غزل
اپنی صورت کا بھولا پن لوگوں سے منواتے ہو
نا واقف ہو زباں سے پھر غزلیں کس سے لکھواتے ہو
بحر و زمیں کی بات پہ تم استاد صفت بن جاتے ہو
جِن کا ہو فقدان وہی الفاظ اٹھا کر لاتے ہو
بزم گویّے کی ہے یہ جب تم کو بھی اندازہ ہے
یار ترنّم میں گا کر کیوں اپنا شعر سناتے ہو
طنز، سیاست، بد کلمات کو سننے کے سب عادی ہیں
میر و غالب داغ کی طرز پہ کیوں اشعار سناتے ہو
تم جیسوں کا ظلم سہے گی کب تک بے چاری اردو
سستی شہرت کی خاطر کیوں اس کو ناچ نچاتے ہو
خونِ جگر سے شعر رقم کرنا آسان نہیں ہے فہیم
داد ملے ہر شعر پہ ممکن ہے ،پھر کیوں گھبراتے ہو