جندو: ’کندھے پر اصل انسان کو اٹھایا، اپینڈکس آپریشن کے فوراً بعد ریت پر بھاگی‘، حمائمہ ملک
پاکستانی اداکارہ حمائمہ ملک ایک انتہائی جاندار پراجیکٹ ’جندو‘ کے ساتھ 12 سال بعد ٹی وی سکرین پر واپس نظر آ رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ کہانی اُن کی اپنی زندگی سے بہت ملتی جلتی ہے۔
گرین انٹرٹینمنٹ کا ڈرامہ سیریل ’جندو‘ ایک ایسی دلیر عورت کی کہانی ہے جو پاکستان کے صحرائی علاقے میں قبائلی ظلم و ستم اور ناانصافی کے خلاف بغاوت اور جدوجہد کرتی ہے۔
ڈرامہ نگار قربان علی راؤ کی اس کہانی کو ہدایت کار انجم شہزاد نے فلمایا ہے۔ راجستھان کی زبان رنگھری میں پیش کیے جانے والے اس ڈرامے میں حمائمہ کے ساتھ نذر الحسن، سمعیہ ممتاز، گوہر رشید، سلیم معراج، ہاجرہ یامین اور نعیمہ بٹ نے کام کیا ہے۔
حمائمہ کو جندو کے کردار کے لیے ’آخری منٹ پر اپروچ کیا گیا‘
حمائمہ ملک پاکستان اور انڈیا کی فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے کے بعد ایک طویل عرصے تک سکرین سے غائب رہیں۔
پچھلے سال وہ ریکارڈ توڑ بزنس کرنے والی فلم ’دا لیجنڈ آف مولا جٹ‘ میں دارو کے روپ میں نظر آئیں اور اس سال وہ ٹی وی سکرین پر ’جندو‘ کا کردار نبھا رہی ہیں۔
بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے حمائمہ ملک نے بتایا کہ انھوں نے جندو کا کردار صرف اس لیے کیا کیونکہ اس پراجیکٹ کو انجم شہزاد ڈائریکٹ کر رہے تھے، گو انھیں اس کردار کے لیے آخری منٹ پر اپروچ کیا گیا تھا۔
وہ کھل کر بتاتی ہیں کہ ’مجھ سے پہلے یہ رول آمنہ شیخ کو آفر ہوا تھا لیکن وہ اپنی ذاتی وجوہات کی بنا پر یہ نہیں کرسکیں۔۔۔ (اس کردار میں) وہ بہت اچھی لگتیں لیکن نصیب کی بات ہوتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میں جندو کے لیے بہت اچھی چوائس تھی۔‘
اپنی زندگی کا حوالہ دیتے ہوئے حمائمہ نے کہا کہ شاید یہ کردار اُن سے بہتر ’کوئی نہ کر پاتا۔‘
’ایک بہن، ایک ماں، ایک بیوی، ایک خود مختار لڑکی، ایک خود دار عورت، ایک ہمت دلانے والی آواز، سب کے لیے اُٹھ کھڑی ہونے والی عورت، یہ بہت کم ہوتا ہے کہ ایسے رولز کو کوئی ایسا انسان نبھا سکے جس کی زندگی میں خود اس طرح کے چیلنجز نہ گزرے ہوں۔‘
’تین دن تک میں صرف ڈائننگ ٹیبل سینز کرتی رہی‘
ڈرامہ سیریل ’جندو‘ کی فلمنگ صحرا میں کی گئی ہے جبکہ اس میں اداکار رانگھری زبان میں بات کرتے ہیں۔ ڈرامے کی ابتدائی چند اقساط میں بعض شائقین کو زبان سمجھنے میں مشکل پیش آئی لیکن ان کی آسانی کے لیے سکرین پہ اردو میں ڈائیلاگ چلائے جانے لگے۔
حمائمہ بتاتی ہیں کہ ’لیجنڈ آف مولا جٹ‘ کی طرح جندو کے وقت بھی کافی لوگوں نے اُن سے کہا کہ ’یہ جو الگ زبانوں میں چیزیں ہوتی ہیں، وہ لوگوں کو سمجھ نہیں آتیں۔ کون دیکھنا چاہتا ہے ایک ریگستان میں بنی ہوئی سٹوری۔‘
لیکن ان کے بقول ان کی محنت رنگ لائی۔ انھوں نے بتایا کہ جندو کی شوٹ کے دوران اُنھیں ایک اور ڈرامہ آفر ہوا تھا جس کی تین دن شوٹ کے بعد انھوں نے اُس پراجیکٹ کو کرنے سے معذرت کر لی تھی۔
’تین دن تک میں صرف ڈائننگ ٹیبل سینز کرتی رہی۔ ایک ہی جگہ کیمرا تھا اور میں ہر روز الگ الگ ڈائیلاگز بولتی تھی۔ چیزیں وہی تھیں، وہی ساس بہو والی۔‘
انھوں نے بتایا کہ آغاز میں وہ رانگھری زبان سیکھنے اور ’جندو‘ کی شوٹ کے لیے بہت پُرجوش تھیں لیکن ریگستان میں مسلسل رہنے کی وجہ سے دس دن بعد وہ سارا جوش ختم ہوگیا۔ سردیوں میں شروع ہونے والا شوٹ گرمیوں میں ختم ہوا۔ اس دوران اُن کے والد کو فالج کا اٹیک ہوا اور اُنھیں دو روز بعد اطلاع ملی۔
’پھر حال ہی میں ترکی میں میرا اپینڈکس کا آپریشن ہوا تھا اور وہاں سے واپس آتے ہی میں نے یہ شوٹ کرنا شروع کردیا تھا۔ تو میری پٹی بندھی ہوتی تھی اور میں ریت میں بھاگ رہی ہوتی تھی۔‘
’جن کو کندھے پر اٹھایا وہ ایک اصل انسان تھا‘
ڈرامہ سیریل ’جندو‘ کا ایک انتہائی جذباتی سین جندو کا اپنے شوہر بخشو کی پیڑ سے لٹکتی لاش کو اپنے کندھے پر لاد کر گھر لانے کا تھا۔ اسی کے بارے میں بات کرتے ہوئے حمائمہ نے خود جذباتی ہوگئیں اور کہنے لگیں کہ مجھے معلوم ہے کہ یہ سین میں نے ہی کیا ہے لیکن جب میں نے سکرین پہ دیکھا تو بہت روئی۔
’جس شوہر سے اُس کو کبھی بھی ویسی اُنسیت نہیں رہی ہوتی ہے، لیکن وہ ہمیشہ امید ضرور رکھتی ہے، اور جب اُس کا شوہر اُس سے وعدہ کرتا ہے کہ ایک دن آئے گا جب تم میرے اوپر فخر کروں گی۔ اور وہ دن آنے سے پہلے ہی جس طرح سے اُس کو لٹکایا جاتا ہے وہ سب کچھ میرے لیے دیکھنا بہت تکلیف دہ تھا۔‘
میں نے جاننا چاہا کہ آیا بخشو کی جگہ انھوں نے کندھے پر کیا چیز لادی تھی؟ تو زور سے ہنستے ہوئے بولیں ’وہ بخشو ہی تھا۔‘
پھر بتانے لگیں کہ ’یقیناً وہ بخشو خود نہیں تھے کیونکہ اُن کا قد مجھ سے بہت لمبا ہے۔ جن کو میں نے اٹھایا تھا وہ ایک اصل انسان تھا۔ اور نہ بھولیں کہ میرے (آپریشن کی وجہ سے) پیٹ پہ چھ ٹانکے لگے ہوئے تھے۔‘
حمائمہ کے بقول ’دا لیجنڈ آف مولا جٹ‘ کے دوران ملنے والی تربیت کی وجہ سے ’جندو‘ میں انھوں نے اپنے سارے سٹنٹ خود کیے تھے اور ان کے سین باڈی ڈبل کے بغیر شوٹ ہوئے۔
’میں نے اپنی ساری لڑائی خود کی ہے، کیونکہ تلوار بازی اور گھڑ سواری یہ سب میں مولا جٹ کے دوران سیکھ چکی تھی۔ مجھے میرے سٹنٹس خود سے کرنا اچھا لگتا ہے۔‘
جندو کا ایک اور منظر بھاگ جانے والی اونٹنی کو قابو میں کرنے کا تھا جس کو پکڑنے کے لیے حمائمہ سمیت کافی اداکار صحرا میں بھاگتے دوڑتے نظر آئِے۔
حمائمہ بتاتی ہیں کہ ’بہت بھاگے ہیں اور اونٹنی نے ہمیں بہت تنگ کیا تھا۔ سب کچھ اصل تھا۔ انجم شہزاد کے ساتھ آپ کام کریں تو آپ کچھ چیٹ نہیں کرسکتے ہیں!‘
’فیمنسٹ کا مطلب یہ بالکل نہیں کہ میں روٹی نہیں بناؤں گی‘
’جندو‘ کی کہانی میں سکرین پر آنے والی تمام عورتیں کہیں نہ کہیں اپنے حق کے لیے لڑتی نظر آتی ہیں اور تمام عورتوں میں ایک دوسرے کے لیے ہمدردی اور دوستی ہے۔
میں نے حمائمہ سے پوچھا کہ کیا آپ اسے ایک فیمنسٹ ڈرامہ کہیں گی؟ تو وہ بولیں کہ ’اگر آپ ایسا کہتی ہیں توغلط نہ ہوگا۔ لیکن یہ جرات کی کہانی ہے۔ یہ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جس کے جیسی آواز ہر گھر میں عورت کے اندر ہونی چاہیے اور مجھے تو یہ میری کہانی لگتی ہے۔‘
ساتھ ساتھ انھوں نے کہا کہ ’پاکستان میں فیمنسٹ ہونے کا مطلب جو بنا دیا گیا ہے وہ نہیں ہے۔‘
فیمنزم کے بارے میں اپنی تشریح دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’فیمنسٹ کا مطلب یہ بالکل نہیں ہے کہ میں روٹی نہیں بناؤں گی، میں کھانا نہیں بناؤں گی، میں یہ کر دوں گی، میں وہ کر دوں گی، نہیں۔ یہ سب تو ایک عورت کی خوبصورتی ہے۔ یہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی آپ بہت کچھ اور بھی کرسکتے ہیں۔‘
اپنے ساتھی اداکاروں کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’سمعیہ ممتاز ہم سب کو یوگا کراتی تھیں صبح صبح۔ شام کو واک پہ لے جاتی تھیں۔ میں سمعیہ آپی کو کہتی تھی کہ اتنا تو میں نے چل لیا ہے اور نہیں چلنا تو وہ کہتی تھیں کہ چلو۔‘
داد سائیں کا کردار کرنے والے اداکار نذر الحسن کے بارے میں حمائمہ نے کہا کہ ’میں اُن کے بارے میں کیا کہوں وہ تو ایک سکول ہیں پورا۔ وہ بہت ہی شاندار ہیں اور مجھے اُن سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ وہ سرپرائزز سے بھر پور ہیں۔‘
گوہر رشید کے ساتھ وہ اپنی حالیہ فلم ’دا لیجنڈ آف مولا جٹ‘ میں بھی کام کرچکی ہیں اسی لیے اُنھیں دیکھ کر وہ بار بار جندو کو بھول جاتی تھیں۔ ’جب بھی میں اُسے دیکھتی تھی مجھے دارو یاد آجاتی تھی نجانے کیوں۔‘
انھوں نے کہا کہ ہاجرہ یامین ان کی پسندیدہ اداکارہ ہیں جو وقت کی بے حد پابند بھی ہیں۔ انھوں نے نعیمہ بٹ اور فقیرے کا کردار کرنے والے اداکار فراز اور ماریہ کے کام کی تعریف کرتے ہوئے بتایا کہ اُن کے علاوہ سب تھیٹر کے آرٹسٹ تھے۔
’یہ سب لوگ تھیٹر کے ہیں اور تھیٹر کے لوگ تو کمال ہوتے ہیں۔ اور میں صرف ایک واحد فلم کی تھی، میں نے کبھی تھیٹر نہیں کیا۔ تو میرا انداز الگ ہے اور اُن کا انداز بالکل ہی مختلف تھا۔ یہ مجھے پڑھ پڑھ کے سین سناتے رہتے تھے ہر وقت اور مجھے لہجے کا بتاتے رہتے تھے کہ ایسے بولیں۔ جب اداکاروں کا پورا ایک گروپ ایسا ہوتا ہے تو بہت مزہ آتا ہے۔‘
’جندو کی زبان انڈینز کو بہت زیادہ سمجھ آ رہی ہے‘
حمائمہ نے بتایا کہ انھیں انڈیا اور پاکستان دونوں اطراف سے مداح ’اچھا فیڈ بیک‘ دے رہے ہیں جس پر وہ بے حد خوش ہیں۔
’ہمارے سیٹس، ملبوسات، جیولری اور زبان پہ بہت زیادہ کام ہوا ہے، تو کیسے لوگوں کو اچھا نہیں لگتا۔ یہ ایک فلمی سی چیز ہے۔ مجھے اتنی امید نہیں تھی جتنا لوگوں کو پسند آ رہا ہے۔‘
حمائمہ نے اپنے انڈین فینز سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب ہمسایہ ملک سے اتنا پیار ملتا ہے تو آپ کو اور زیادہ فخر محسوس ہوتا ہے۔
’اگر ایک کمنٹ کسی نے غلط کر دیا ہے تو وہ میرے لیے آکے لڑائیاں کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور جندو کی زبان انڈینز کو بہت زیادہ سمجھ آرہی ہے۔ تو وہ اس کی بہت تعریف کر رہے ہیں۔‘
حمائمہ کہتی ہیں کہ ’مجھے اپنے تمام انڈین فینز سے پیار ہے۔ ‘