سائنس

ہر تیسرا امریکی نوجوان ٹک ٹاک سے نیوز معلومات حاصل کرنے لگا

Share

متعدد بار جزوی پابندیوں کا سامنا کرنے والی شاٹ ویڈیو شیئرنگ ایپلی کیشن امریکا میں تیزی سے مقبول ہونے لگی اور وہاں کا ہر تیسرا نوجوان پلیٹ فارم سے ہی حالات حاضرہ کی خبریں حاصل کرنے لگا۔

امریکی حکومت نے متعدد بار ٹک ٹاک کو اپنی قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا ہے اور اس پر متعدد بار جزوی پابندی بھی لگائی جا چکی ہے جب کہ وہاں پر سرکاری ڈیوائسز پر اس کے استعمال پر پابندی بھی ہے۔

تاہم پابندیوں کے باوجود حیران کن طور پر امریکا میں ٹک ٹاک کے استعمال اور اسے مختلف موضوعات کی معلومات حاصل کرنے کے اہم ذریعے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

امریکا کے پیو ریسرچ کی تازہ تحقیق کے مطابق 2020 کے بعد حیران کن طور پر امریکا میں ٹک ٹاک کی مقبولیت میں اضافہ ہوا، ایپلی کیشن کی مقبولیت 3 فیصد سے بڑھ کر 14 فیصد تک جا پہنچی۔

ویب سائٹ ’فاسٹ کمپنی‘ کے مطابق امریکا میں ٹک ٹاک صارفین کی تعداد 15 کروڑ سے زائد ہے، جن میں سے زیادہ تر نوجوان ہیں۔

پیو ریسرچ کے مطابق 18 سے 29 سال کی عمر کا ہر تیسرا امریکا نوجوان خبروں اور معلومات کے لیے ٹک ٹاک کا استعمال کرتا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ امریکی افراد اور خصوصی طور پر نوجوانوں میں خبریں اور معلومات حاصل کرنے کے رجحانات تبدیل ہو رہے ہیں اور اب وہ روایتی میڈیا کے بجائے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے معلومات حاصل کر رہے ہیں۔

ریسرچ کے مطابق باقی تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے خبریں اور معلومات حاصل کرنے کے رجحانات میں کوئی اضافہ نہیں دیکھا گیا، تاہم محض تین سال کے وقفے کے بعد ٹک ٹاک سے خبریں حاصل کرنے کا رجحان 14 فیصد تک بڑھ گیا۔ اب ماہرین ٹک ٹاک کو امریکا میں خبریں حاصل کرنے کے اگلے پلیٹ فارم کے طور پر دیکھ رہے ہیں اور خیال کیا جا رہا ہے کہ مذکورہ پلیٹ فارم روایتی میڈیا کو بھی پیچھے چھوڑ دے گا۔

ٹک ٹاک کو دنیا بھر میں مختصر ویڈیوز کی وجہ سے شہرت حاصل ہے جب کہ اس کا آسان استعمال بھی اسے باقی تمام ایپلی کیشنز سے منفرد بناتا ہے، تاہم دنیا بھر میں اسے جزوی پابندیوں کا سامنا بھی رہتا ہے۔

امریکا کے علاوہ پاکستان میں بھی متعدد بار ٹک ٹاک پر جزوی پابندی لگائی جا چکی ہے اور اس پر فحاشی پھیلانے کے الزامات بھی لگائے جاتے رہے ہیں۔

پاکستان کے علاوہ بھارت، ایران، نیپال اور برطانیہ سمیت کئی ممالک میں بھی ٹک ٹاک کو متعدد بار جزوی پابندیوں کا سامنا رہا ہے۔