والے واقعات کی دوبارہ کسی بھی قیمت پر اجازت نہیں دی جائے گی۔ ذمہ داروں کو کٹہرے میں لائیں گے۔‘
حکومت اور فوج دونوں نے ہی عسکری تنصیبات اور املاک کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹس ایکٹ کے تحت کارروائی کا اعلان کیا ہے۔
یوں مبصرین کی رائے میں سیاسی و عسکری قیادت کے مشترکہ ردِعمل سے یہ واضح ہو گیا کہ 9 مئی کے واقعات کے بعد ایک لکیر کھنچ گئی، جس کا ثبوت ان واقعات میں ملوث افراد اور تحریک انصاف کے کارکنان کی گرفتاریوں سے بھی سامنے بھی آ رہا ہے۔
16 مئی: جب پی ٹی آئی کی ’پہلی وکٹ‘ گری
2018 کے عام انتخابات سے قبل جب بھی مسلم لیگ ن یا دیگر کسی پارٹی کا رہنما اپنی جماعت چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہوتا تھا تو عمران خان اور پی ٹی آئی اسے ’ہم نے ایک اور وکٹ گرا دی‘ کہتے تھے۔
جب اس بار 16 مئی کو رکن قومی اسمبلی محمود باقی مولوی نے پاکستان تحریکِ انصاف کو چھوڑنے کا اعلان کِیا تو یہ 9 مئی کے واقعات کے بعد گرنے والی ’پہلی وکٹ‘ تھی۔
محمود مولوی نے کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ فوج کو نہیں چھوڑ سکتا، پارٹی کو چھوڑ سکتا ہوں۔ اُن کے مطابق اس کی وجہ نو مئی کے واقعات ہے۔
ہم نے جب محمود مولوی سے اس ضمن میں بات کی تو اُن کا کہنا تھا کہ ’میرے لیے سیٹ چھوڑنا آسان نہیں تھا۔ یہ مشکل فیصلہ تھا جو فوج کی محبت میں کیا۔ میں پہلا شخص تھا جس نے پارٹی کو چھوڑا، اب یہ قافلہ بن چکا ہے۔‘
اپنے سمیت دیگر رہنماؤں کے پارٹی چھوڑنے کی وجہ بتاتے ہوئے اُن کا کہنا تھا پارٹی میں فوج کی مخالفت کی وجہ سے لوگ راہیں جُدا کر رہے ہیں اور اس کی ’کوئی دوسری وجہ نہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’جب ہم فوج پر تنقید کریں گے اور اُن پر حملے کریں گے تو یہ اخلاقی طور پر کمزور ہو جائے گی۔ مجھ سے یہ برداشت نہیں ہوا، شاید دوسرے لوگوں سے بھی یہ برداشت نہیں ہو رہا۔‘
عمران خان اور تحریک انصاف نے ساتھیوں کے جانے پر کیا تاثر دیا؟
17 مئی کو عامر کیانی سمیت رُکن سندھ اسمبلی سنجےگنگوانی اور کریم گبول کی جانب سے پارٹی سے راہیں جدا کرنے کا اعلان ہوا۔ بعد ازاں اگلے روز پی ٹی آئی کے سابق وفاقی وزیر ملک امین اسلم نے بھی پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا۔
اُسی روز تحریک انصاف کے ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات ڈاکٹر امجد نے بھی پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا جبکہ دوسری طرف ملتان، خانیوال، لیہ، ڈیرہ غازی خان اور مظفر گڑھ سے صوبائی و قومی اسمبلی کے نو سابق ارکان نے ملتان میں پریس کانفرنس کے دوران پارٹی سے الگ ہونے کا اعلان کیا۔
کراچی سے تحریکِ انصاف کے ممبر صوبائی اسمبلی عمران شاہ اور فیصل آباد سے فیض اللہ کموکا نے بھی جماعت کے ساتھ مزید چلنے سے انکار کیا۔
یہ سلسلہ تب سے تھم نہ سکا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر پی ٹی آئی کو دھچکہ پہنچ رہا ہے۔ خیبرپختونخوا سے ہشام انعام اللہ اور اجمل وزیر نے بھی پارٹی سے راہیں جدا کرنا کا اعلان کیا مگر شروع میں عمران خان اور پارٹی کی جانب سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ پارٹی چھوڑ کر جانے والوں میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جن کو مختلف اوقات میں ٹکٹ نہیں دیا گیا تھا، یا وہ معمولی عہدیدار ہیں۔
عمران خان کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ پارٹی چھوڑ کر جانے والوں پر دباؤ ہے اور ’مجھے دباؤ کے تحت پارٹی چھوڑنے والوں سے ہمدردی ہے۔‘
کیا 2018 اور موجودہ حالات کا موازنہ جائز؟
مقامی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کو درپیش صورتحال کا موازنہ 2018 کے الیکشن سے قبل مسلم لیگ ن سے کیا جا رہا ہے۔ تو کیا 2018 کے عام انتخابات سے پہلے کی تاریخ دہرائی جا رہی ہے؟
تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا تھا ’اس وقت جو کچھ پی ٹی آئی کے ساتھ ہو رہا ہے، ایسا ہی کچھ 77 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کے ساتھ ہوا تھا۔ جہاں تک 2018 کی بات ہے، جو اس وقت پارٹی چھوڑ کر جا رہے ہیں، یہ سارے لوگ سیاست کرنے آئے ہیں۔‘
تاہم تجزیہ کار سلمان غنی کی رائے میں 2013 یا 2018 کے انتخابات سے قبل 9 مئی جیسا واقعہ نہیں ہوا تھا۔ 2018 میں مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے اس طرح کا ردِعمل نہیں دیا جو اس وقت عمران کی جانب سے براہ راست آرمی چیف پر تنقید کی صورت دیا جا رہا ہے۔
کالم نگار عامر ہاشم خاکوانی کا کہنا ہے کہ ’2018 میں جنوبی پنجاب کے کئی الیکٹ ایبلز نے ن لیگ چھوڑ کر آزاد الیکشن لڑنے کو ترجیح دی تاکہ بعد میں جس کا پلڑا بھاری ہو، وہاں چلے جائیں اور یہ سب بعد میں جہانگیر ترین (تحریک انصاف کے سابق سینیئر عہدیدار) کے جہاز کے ذریعے تحریک انصاف میں چلے گئے۔ اب کی بار تحریکِ انصاف نشانہ بنی۔‘
’یہاں سے لوگ جانا شروع ہوگئے ہیں تاہم ابھی ان میں سے کسی نے دوسری پارٹی کو جوائن کرنے کا اعلان نہیں کیا۔‘
موجودہ صورت ِحال اور 2018 کے عام انتخابات سے قبل حالات کے موازنہ کے حوالہ سے صحافی عامر ضیا کا کہنا تھا ’اس وقت ہماری اسٹیبلشمنٹ دُکھی ہے۔ اُس وقت اور آج کے حالات قطعی مختلف ہیں۔‘
کیا پی ٹی آئی میں بڑے پیمانے پر توڑ پھوڑ ہو سکتی ہے؟
پاکستان کے عام اتنخابات کی ایک تاریخ یہ بھی ہے کہ الیکشن سے قبل سیاسی وابستگیاں تبدیل کی جاتی ہیں۔ جو پارٹی اقتدار میں رہ چکی ہوتی ہے، وہاں سے اہم لوگ دوسری پارٹیوں کی طرف پرواز کر جاتے ہیں مگر اس وقت جو لوگ پی ٹی آئی کو چھوڑ رہے ہیں، اس کے پیچھے گہری تشویش اور فکر مندی موجود ہے۔
ہم نے پنجاب اور خیبر پختونخو کے چند اضلاع میں پی ٹی آئی کے مقامی رہنماؤں کی بابت یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ کس طرح کے دباؤ سے گزر رہے ہیں۔
بہاولنگر سے شوکت لالیکا پر مقدمہ کی اطلاعات ہیں اور فی الحال وہ روپوش ہیں۔ اٹک سے بعض پی ٹی آئی رہنما منظر نامے پر موجود نہیں۔ میانوالی میں پی ٹی آئی کے تمام صوبائی و قومی اسمبلی کے رہنما شہر میں موجود نہیں اور بظاہر چھپے ہوئے ہیں اور بعض پر مقدمات بھی درج ہیں۔ گجرات سے سابق ایم پی اے گرفتار بتائے گئے ہیں۔
خوشاب سے ایم این اے ملک احسان اللہ، سابق ایم این اے عمر اسلم اعوان اور ننکانہ سے میاں عاطف پر مقدمات درج ہیں جبکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے بعض اضلاع منظرنامے سے غائب ہیں۔
تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے مطابق ’پی ٹی آئی کی خمیر پرو آرمی تھی۔ اب اس کے خمیر میں دراڑ آچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ چھوڑ رہے ہیں۔ یہ براہ راست فوج کے ساتھ لڑائی ہے۔ اس لیے زیادہ خطرناک معاملہ ہے۔‘
سلمان غنی کا بھی یہی خیال ہے کہ ’دوسری سیاسی جماعتیں اور اُن کے لوگ اینٹی اسٹیبلشمنٹ تھے مگر اُن کی جانب سے فوجی تنصیبات پر حملہ نہیں کیا گیا۔ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار پر سوال اُٹھایا جاتا تھا مگر اس بار عسکری کردار پر وار کیا گیا جس کا نتیجہ بھی مختلف نکلے گا کیونکہ عمران خان موجودہ آرمی چیف پر براہِ راست تنقید کررہے ہیں حالانکہ وہ سیاسی شخصیت نہیں۔‘
کالم نگار عامر ہاشم خاکوانی کہتے ہیں کہ ’مجھے یوں لگ رہا ہے کہ تحریک انصاف کو 2002 کی ن لیگ بنانے کا منصوبہ کارفرما ہے۔ تب نواز شریف ملک سے باہر تھے اور مسلم لیگ ن اسٹیبلشمنٹ کے نشانے پر تھی۔‘
اس سلسلے میں تجزیہ کار عامر ضیا کا کہنا تھا ’پی ٹی آئی سے ایسی غلطیاں ہوئیں جس نے کھیل کا پانسہ پلٹ کر رکھ دیا۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے ساتھ بھی ماضی میں ایسا ہوا مگر اس وقت عمران خان کی عمر کا بھی مسئلہ ہے۔
’اگر یہ اس الیکشن سے غائب ہوتے ہیں تو پھر آگے حالات مزید خراب ہوجائیں گے۔ ہماری دیہی سیاست کا ساٹھ فیصد معاملہ الیکٹ ایبلز پر انحصار کی صورت ہے۔‘
تجزیہ کار شنیلہ عمار کے مطابق ’اس وقت تحریک انصاف کھڑی ہوتی نظر نہیں آ رہی، سوائے عمران خان کے۔ وہ خود بھی کئی یوٹرن لے چکے ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ ہمارے لوگ حملوں میں نہیں تھے، کبھی کہتے ہیں مجھے گرفتار کیا گیا تو پھر ردِ عمل آسکتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’فواد چودھری کی بیوی اور شیریں مزاری کی بیٹی کہہ چکی ہیں کہ عمران کو صرف اپنا خیال ہے۔ ریاست کے ردِ عمل کے لیے سیاسی بنیادوں کا مضبوط ہونا ضروری ہے (مگر) پی ٹی آئی کی سیاسی بنیادیں کمزور ہیں۔‘