پاکستان

فوجی عدالتوں میں سویلنز کے ٹرائل کالعدم: سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد عام شہریوں پر فوجی عدالتوں کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہو گئے؟

Share

پاکستان کی سپریم کورٹ نے عام شہریوں کے ٹرائلز سے متعلق آرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے نو اور دس مئی کے واقعات میں گرفتار تمام ملزمان کے مقدمات فوجی عدالتوں سے فوجداری عدالتوں میں بھیجنے کا حکم دیا ہے۔

جسٹس اعجاز الااحسن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے چار ایک کی اکثریت سے سویلین کے خلاف ٹرائل فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف دائر درخواستوں پر یہ فیصلہ سنایا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل کی طرف سے نو اور دس مئی کے واقعات میں ملوث تمام 103 گرفتار افراد کی فہرست یا اس کے علاوہ بھی اگر کوئی عام شہری ان واقعات میں کسی بھی طرح ملوث ہیں تو ان کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا ہے۔

عدالت عظمیٰ کے اس حکم کے بعد جہاں اس فیصلے کے اثرات زیرِ بحث ہیں تو وہیں یہ سوال بھی پوچھا جا رہا ہے کہ آیا اس فیصلے کا اطلاق صرف موجودہ اور آئندہ مقدمات کی حد تک ہو گا یا اس کے دائرے میں ماضی کے مقدمات بھی آئیں گے؟

اس حوالے سے پہلے یہ جانب لیتے ہیں کہ کالعدم قرار دی جانے والی شق ٹو ون ڈی کیا ہے اور فوجی عدالتیں ہوتی کیا ہیں اور ان میں سویلین کے کیس کیسے چلائے جاتے ہیں؟

کالعدم قرار دی گئی شق ٹو ون ڈی کیا ہے؟

کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم پاکستان کی فوج کے 62 ویں لانگ کورس میں شریک تھے اور فوج کی شعبہ قانون یعنی جیگ برانچ سے تعلق رکھتے تھے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ عدالتی فیصلے سے ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ ’اب ملک میں کسی بھی عام شہری پر کتنے ہی سنگین الزامات کیوں نہ ہوں مگر اس کے خلاف مقدمہ فوجی عدالت میں نہیں جا سکتا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ آرمی ایکٹ میں ٹو ون ڈی کا قانون پہلے سابق فوجی آمر ایوب خان کے دور میں متعارف کروایا گیا تھا اور اسی کے تحت تحریک انصاف کے کارکنان کے فوجی ٹرائل شروع کیے گئے تھے۔

انھوں نے کہا کہ ’سنہ 1965 کی پاکستان اور انڈیا کی جنگ کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان جو مذاکرات ہوئے تھے اس کے خلاف پاکستان میں مظاہرے شروع ہو گئے تھے، جس کو مدنظر رکھتے ہوئے آرمی ایکٹ میں ٹو ون ڈی کا اضافہ کیا گیا تھا، جس کے تحت عام شہریوں کے مقدمات بھی فوجی عدالتوں میں چلائے جاسکتے تھے۔‘

کرنل انعام الرحیم کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے آرمی ایکٹ کے اس قانون میں صرف تین شقیں تھیں۔

انھوں نے کہا کہ ٹو ون اے فوج میں حاضر سروس افسران اور جوانوں سے متعلق ہے یعنی اگر کوئی حاضر سروس اہلکار کسی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کا ٹرائل اس قانون کے تحت کیا جائے گا۔

انھوں نے کہا کہ آرمی ایکٹ کے ٹو ون بی کے تحت ان سویلین کا ٹرائل کیا جاتا ہے جو وزارت دفاع میں اپنی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہوں اور ان کے خلاف کوئی شکایت ہو تو ان کے خلاف اس قانون کے تحت ٹرائل ہوں گے جبکہ سیکشن ٹو ون سی میڈیا کے ان افراد کے بارے میں ہے جنھیں آپریشنل کارروائیوں کے دوران لے کر جایا جائے اور وہ وہاں جا کر فوج کی موومنٹ کے بارے میں خفیہ راز فاش کر دیں۔

فوجی ججز

فوجی عدالتیں کیا ہیں؟

انڈیا اور پاکستان دونوں کے آرمی ایکٹ برٹش انڈین آرمی ایکٹ 1911 کے مطابق تشکیل دیے گئے لیکن انڈیا میں اس قانون کو سویلینز پر مقدمہ چلانے کے لیے استعمال نہیں کیا گیا جبکہ پاکستان میں حالات مختلف رہے۔

پاکستان میں فوجی عدالتیں پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت قائم کی جاتی ہیں اور فوج کے حاضر سروس افسران ہی ان عدالتوں میں بطور جج بیٹھتے ہیں۔

ملٹری کورٹ عموماً ایسی عدالت کو کہا جاتا جس میں ملٹری قوانین یا اصول و ضوابط کے تحت فوجیوں کی ملازمتوں کی سہولیات اور ذمہ داریوں کا تعین کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈسپلن کی خلاف ورزی یا بغاوت جیسے جرائم کے ارتکاب پر مقدمات چلائے جاتے ہیں۔

نام کچھ بھی دیا جائے، ملٹری کورٹس، کورٹ مارشل یا سپیشل ملٹری ٹرائبیونلز لیکن جب کسی مقدمے میں فوج کے افسران شامل ہوں تو اُسے عموماً ملٹری کورٹس ہی کہا جاتا ہے۔

پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت فوج سے تعلق رکھنے افراد جرم میں ملوث پائے جائیں تو انھیں آرمی ایکٹ کے تحت سزائی دی جاتی ہے۔ ابتدا میں یہ قانون صرف فوج سے تعلق رکھنے والے افراد پر لاگو ہوتا تھا لیکن بعدازاں اس میں کچھ دوسرے جرائم مثلاً فوجی تنصیبات پر حملہ، ملک کے خلاف بغاوت یا کسی فوجی رینک میں بغاوت کو بھی شامل کر دیا گیا۔

پاکستان کے آرمی ایکٹ 1952 میں انڈین ایکٹ 1950 کی طرح ’افسران، جونیئر کمیشنڈ افسران اور فوج کے وارنٹ افسران‘ اس قانون کے احاطے میں آتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ آزادی سے پہلے کے انڈین آرمی 1911 کے تحت فوج میں شامل افراد بھی اسی قانون کے دائرے میں آتے ہیں۔

دیگر تفصیلات کے علاوہ جو کہ انڈین ایکٹ سے ملتی جلتی ہیں، پاکستان کے آرمی ایکٹ 1952 کے سیکشن 2(d) میں ایسے افراد پر بھی اس قانون کے اطلاق کا ذکر ہے جو اس قانون کے احاطے میں نہیں آتے ہیں۔

پاکستان آرمی ایکٹ 1952 میں سیکشن 2(d) ترمیم کر کے سنہ 1967 میں شامل کیا گیا تھا اور یہی شق سویلین پر ملٹری کورٹس میں مقدمہ چلانے کے لیے استعمال کی گئی۔ دہشت گردی یا دہشت گردوں کو اس قانون کے دائرے میں لانے کی ترامیم بعد میں متعارف کرائی گئی تھیں۔

سیکشن 2 کی دیگر ذیلی شقوں میں دہشت گردی سے لے کر ائیر فورس اور نیوی کے ان افسران پر اس قانون کے اطلاق کا ذکر ہے جو آرمی میں عارضی طور پر منتقل ہو کر آتے ہیں۔

سویلین کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں کیسے بھیجا جاتا ہے؟

اگر کسی شخص پر الزام ہو کہ اس نے فوج کی کمان کے خلاف کوئی بیان جاری کیا یا تقریر کی یا فوج کے ماتحت افسران کو اپنی کمان کے خلاف بغاوت پر اکسایا، یا فوج سے متعلق حساس معلومات کسی غیر ملکی کو دیں اور یا پھر جمہوری حکومت کے خاتمے کے لیے فوج کو اقتدار سنبھالنے پر اکسایا تو اس شخص کے خلاف مقدمہ فوجی عدالت میں بھیجا جاتا ہے۔

پاکستان کے ملٹری ایکٹ میں بھی اس کا طریقہ کار موجود ہے۔

جبری طور پر گمشدہ افراد کے مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے اس بارے میں بتاتے ہیں کہ اصولی طور پر اگر کسی سویلین کے خلاف کوئی مقدمہ درج ہوتا ہے تو فوج کی جج ایڈووکیٹ جنرل یعنی جیگ برانچ کا نمائندہ متعقلہ سیشن جج کو ملزم کی حوالگی کے بارے میں درخواست دیتا ہے۔

اگر ملزم پارٹی کی طرف سے اس اقدام کوعدالت میں چیلنج کیا جائے تو پھر سیشن جج یہ معاملہ وفاقی حکومت کو بجھوا سکتا ہے اور وفاقی حکومت سے منظوری ملنے کے بعد متعقلہ سیشن جج ملزم کو فوج کے حوالے کرتا ہے۔

واضح رہے کہ نو مئی کے واقعات کے ذمہ داروں کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں چلانے سے متعلق پارلیمان نے قرار داد منظور کی تھی جس کے بعد وفاقی حکومت نے ان افراد کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں بھیجنے کی منظوری دی۔

اس لیے جن افراد کے مقدمات فوجی عدالتوں میں بجھوائے گئے تو متعقلہ سیشن جج نے ان کے مقدمات کے حوالے سے وفاقی حکومت سے رابطہ نہیں کیا۔

کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا تھا کہ ایک مرتبہ جب کسی سویلین کا معاملہ فوجی عدالت میں چلا جاتا ہے تو فوج کی پراسیکوشن برانچ کا ایک افسر ملزم کے خلاف تمام شواہد اکھٹے کرتا ہے اور تمام شواہد کا ریکارڈ ملزم کو فراہم کر دیا جاتا ہے۔

ملزم کو شواہد کا ریکارڈ فراہم کرنے کے 24 گھنٹوں کے بعد اسے اس مقدمے کی سماعت کے لیے قائم کی گئی خصوصی عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔

یہ خصوصی عدالت تین ارکان پر مشتمل ہوتی ہے اور اس تین رکنی ارکان کی سربراہی کرنے والے کو پریذیڈنٹ کہا جاتا ہے جو کہ لیفٹیننٹ کرنل رینک کا افسر ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر کوئی اہم مقدمہ ہو تو پھر جیگ برانچ کا نمائندہ بھی اس خصوصی عدالت میں شامل کر لیا جاتا ہے۔

ملزم پر فرد جرم عائد کیے جانے کے بعد اسے اپنے وفاع کے لیے وقت دیا جاتا ہے جو کہ زیادہ سے زیادہ سات روز کا ہوتا ہے۔

فرد جرم عائد کیے جانے کے بعد ملزم کو خود یا اپنے وکیل کے ذریعے پراسیکوشن کی طرف سے پیش کیے گئے شواہد یا گواہان پر جرح کرنے کا حق ہے۔ اس کے علاوہ ملزم کو اپنے دفاع میں کوئی گواہ یا دستاویزات بھی پیش کرنے کا حق ہوتا ہے۔

سات روز کے اندر دونوں اطراف سے کارروائی مکمل کرنے کے بعد یہ تین رکنی بینچ اپنی رائے مرتب کر کے کنوئنگ اتھارٹی کو بھیجے گا اور یہ اتھارٹی برگیڈئر یا میجر جنرل رینک کے افسر کی ہو گی۔

اس تین رکنی بینچ کی رائے پر مبنی جو بھی فیصلہ ہوگا وہ کھلی عدالت میں نہیں بتایا جائے گا بلکہ ملزم جس یونٹ کی تحویل میں ہوگا اس کو اس سزا کے بارے میں آگاہ کیا جائے گا۔

مجرم کو سزا سے متعلق آگاہ کیے جانے کے بعد اسے جیل بھیج دیا جاتا ہے اور مجرم کے پاس اس سزا کے خلاف 40 روز کے اندر اپیل دائر کرنے کا حق ہوتا ہے۔

اپیل دائر ہونے کی صورت میں مجرم کی اپیل سننے کے لیے ایک عدالت قائم کر دی جاتی ہے جسے کورٹ آف اپیل کہا جاتا ہے اور یہ عدالت بھی مجرم کی اپیل پر ایک ہفتے کے اندر فیصلہ سنا دیتی ہے۔

کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا تھا کہ اگر مجرم کی نظرثانی کی درخواست کورٹ آف اپیل سے مسترد ہو جاتی ہے تو پھر مجرم کے پاس فوجی عدالت کے اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا حق ہوتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ اگر ہائی کورٹ بھی فوجی عدالت کا فیصلہ برقرار رکھتی ہے تو پھر مجرم ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا حق رکھتا ہے۔

فوجی عدالتیں

کیا عام شہریوں پر فوجی عدالتوں کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہو گئے؟

فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے معاملے میں سپریم کورٹ میں درخواستگزار اور ماہرِ قانون کے مطابق اس فیصلے سے یہ مطلب اخذ نہیں کیا جا سکتا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اعتزاز احسن نے کہا کہ آئین میں مشروط ترمیم کر کے مخصوص حالات اور مقدمات کے لیے فوجی عدالتیں قائم کی جا سکتی ہیں۔ تاہم ان کے مطابق یہ ترامیم صرف کچھ عرصے کے لیے ہی کی جا سکتی ہیں۔

ان کے مطابق ’سنہ 2015 میں آرمی پبلک سکول کے شہید بچوں کے مجرمان کے مقدمات چلانے کے لیے آئین میں مشروط ترمیم کی گئی تھی اور پھر دو سال بعد یہ ترمیم ختم ہو گئی۔‘

انھوں نے کہا کہ اس وقت پارلیمنٹ کا فورم ہی دستیاب نہیں ہے لہٰذا یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ ابھی عام شہریوں کے خلاف مقدمات سننے کے لیے فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں نہیں لایا جا سکتا ہے۔

فوجی تنصیبات پر حملوں کے بعد فوجی عدالتوں میں مقدمات کے حوالے سے درخواست گزار اعتزار احسن نے کہا کہ عدالت میں اٹارنی جنرل نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ اگر ان عام شہریوں کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں شروع کیا گیا تو پہلے اس عدالت کو مطلع کیا جائے گا تاکہ اگرعدالت حکم امتناعی دینا چاہتی ہے تو پھر ہو ایسا کر سکے۔ ’مگر عدالت کو بتائے بغیرعام شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں شروع کر دیے گئے۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ’ملزمان کو نہ وکیل کرنے کی اجازت دی گئی اور نہ اس ٹرائل کو دیکھنے کے لیے کسی فیملی ممبر کو اجازت دی گئی۔۔۔ سب کچھ انتہائی رازداری میں ہو رہا تھا۔‘

ادریس خٹک

وکیل فیصل صدیقی کی بھی اس مقدمے میں پیش ہوئے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس فیصلے سے ’فوجی عدالتوں کے دروازے بند ہو گئے ہیں۔‘

ان کے مطابق اب یہ فیصلہ صرف نو سے 11 مئی تک کے ملزمان کی حد تک نہیں رہ گیا بلکہ یہ ’ایک ڈکلیریشن ہے اور اس سے ہر کوئی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔‘

ماہرِ قانون فیصل صدیقی نے کہا ہے کہ ابھی عدالت کا تفصیلی فیصلہ آنا ہے جس سے یہ پتا چل سکے گا کہ اس کا اطلاق ماضی کے مقدمات پر ہو سکے گا یا نہیں۔

ان کے مطابق اگر عدالت اس فیصلے تک پہنچی ہے کہ عام شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں کے سامنے نہیں چلائے جا سکتے تو پھر جن کا ٹرائل ہو چکا ہے اور حتمی فیصلہ نہیں ہوا تو وہ مقدمات بھی اس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ اس وقت ایک سماجی رہنما ادریس خٹک کی مثال سامنے ہے جن کا ٹرائل کالعدم قرار دی جانے والی شق کے تحت ہوا تھا اور اب ان کی اپیل آرمی چیف کے سامنے زیر التوا ہے۔

دوسری طرف اعتزاز احسن کے مطابق عدالت نے اپنے فیصلے میں ’یہ نہیں لکھا کہ اس کا اطلاق ماضی سے ہو گا۔‘ ان کے خیال میں عدالت ’اگر ایسا لکھتی ہے تو پھر سینکڑوں اور ہزاروں مقدمات کی نوعیت مختلف ہے اور اس سے بڑا قانونی چیلنج پیدا ہو سکتا ہے۔‘

ان کی رائے میں عام شہریوں کے مقدمات اب آئندہ سے فوجی عدالتوں میں دائر نہیں کیے جا سکیں گے۔

’اس فیصلے کے دور رس نتائج ہوں گے‘

پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین عابد ساقی کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں میں سویلین کے مقدمات چلانے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے ’دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔‘

انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ کی طرف سے جو مختصر فیصلہ آیا ہے اس سے نہ صرف نو اور دس مئی کے واقعات میں گرفتار افراد کو ریلیف ملے گا بلکہ اس سے قبل جو افراد فوجی عدالتوں سے مجرم قرار دیے جانے کے بعد سزائیں کاٹ رہے ہیں وہ بھی اس عدالتی فیصلے سے مستفید ہو سکیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ان درخواستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں یہ بات سامنے آئے گی کہ کیا اس فیصلے کا اطلاق ان افراد پر بھی ہوگا جو شدت پسندی اور فوجی افسران کو نشانہ بنانے کے واقعات میں ملوث ہیں، جن کا مختلف فوجی عدالتوں میں ٹرائل چل رہا ہے۔