’کرشماتی دوا‘ کے طور پر تشہیر کی جانے والی مشرومز کیا واقعی اتنی مفید ہیں؟
ان کے عجیب و غریب نام ہیں جیسے ’لائنز مین‘ یعنی شیر کے گردن کے بال، ’ٹرکی ٹیل‘ یعنی پرندے ٹرکی کی دُم، چھاگا، رےایشی اور اوئسٹر مشروم، اور یہ سپلیمنٹس اور پاؤڈر کے طور پر تیزی سے مقبول ہو گئے ہیں اور دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ ہر قسم کی بیماری کا علاج کر سکتے ہیں۔
انھیں میڈیسینل (طبی) یا فنکشنل مشروم بھی کہا جاتا ہے۔ مشرومز سے نچوڑ کر یہ پاؤڈر حاصل کیا جاتا ہے اور یہ کئی ہزار سالوں سے چینی روایتی ادویات میں استعمال ہو رہی ہیں اور اب یہ مغرب میں بطور فیشن ٹرینڈ یا بہتر صحت کے لیے نظر آتی ہیں۔
ان کی تشہیر کرتے وقت یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ کئی بیماریوں کا ممکنہ علاج ہیں۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ ڈپریشن اور اینگزائٹی یعنی ذہنی دباؤ اور اضطراب کے علاج میں فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں اور قوت مدافعت اور دماغ کو بہتر بناتے ہیں، اس کے علاوہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان سے کولیسٹرول اور ہائپرٹینشن یا بلند فشارِ خون پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے اور یہی نہیں بلکہ یہ کینسر کے علاج میں بھی فائدہ نمد ثابت ہوتی ہیں۔
ان مشرومز یا کھمبیوں کی کئی بلین ڈالر کی مالیت کی صنعت ہے۔ ایک مارکٹ ریسرچ کمپنی ایلائڈ کے مطابق 2020 میں عالمی مارکیٹ میں ان مصنوعات کی مالیت تقریباً آٹھ بلین ڈالر تھی جب کہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ 2030 تک اس کی قیمت 19.3 ارب ڈالر ہو گی۔
کئی مغربی ممالک میں 17 مختلف قسم کے طبی مشروم کے سپلیمنٹ اور پاؤڈرز ہیلتھ فوڈ کی دکانوں میں ملتے ہیں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اس با کوئی امکان نہیں ہے کہ مستقبل میں اس رجحان میں کسی بھی قسم کی کوئی تبدیلی آنے والی ہے۔
لیکن کیا طبی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی یا میڈیسینل مشروم کے طبی فوائد کے دعوے درست ہیں اور کیا ان دعوؤں کی بنیاد سائنس پر مبنی ہے؟
لندن کے کنگز کالج میں غذائی محقق اور ریجسٹرڈ غذائی ماہر ڈاکٹر ایملی لیمنگ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ مشروم اس وقت بہت مقبول ہیں۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’ان کو دماغ کے لیے ایک بہترین یا سوپر دوائی کہہ کر مشہور کیا جاتا ہے، کہا جاتا ہے کہ یہ آپ کی اینگزائٹی (اضطراب) کو ختم کر سکتی ہیں آپ کے ڈپریشن (ذہنی تناؤ) کو بہتر بنا سکتی ہیں اور اس کے لیبل پر دماغ کے لیے دیگر فوائد کا دعویٰ بھی کُھلے عام کیا جاتا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا ’میرے خیال میں اس وقت ان فوائد کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے جبکہ ہمارے پاس انسانوں کے لیے ان فوائد کے شواہد بہت کم ہیں یا ہیں ہی نہیں۔‘
کئی سالوں سے پھپھوندی یا فنگس اور ان کے اثرات پر تحقیق ہو رہی ہے لیکن زیادہ تر تحقیق سیل کلچر میں اور چوہوں پر ہوئی ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ ضروری نہیں کہ ان کے نتائج انسانوں میں بھی ویسے ہی ہوں۔
امریکی ریاست اوہایو کی میامی یونیورسٹی میں مائکولوجیکل حیاتیات میں ماہر پروفیسر نیکولس منی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’چین میں ان مشرومز کے اثرات کی حمایت میں بہت سی تحقیق ہوئی ہیں لیکن ان کے اثرات زیادہ تر مطالعہ خلیوں یا چوہوں کے تجربات میں کیا گیا۔‘
وہ کہتے ہیں ’لیکن یہ دیکھنے کے لیے کہ کیا یہ واقعی کام کرتی ہیں ان تجربات اور ان کو مغربی ادویات کے درجے تک لے کر جانے میں بڑا فلسفیانہ اور سائنسی خلیج ہے۔‘
پروفیسر نیکولس کہتے ہیں کہ کوئی ایسے موجودہ شواہد نہیں ہیں جن کی بنیاد پر کہا جا سکے کہ ان مشرومز کے عرق کے انسانی صحت پر کوئی اثرات ہیں۔
پروفیسر نیکولس نے 2016 میں طبی مشرومز کے اثرات پر ہونے والی تحقیقات پر اپنا جائزہ شائع کیا۔ اس جائزہ کا مقصد اس سوال کا جواب تلاش کرنا تھا کہ کیا ان میڈیسینل مشرومز کے طبی فوائد ہیں؟
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم عام طور پر تجویز کردہ ادویات کا مطالعہ کرتے ہوئے جن شواہد کو ہم دیکھتے ہیں ان کی بنیاد پر میرا نتیجہ تھا ’نہیں‘ یعنی ان کے طبی فوائد نہیں ہیں۔‘
پروفیسر نیکولس نے مزید کہا ’ادویات کے بارے میں ہماری توقع ہوتی ہے کہ وہ کام کرتی ہیں لیکن میڈیسنل مشروم ایسا نہیں کرتیں۔‘
پروفیسر نیکولس کہتے ہیں کہ ’مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے ممالک میں طبی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی مشروم یا کُھمبیاں بطور خوراک فروخت جاتی ہیں اور ان پر وہ ضوابط لاگو نہیں ہوتے جو تجویزکردہ ادویات پر ہوتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’لہذا اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم ان کو فروخت کی غرض سے بازاروں میں پیش کرنے کے لیے کپنیوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں کہ وہ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔‘
مشرومز کا فیشن
حالیہ اندازوں کے مطابق اس وقت دنیا میں کھائے جانے اور طبی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی مشرومز یا کھمبیوں کی 2300 اقسام موجود ہیں۔
پروفیسر نیکولس کا کہنا ہے ان میں سے ایک درجن سے بھی کم ایسی مشرومز ہیں جن کا فیشن بنا ہوا ہے انھیں ایک قسم کا طبی سیلیبریٹی بنا دیا گیا ہے۔
ان میں درج زیل مشروم شامل ہیں۔
- ’رےایشی‘ ایک پولی پورس مشروم ہے جس کی سرخ پالش جیسی سطح ہوتی ہے۔
- ’شیٹاکے‘ ایک بھورے رنگ کی مشروم ہوتی ہے جس میں شدید خوشبو ہوتی ہے۔
- ’ٹرکی ٹیل‘ کی شکل کثیر رنگ کی پٹیوں کے پنکھے کی طرح ہوتی ہے۔
- ’کورڈائسپس‘ ایک مشہور پیراسیٹک پھپھوندی ہے جو مردہ کیڑوں میں داخل ہوتی ہے اور میزبان کی جگہ لے لیتے ہیں۔
- ’چھاگا‘ ایک اور پیراسیٹک پھپھوندی ہے جو مردہ برچ کے درختوں پر بے قاعدہ شکل میں ظاہر ہوتی ہے اور یہ دیکھنے میں جلے کوئلے کے شکل کی ہوتی ہیں۔
- ’لائنز مین‘ جو لمبے سفید جھالر والے گول گُچھوں کی ماند نظر آتی ہیں۔
خوبصورت جاندار
پروفیسر نیکولس منی کہتے ہیں کہ ’مشروم کو ہمیشہ ایسی مصنوعات کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے جن میں مافوق الفطرت طاقتیں ہیں اور یہ واقعی خوبصورت جاندار ہیں۔‘
اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’لیکن میں آج کے دور میں مشرومز کی مقبولیت سے کافی حیران ہوں۔‘
اس میں کوئی شک نہیں کے مشرومز کی ساری اقسام بہت دلکش ہیں۔ وہ قدرتی دنیا کے معمار ہیں اور اہم ماحولیاتی نظام کو برقرار رکھتے ہیں۔
اپنے زیر زمین نظام میں وہ اپنے اردگرد کے پودوں سے غذائی اجزاء کو جذب اور ری سائیکل کر سکتے ہیں۔ انھوں نے کئی ادویات بنانے میں مدد کی ہے جیسے کہ اینٹی بایوٹک پینسلن، سیفالوسپورنز اور کیلسٹرول کو کم کرنے والی لویسٹاٹن۔
خوراک کے طور پر مشروم یا کھمبیوں میں بہت زیادہ غذائی خصوصیات ہیں یہ پودوں میں موجود پروٹین، وٹامن ڈی اور بی کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ ان میں کئی ضروری امینو ایسڈز ہیں، اور مشرومز فائبر اور معدنیات سے بھرپور ہوتے ہیں۔
تو کیا ہمیں غذائی فوائد کی وجہ سے زیادہ مشرومز کھانے چاہیے؟
ڈاکٹر ایملی لیمنگ کہتی ہیں ’ مجھے معلوم ہے کہ ہر کسی کو مشرومز کھانا پسند نہیں لیکن ان میں غذائی خصوصیات ہیں، وہ فائبر کا بہترین ذریعہ ہیں اور ان میں بیٹا گلوکین کی بڑی مقدار موجود ہے جو کمپلکس کاربوہائڈریٹ کی ایک قسم ہے۔‘
جئی جیسے اناج میں پایا جانے والا بیٹا گلوکین خون میں خراب کولیسٹرول کی سطح کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ قوت مدافعت کے لیے بہت اچھا ہوتا ہے کیوں کے یہ آنتوں میں موجود مائکرو بایوم کے لیے مفید ہوتا ہے اور اس کا تعلق قوت مدافعت سے ہے۔
لیکن ابھی اس بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہے کہ مشرومز میں پائے گئے بیٹا گلوکین سے ہماری آنتوں کی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے۔
ڈاکٹر ایمی کہتی ہیں کہ ’ہمیں یہ معلوم ہے کہ ان مشرومز میں بیٹا گلوکین ہوتے ہیں جو آنتوں کے مائکرو بایوم کے لیے اچھے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ جاننے کے لیے کہ پھپھندی ہماری انتڑیوں میں موجود جراثیم پر کیسے اثر ڈالتا ہے ہمیں مزید تحقیق کرنی ہو گی۔‘
’ممکنہ طور پر ان کے فوائد ہوں گے۔ لیکن ایک مشروم جیسے مخصوص چیز کھانے کے بجائے مختلف قسم کے صحت بخش کھانے کھانے چاہییں۔‘
مشرومز کا مستقبل کیا ہے؟
مشرومز اب ایک بلین ڈالر مالیت کی صنعت بن چکی ہیں لیکن اس نے ادویات بنانے والی کمپنیوں کی توجہ ابھی تک حاصل نہیں کی۔
جینومکس اور حیاتیات سے جینیاتی معلومات نکالنے کی تکنیکوں میں ترقی ہوئی ہے اور اس سے یہ اُمید بڑھ رہی ہے کہ مشروم کے ذریعہ تیار کردہ مرکبات کی ایک بڑی قسم کو الگ کر کے انسانی بیماریوں کے علاج کے لیے مخصوص غذاؤں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر نیکولس کہتے ہیں کہ ’ پھپھوندیوں کے اندر شاید بہت سے مرکبات ہیں جو ہماری فزیالوجی پر بہت طاقتور اثرات رکھتے ہیں۔‘
اُن کا کہنا ہے کہ ’لیکن کیونکہ ہم نے مشرومز اور ان کے مرکبات کی طبی خصوصیات پر سنجیدہ تحقیق نہیں کی ہم اس کے تمام امکانات پر غور نہیں کر رہے لیکن مجھے اُمید ہے آگے ایسا ہو گا۔‘
ڈاکٹر نیکولس کے مطابق ’میڈیسینل مشرومز کا مستقبل لامحدود ہے لیکن ہم ابھی تک ہم وہاں نہیں پہنچے۔‘