’ایک چارج میں 1200 کلومیٹر‘: ٹویوٹا کا حیرت انگیز دعویٰ کیا الیکٹرک کار کی بیٹری کا مسئلہ حل کر دے گا؟
گذشتہ برس اکتوبر میں کار بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ٹویوٹا کے ایک اعلان نے سب کو حیران کر دیا تھا۔
ٹویوٹا کمپنی نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ جلد ہی الیکٹرک کاروں کے لیے ایسی بیٹری بنانے کے قابل ہو جائے گی جس کی مدد سے الیکٹرک کار 1200 کلومیٹر سے زائد کا فاصلہ طے کر سکے گی۔
یہی نہیں بلکہ یہ بیٹری صرف دس منٹ میں ری چارج ہو جائے گی۔ ٹوکیو میں یہ اعلان کرتے ہوئے ٹویوٹا کمپنی کے سربراہ کوجی ساتو نے کہا تھا کہ یہ نہ صرف الیکٹرک کاروں کی صنعت بلکہ آٹوموبائل انڈسٹری کے لیے بھی ایک انقلابی ایجاد ہے۔
کوجی ساتو نے کہا تھا کہ یہ نئی بیٹری کار مینوفیکچرنگ انڈسٹری کو ایک نئے مستقبل کی طرف لے جائے گی۔ تو اس ہفتے ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ کیا ٹویوٹا نے الیکٹرک کار کی بیٹری کا مسئلہ واقعتاً حل کر دیا ہے؟
الیکٹرک کاروں کی تاریخ
آکسفورڈ یونیورسٹی کے زیرو انسٹیٹیوٹ کے شعبۂ پائیدار توانائی و انجینئرنگ کے ڈائریکٹر پال شیئرنگ کا کہنا ہے کہ بیٹریوں پر چلنے والی کاریں اتنی نئی نہیں ہیں جتنا عام لوگ سوچتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’صرف نئی بات یہ ہے کہ اب صارفین نے انھیں استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ 1879 میں امریکی انجینیئر تھامس ایڈیسن نے بجلی کا بلب ایجاد کیا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ پوری دنیا میں مشہور ہوئے لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ تقریباً تیس سال بعد 1912 میں انھوں نے تین الیکٹرک کاریں بھی بنائی تھیں۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’اگر ان تینوں گاڑیوں کے پروٹوٹائپ یا نمونے صنعتی پیداوار کی سطح تک پہنچ چکے ہوتے تو شاید دنیا میں آٹوموبائل انڈسٹری کی شکل مختلف ہوتی۔
’لیکن تھامس ایڈیسن کے دوست اور انجینئر ہنری فورڈ اس سے کئی سال پہلے اپنی بنائی گئی گاڑی بازار میں لائے اور بڑے پیمانے پر پیداوار شروع کرنے کا منصوبہ بنایا۔‘
ہنری فورڈ کی گاڑی چھوٹی تھی اور بجلی کی بیٹریوں پر نہیں بلکہ پیٹرول پر چلتی تھی۔ تاہم پیٹرول اور ڈیزل پر چلنے والی گاڑیوں کو سٹارٹ کرنے کے لیے بیٹری کی ضرورت ہوتی ہے لیکن تیل کی فراہمی کے مسائل اور ماحولیاتی خدشات کی وجہ سے 20ویں صدی کے آخر میں گاڑیاں بنانے والوں نے پیٹرول اور ڈیزل کی بجائے الیکٹرک بیٹریوں پر چلنے والی گاڑیوں کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔
پال شیئرنگ کا کہنا ہے کہ گاڑیوں میں دو طرح کی بیٹریاں استعمال ہوتی ہیں۔’تیزاب اور لیڈ بیٹریاں کئی دہائیوں سے گاڑیوں کو سٹارٹ کرنے اور ان کی لائٹس کے لیے استعمال ہوتی رہی ہیں۔‘ جبکہ گاڑی کو چلانے کے لیے لیتھیم آئن بیٹری استعمال کی جاتی ہے۔ اب جدید الیکٹرک گاڑیوں کی موٹر لیتھیم آئن بیٹری سے چلتی ہے۔
بیٹری سے چلنے والی گاڑیوں کی تیاری 1990 کی دہائی میں شروع ہوئی۔ ٹویوٹا کی پہلی ہائبرڈ کار پریئس تھی جو 1997 میں مارکیٹ میں آئی تھی، یعنی یہ کار پیٹرول اور بیٹری دونوں سے چل سکتی تھی۔
لیکن 10 سال بعد پہلی الیکٹرک کار بنائی گئی جو مکمل طور پر بیٹری پر چلتی تھی۔ تاہم اتنے سال گزرنے کے بعد بھی پیٹرول یا ڈیزل پر چلنے والی کاروں اور الیکٹرک کاروں کے درمیان مقابلے میں کوئی برابری نہیں ہے۔
پال شیئرنگ کہتے ہیں کہ ’پیٹرول میں توانائی کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔ بیٹری ٹیکنالوجی ابھی اس سطح تک نہیں پہنچی ہے۔ تاہم نئی گاڑیوں میں استعمال ہونے والی بیٹریوں کی کارکردگی کافی اچھی ہے۔ مثال کے طور پر، بیٹری سے چلنے والی گاڑی بہت جلد تیز رفتار تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
بیٹری سے چلنے والی گاڑیاں
لیتھیم آئن بیٹریوں پر چلنے والی گاڑیوں کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ وہ ماحول کو کم نقصان پہنچاتی ہیں۔
لیکن پیٹرول یا ڈیزل پر چلنے والی گاڑیاں ٹینک بھر جانے پر لمبا فاصلہ طے کر سکتی ہیں جبکہ اسی فاصلے کو طے کرنے کے لیے لیتھیم بیٹریوں کو ایک سے زیادہ بار چارج کرنا پڑتا ہے۔
پال شیئرنگ کا خیال ہے کہ ’لوگ چاہیں گے کہ بیٹری سے چلنے والی کار ایک بار چارج ہونے پر زیادہ دور تک جائے۔ بیٹری زیادہ دیر تک چلنی چاہیے اور اس کی قیمت کم ہونی چاہیے۔
’یہ بھی توقع ہے کہ ان بیٹریوں کی تیاری میں ایسے مواد کا استعمال کیا جائے گا جو ماحول کو کم نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بیٹری کا استعمال زیادہ محفوظ ہونا چاہیے۔‘
ٹویوٹا کا کہنا ہے کہ وہ جلد ہی لیتھیم آئن بیٹریوں کے بجائے سالڈ سٹیٹ بیٹریوں کا استعمال شروع کر کے اس مسئلے کو حل کرنے جا رہا ہے۔ لیتھیم آئن بیٹریاں مائع الیکٹرولائٹ استعمال کرتی ہیں جبکہ سالڈ سٹیٹ بیٹریاں سالڈ الیکٹرولائٹ استعمال کرتی ہیں، اس لیے ان کی پیداوار پیچیدہ اور مہنگی ہوتی ہے۔ کئی سالوں سے ٹویوٹا، اس کے حریف نسان، بی ایم ڈبلیو اور مرسڈیز بینز اس پر کام کر رہے ہیں کیونکہ اس کے بہت سے فوائد ہیں۔
پال شیئرنگ بتاتے ہیں کہ ’سالڈ سٹیٹ بیٹریاں زیادہ توانائی رکھ سکتی ہیں، جس سے الیکٹرک کاریں ایک ہی چارج پر زیادہ دور تک جا سکتی ہیں۔‘ یعنی اس کی رینج بڑھ جائے گی۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ انھیں کم وقت میں چارج کیا جا سکتا ہے، یعنی ان کی چارجنگ کے لیے قطار چھوٹی ہو گی۔ تیسرا فائدہ یہ ہے کہ یہ لیتھیم آئن بیٹریوں سے زیادہ محفوظ ہیں۔
پال شیئرنگ کا خیال ہے کہ یہ فوائد الیکٹرک گاڑیوں کی مارکیٹ میں انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔
تاہم ابھی بھی ایک طویل راستہ باقی ہے۔
سالڈ سٹیٹ بیٹریاں
شکاگو یونیورسٹی میں مالیکیولر انجینئرنگ کے پروفیسر شرلی مینگ کا خیال ہے کہ سالڈ سٹیٹ بیٹریوں کے استعمال سے کئی نئی راہیں کھلیں گی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’توانائی کی زیادہ مقدار کو سالڈ سٹیٹ بیٹریوں میں ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔ اس سے گاڑی کی ڈرائیونگ رینج ایک ہی چارج پر دو سے تین گنا بڑھ جائے گی۔ اس کے استعمال سے یہ کار ایک ہی چارج پر ایک ہزار کلومیٹر سے زیادہ کا فاصلہ طے کر سکے گی۔ یہ کوئی خواب نہیں ہے۔ یہ بہت سے سائنسدانوں اور ٹویوٹا جیسی کمپنیوں کا اندازہ ہے۔‘
سالڈ سٹیٹ بیٹری کا ایک اور فائدہ ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ لیتھیم آئن بیٹریوں میں مائع الیکٹرولائٹ ہوتا ہے، جو بیٹری زیادہ گرم ہونے پر آگ لگنے کا باعث بن سکتا ہے۔ سالڈ سٹیٹ بیٹریاں لتھیم بیٹریوں سے زیادہ گرمی برداشت کر سکتی ہیں۔ جس کی وجہ سے انھیں ٹھنڈا رکھنے کے لیے کم محنت درکار ہوتی ہے۔
شرلی مینگ کہتی ہیں کہ ’مثال کے طور پر سالڈ سٹیٹ بیٹریاں ستر، اسی یا سو سیلسیس کے درجہ حرارت میں بھی کام کر سکتی ہیں۔ یہ لیتھیم آئن بیٹریوں سے بالکل مختلف ہو گی۔ بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ الیکٹرک کار کا تقریباً آدھا وزن لیتھیم بیٹری اور اسے ٹھنڈا رکھنے کے لیے استعمال ہونے والا سامان ہوتا ہے۔
شرلی مینگ کے مطابق لیتھیم آئن بیٹریاں بنانے کا عمل طویل اور پیچیدہ ہے۔ اس کے لیے مزید کارکنوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں، سالڈ سٹیٹ بیٹریاں بنانے کے لیے کم لوگوں کی ضرورت پڑے گی، جس سے وہ نسبتاً سستی ہو جائیں گی۔
اس کے ساتھ ساتھ لیتھیم آئن بیٹریوں میں استعمال ہونے والے زہریلے کیمیکلز کا استعمال سالڈ سٹیٹ بیٹریوں میں نہیں ہو گا جو کہ ماحول کے لیے اچھی بات ہے۔ لیکن کیا سالڈ سٹیٹ بیٹریوں کو ری سائیکل کیا جا سکتا ہے؟
شرلی مینگ نے کہا کہ ’میں یہ بات اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ انھیں ری سائیکل کیا جا سکتا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ سالڈ سٹیٹ بیٹری مینوفیکچرنگ ٹیم میں شامل ماہرین اس کے ڈبوں اور سرکٹ بنانے پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔
’اس کے علاوہ، بہت سے مضامین شائع ہوئے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ ان بیٹریوں کو ری سائیکل کرنے کا امکان بہت اچھا ہے۔‘
ٹویوٹا مہم
گذشتہ سال ٹویوٹا دنیا میں کار فروخت کرنے والی سب سے بڑی کمپنی تھی۔ پچھلے سال ٹویوٹا نے ایک کروڑ سے زیادہ گاڑیاں فروخت کیں جن میں سے اکثریت امریکہ میں فروخت ہوئیں۔ جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا کہ دنیا کی پہلی ہائبرڈ کار پریئس بھی ٹویوٹا نے بنائی تھی یعنی اس گاڑی کی الیکٹرک بیٹری صرف اس وقت چارج ہوتی تھی جب گاڑی چل رہی ہو۔
ٹویوٹا نے اسے اس لیے بنایا تھا کیونکہ اس وقت الیکٹرک کاروں کے لیے بہت کم چارجنگ پوائنٹس تھے۔
جیف لیکر 35 سال سے مشیگن یونیورسٹی میں انڈسٹریل انجینیئرنگ کے پروفیسر ہیں اور کتاب ‘دی ٹویوٹا وے’ کے مصنف بھی ہیں۔ یہ کتاب ٹویوٹا کمپنی کی پیداوار اور انتظامی اصولوں کی تاریخ بتاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی حد تک پریئس نے چارجنگ کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اس وقت وہ پریئس کو ایک ایسی کار کے طور پر دیکھ رہے تھے جو صفر کاربن کے اخراج والی کار مارکیٹ کے لیے راہ ہموار کرے گی۔ اس کار میں انھوں نے الیکٹرک کار کے لیے جو بھی جدید ٹیکنالوجی دستیاب تھی استعمال کی گئی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس میں پیٹرول پر چلنے والی موٹر بھی تھی۔ بعد میں ٹویوٹا نے پلگ ان ہائبرڈ اور الیکٹرک کاروں میں سرمایہ کاری شروع کی۔‘
پلگ ان ہائبرڈ گاڑیاں وہ ہیں جو الیکٹرک چارجنگ پوائنٹ کے ذریعے چارج کی جا سکتی ہیں لیکن یہ ڈیزل یا پیٹرول پر بھی چل سکتی ہیں۔ ٹویوٹا اب بھی پیٹرول اور ڈیزل انجنوں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے کیونکہ اسے لگتا ہے کہ امریکہ میں بہت سے لوگ طویل سفر کے دوران گاڑی کو چارج کرنے کے لیے بار بار رکنا پسند نہیں کریں گے لیکن جیف لیکر اس سوچ سے متفق نہیں ہیں۔
جیف لیکر نے کہا کہ میرے خیال میں اوسطاً امریکی ڈرائیور روزانہ چالیس سے پچاس میل ڈرائیو کرتا ہے۔ جس کے لیے موجودہ الیکٹرک گاڑیوں کی رینج کافی زیادہ ہے لیکن ان کا خیال ہے کہ اگر انھیں زیادہ فاصلہ طے کرنا پڑے تو چارجنگ کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔
بہت سی کاریں بنانے والی کمپنیاں مکمل طور پر الیکٹرک کاروں کی طرف بڑھ رہی ہیں لیکن ٹویوٹا کی سوچ ان سے مختلف ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ وہ نہ صرف کاریں چلانے سے پیدا ہونے والی آلودگی پر توجہ دے رہی ہے بلکہ کاروں کی تیاری کے عمل سے ہونے والی آلودگی پر بھی توجہ دے رہی ہے۔
جیف لیکر کا کہنا ہے کہ ٹویوٹا کو سرمایہ کاری کے لیے خاطر خواہ کریڈٹ نہیں ملا اور اس نے پیداواری عمل کے دوران کم آلودگی کو یقینی بنانے کے لیے کام کیا ہے۔ اب یہ نئی سالڈ سٹیٹ بیٹری کو ایک بڑی کامیابی کے طور پر پیش کر رہا ہے لیکن وہ اس بارے میں یہ نہیں بتا رہے کہ اس نے یہ کیسے ممکن بنایا۔
جیف لیکر کہتے ہیں ’جب اس طرح کے اعلانات کیے جاتے ہیں تو اکثر یہ توقع ہوتی ہے کہ یہ بیٹری فوری طور پر مارکیٹ میں آ جائے گی۔‘
تاہم ٹویوٹا کا کہنا ہے کہ آنے والے پانچ سالوں میں وہ محدود مقدار میں ان کی تیاری کرنا شروع کرے گا۔ ابتدائی طور پر یہ بیٹریاں لیکسس جیسی مہنگی گاڑیوں میں استعمال کی جائے گی کیونکہ ان بیٹریوں کو بنانے کی لاگت نسبتاً زیادہ ہو گی۔ دوسری گاڑیوں میں اس کے استعمال میں دس سال لگ سکتے ہیں۔
سالڈ سٹیٹ بیٹریوں کی بڑے پیمانے پر پیداوار میں وقت لگے گا کیونکہ اس کے لیے نہ صرف بھاری سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی بلکہ مطلوبہ مواد کی بھی بڑی مقدار درکار ہو گی۔
معدنیات اور وسائل
سالڈ سٹیٹ بیٹریوں کو لیتھیم بیٹریوں کی طرح تمام معدنی مواد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس وقت لیتھیم کی سالانہ پیداوار ایک لاکھ تیس ہزار ٹن کے لگ بھگ ہے۔
برٹش جیولوجیکل سروے کے معدنی مواد کے ماہر ڈاکٹر ای وی پیٹواراتزی کا کہنا ہے کہ کار انڈسٹری کی وجہ سے الیکٹرک بیٹریوں کی تیاری کے لیے درکار مواد کی مانگ میں کئی گنا اضافہ ہو جائے گا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ایک اندازے کے مطابق بیٹریوں کے لیے درکار معدنیات کی مانگ سات سالوں میں پانچ گنا بڑھ جائے گی۔ ایسا ہدف جسے حاصل کرنا مشکل ہے کیونکہ نئی کانیں بنانے میں پندرہ سے بیس سال لگتے ہیں۔ یہاں طلب اور رسد میں توازن نہیں ہے۔‘
دنیا میں موجودہ تناؤ کو دیکھتے ہوئے کار بیٹری بنانے والی کمپنیاں فیکٹری کے قریب جگہوں سے لیتھیم لانا چاہتی ہیں۔ زیادہ تر لتھیم چلی اور آسٹریلیا میں پیدا ہوتی ہے لیکن چین بیرون ملک کانیں خرید رہا ہے۔ یہ وہاں سے معدنیات لاتا ہے اور انھیں چین میں صاف کرتا ہے۔
درحقیقت دنیا میں سپلائی کی جانے والی آدھی سے زیادہ معدنیات چین میں صاف کی جاتی ہیں۔ یہ تشویش بڑھ رہی ہے کہ مغربی ممالک اس شعبے میں پیچھے ہیں۔
ڈاکٹر ای وی پیٹواراتزی نے کہا کہ چین نے لیتھیم انڈسٹری میں نجی اور سرکاری کمپنیوں کی شرکت کی حوصلہ افزائی کی ہے اور انھیں رعایتیں دی ہیں جو کہ دوسرے ممالک میں نہیں کی جا رہیں۔ زیادہ تر پیداوار چین میں ہو رہی ہے اور دیگر ممالک سپلائی کے لیے چین پر انحصار کر رہے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ یہ ریفائننگ فیکٹریاں چین سے باہر دیگر ممالک میں بھی لگائی جائیں۔
اب بہت سے مغربی ممالک گرین فیوچر کے لیے درکار مواد کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔
امریکہ نے چین کو فوجی ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی میں استعمال ہونے والے جدید سیمی کنڈکٹر چپس کی فراہمی روک دی ہے۔ اس کے جواب میں چین نے بعض اہم معدنیات کی برآمد پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر کار کی بیٹریوں کی ری سائیکلنگ کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔
اس پر ڈاکٹر ای وی پیٹواراتزی نے کہا کہ ’لیتھیم بیٹریاں پہلے ہی استعمال کی جا رہی ہیں۔ جب لیتھیم بیٹری کی زندگی ختم ہو جاتی ہے تو اس کے پرزے اور مواد کو نئی بیٹری بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس سمت میں کوششیں کی جانی چاہییں۔‘
تو اب واپس ہمارے بنیادی سوال کی طرف، کیا ٹویوٹا نے الیکٹرک کار کی بیٹری کا مسئلہ حل کر دیا ہے؟ جواب ہے۔ ہاں، اس نے سالڈ سٹیٹ بیٹری بنانے کی ٹیکنالوجی ڈھونڈ لی ہے۔
ان بیٹریوں پر چلنے والی گاڑی ایک بار چارج ہونے کے بعد زیادہ فاصلہ طے کر سکے گی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انھیں ٹویوٹا کی کچھ الیکٹرک گاڑیوں میں استعمال ہونے میں کم از کم چار سال مزید لگیں گے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں لیتھیم بھی استعمال ہوتا ہے جس کی پیداوار ماحول کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا میں موجودہ کشیدگی کی وجہ سے اس کی سپلائی میں بھی رکاوٹیں ہیں۔
ساتھ ہی ایک اور بیٹری ٹیکنالوجی پر بھی کام جاری ہے جس میں سوڈیم استعمال کیا گیا ہے جو آسانی سے دستیاب ہے۔ ٹویوٹا کے علاوہ دیگر کمپنیاں بھی سالڈ سٹیٹ بیٹریاں بنانے کے لیے کام کر رہی ہیں۔
ہمارے ماہر پال شیئرنگ کا خیال ہے کہ اگر تمام کمپنیوں کے درمیان تعاون ہو تو کامیابی کے امکانات بہت زیادہ بڑھ جائیں گے اور اس سے دنیا میں آلودگی کو کم کرنے کا ہدف حاصل کرنے میں بھی مدد ملے گی۔