سیکس ایجوکیشن گُرو سے لڑکیوں کے بوائے فرینڈز ناراض
چاہے وہ کسی کلب میں ہوں یا ٹیمپون خرید رہی ہوں، 29 سالہ ڈیمی اولونیسکن کبھی بھی ان لوگوں سے دور نہیں ہوتیں جو اپنی رومانوی زندگی بدلنے کے لیے ان کے مشورے کے طلبگار ہوتے ہیں۔
اپنے مداحوں میں اولونی کے نام سے مشہور بلاگر کہتی ہیں کہ ’میں انھیں کہتی ہوں، سنیں، میں ابھی چھٹی پر ہوں۔ کل میں فارمیسی گئی تھی اور ٹوائلٹ کی اشیا خرید رہی تھی کہ ایک لڑکی نے مجھے پہچان لیا، ارے آپ اولونی ہیں نا۔‘
اولونی کے انسٹاگرام اور ٹوئٹر پر دو لاکھ سے زیادہ فالوورز ہیں ( @Oloni)، اس کے علاوہ ان کی ایک پوڈکاسٹ بھی ہے اور ایک ٹی وی سیریز بھی۔
سیکس اور تعلقات کے متعلق مداحوں کے سوالات پر ان کے انتہائی کھلے ڈلے جوابات اور ان کی بدنام ٹوئٹر تھریڈز نے جس میں وہ اپنے فالوورز سے اپنی سیکس سے متعلق سب سے لذت آمیز کہانیاں سنانے کو کہتی ہیں (آپ نے آخری مرتبہ اپنے فالوورز میں سے کسی کے ساتھ سیکس کب کی تھی؟) اولونی کو نوجوان خواتین کے لیے ایک آواز اور ایک اہم وسیلہ بنا دیا ہے۔
مگر ہر کوئی ان سے خوش نہیں ہے۔
بوائے فرینڈز کے لیے بُرا خواب
انھوں نے بتایا کہ ’بہت سارے لڑکوں کو اس حقیقت سے خوف آتا ہے کہ مجھے لڑکیوں تک رسائی حاصل ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ انھیں یہ بات پسند نہیں کہ میں خواتین کو زیادہ دانا بننے اور جنسی اور رومانوی طور پر بہتر فیصلے لینے میں مدد دے رہی ہوں۔‘
اولونیسکن نے 2008 میں اپنے لڑکپن میں سیکس اور تعلقات کے متعلق اپنا بلاگ سمپلی اولونی شروع کیا تھا۔
وہ بتاتی ہیں کہ اس وقت وہ اپنی اور اپنے دوستوں کی رومانوی زندگیوں کے بارے میں لکھا کرتیں اور ان موضوعات پر بات کیا کرتیں جن کے بارے میں بات کرنا آسان نہیں ہوتا خاص طور پر جب آپ نائیجیریائی یا مسیحی پس منظر رکھتے ہوں۔
وہ بتاتی ہیں کہ: ’مجھے ہمیشہ جنسیت پر بات کرنا پسند تھا اور میں خواتین میں آگاہی پھیلانا چاہتی تھی کیونکہ مجھے لگتا تھا کہ یہ ایسا موضوع ہے جس پر بات نہیں کی جاتی، خاص طور پر میری برادری میں۔‘
’لوگوں کو لگتا ہے کہ اگر آپ جنسی طور آزاد ہیں تو آپ پورن سٹار ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ بہتر آگاہی رکھتے ہیں، جنسیت کو مثبت انداز میں دیکھتے ہیں اور اپنے آس پاس موجود خواتین کو آگاہی دینا چاہتے ہیں۔‘
ایک دہائی ہوچکی ہے اور اب ان سوشل میڈیا انفلوئنسر کو روزانہ مشورے کی تقریباً سو درخواستیں موصول ہوتی ہیں جن کے عمومی موضوعات آرگیزم یعنی شہوت کے ہیجان، کسی دوسرے کلچر سے تعلق رکھنے والے شخص کے ساتھ تعلقات پر سوالات ہوتے ہیں۔
وہ اپنے انسٹاگرام اور اپنے بلاگ کے ذریعے جواب دیتی ہیں اور جو لوگ اپنے مسائل پر زیادہ تفصیلی مشورہ چاہتے ہوں، ان کی وہ فیس کے عوض فون پر بھی رہنمائی کرتی ہیں۔
بلاگ، انسٹاگرام اور ٹوئٹر کے بعد اپنا ٹی وی شو
بی بی سی تھری پر اپنی نئی ٹی وی سیریز کے لیے وہ ناتجربہ غیرشادی شدہ لوگوں کی تربیت کرتی ہیں جنھیں ان کے دوستوں نے نامزد کیا ہوتا ہے۔ وہ انھیں ڈیٹ کے دوران فون پر مشورے دیتی ہیں۔
جب اولونی خود سے پوچھے گئے چند سوالات کا ذکر مجھ سے کرتی ہیں تو مجھے حیرانی نہیں ہوتی کہ انھیں فالو کرنے والی لڑکیوں کے بوائے فرینڈز اولونی کو کیوں ہمیشہ پسند نہیں کرتے۔
جس ایک کہانی نے مجھے حیرت زدہ کر دیا، وہ تھی جب ایک لڑکی نے جنسی طور پر منتقل ہونے والے انفیکشن (ایس ٹی آئی) سے متاثر ہونے کے بعد کی تھی۔
اولونی کہتی ہیں، ’اُس لڑکی نے جب اپنے پارٹنر سے اس بارے میں بات کی تو اس نے جواب دیا کہ شاید یہ تمھیں کسی ٹوائلٹ سیٹ سے لگا ہوگا۔
’میں نے اس سے کہا کہ نہیں، یہ ٹوائلٹ سیٹ سے نہیں لگا۔ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔‘
اولونی اس کہانی کو اس بات کے ثبوت کے طور پر دیکھتی ہیں کہ ہم سیکس کے بارے میں اب بھی زیادہ بات نہیں کرتے۔
وہ کہتی ہیں کہ بلاگ شروع کرنے کا ایک مقصد جنسی طور پر منتقل ہونے والے انفیکشن اور نسوانی لذت کے بارے میں زیادہ گفتگو کرنا تھا۔
مجھے لگتا ہے کہ اس کی وجہ سے پہلے سے زیادہ خواتین خاص طور پر میری برادری کی خواتین اس بارے میں بات کرنے لگی ہیں اور جب وہ مجھے کبھی دیکھ لیں تو کہتی ہیں، اوہ خدایا، اگر تم نہ ہوتی تو میرے اندر اپنے بوائے فرینڈ کو یہ یا وہ بات بتانے کی ہمت کبھی نہ ہوتی۔ تو میں یہ دیکھ کر خوش ہوں کہ تبدیلی آ رہی ہے۔‘
نائیجیریا کی مسیحی لڑکی سیکس ایجوکیشن گُرو کیسے بنی؟
29 سالہ اولونی شاید اب ہزاروں لوگوں کے لیے سمجھدار بڑی بہن کی طرح ہوں، مگر وہ کہتی ہیں کہ ان کے مسیحی سکول میں سیکس ایجوکیشن نے انھیں بالکل بھی تیار نہیں کیا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں ہمیشہ اسے (امریکی فلم) میین گرلز کی مشہور لائن سے تشبیہ دیتی ہوں جس میں کوچ کہتا ہے کہ ’اگر آپ نے سیکس کی تو مر جائیں گی۔‘
مجھے یاد ہے کہ ہمیں وہاں بٹھایا گیا اور پھر ہمیں کنڈوم دے کر رخصت کر دیا گیا۔
سیکس ایجوکیشن کے اس طریقے کے اثرات سے باخبر اولونی سیکنڈری سکولوں میں کئی ورکشاپس کروا چکی ہیں جس میں ان کا سب سے زیادہ اصرار رضامندی یا کنسینٹ پر ہوتا ہے۔
اولونی کہتی ہیں کہ رضامندی کے سبق کو سیکس کے دائرے سے بڑھ کر ہونا چاہیے: ’مثلاً اگر آپ کلب میں کسی کے پاس سے گزریں اور کوئی شخص آپ کو کمر سے پکڑ لے یا وہ آپ کے ساتھ ڈانس کرنا چاہ رہا ہو، مگر وہ نہ سننے کے لیے تیار نہ ہو۔ اس طرح کی تمام باتیں رضامندی سے متعلق ہیں اور یہ باتیں ہم سکولوں میں نہیں کرتے۔‘
اولونی بتاتی ہیں کہ ایک مرتبہ انھوں نے ایک سیشن کیا جس میں انھوں نے طلبا کے سامنے کئی مختلف صورتحال رکھیں، پھر ان سے پوچھا کہ وہ بتائیں کہ رضامندی تھی یا نہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’لڑکیوں کے ایک گروہ نے کہا کہ ہاں، رضامندی تھی، اور دوسرے نے کہا کہ نہیں، رضامندی نہیں تھی کیونکہ لڑکوں نے ذہن تبدیل کروایا تھا۔‘
’چنانچہ یہ لڑکیاں جانتی تھیں کہ مجبور کرنا رضامندی نہیں ہوتی۔‘
وہ کہتی ہیں کہ انھیں ان لڑکیوں کی عمر میں اس بات کا احساس نہیں تھا۔ ’میں شاید کہتی کہ ہاں، کیونکہ اس نے ہاں کہا اس لیے رضامندی ہی تھی۔‘
زندگی کا ساتھ؟
وہ کیا چیز ہے جو اولونی کے نزدیک انھیں لڑکپن میں ہی پتہ ہونی چاہیے تھی؟
ان کے مطابق وہ یہ ہے کہ ’اگر آپ کسی سے سیکس کریں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ پریوں کی کہانی کی طرح زندگی بھر ہنسی خوشی ساتھ رہیں گے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے یاد ہے جب میں نے پہلی بار سیکس کی تھی تو میں نے کہا تھا، یہی میرا شوہر ہے۔‘
لیکن وہ کہتی ہیں کہ ’آپ کو سیکس اپنے لیے کرنی چاہیے، کسی اور کے لیے نہیں، اور نہ ہی اس لیے کہ کسی کو آپ کی زندگی تک ہمیشہ کے لیے رسائی حاصل ہوجائے۔‘