صحت

’موبائل فون کی روشنی‘ میں سی سیکشن کے دوران ماں اور بچے کی موت: ’ہسپتال میں نہ نرس تھی، نہ سٹریچر اور نہ ہی آکسیجن‘

Share

انڈیا کے شہر ممبئی کے ایک سرکاری ہسپتال میں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے موبائل ٹارچ کی روشنی میں حاملہ خاتون کے آپریشن کے نتیجے میں ماں اور نوزائیدہ دونوں کی موت ہو گئی ہے۔

اس واقعے نے ہلاک ہونے والی خاتون کے اہلخانہ کو گہرے صدمے میں مبتلا کر دیا ہے جو گھر میں ایک بچے کی آمد کے منتظر تھے اور اس حوالے سے پُرجوش تھے۔

بچے کے والد خسرو الدین انصاری نے بھیگی ہوئی آنکھوں کے ساتھ بی بی سی کو بتایا ’جب مجھے میرے نومولود بچے کا چہرہ دکھایا گیا تو اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ میری بیوی ٹھیک ٹھاک ہیں۔ مجھے امید دلائی گئی کہ بچہ خیریت سے ہے اور تھوڑی صفائی ستھرائی کے بعد بچہ اہلخانہ کے حوالے کر دیا جائے گا۔ لیکن وہ پانچ سے دس منٹ کے بعد دوبارہ آئے اور بتایا کہ بچہ بھی مر چکا ہے۔‘

زچگی کے دوران مرنے والی خاتون کی ساس نجم النسا انصاری نے بتایا ’جب میری بہو کو آپریشن تھیٹر میں لے جایا گیا، تو اچانک ہسپتال کی بجلی چلی گئی۔ انھوں نے موبائل ٹارچ کی روشنی میں سی سیکشن کیا۔ جس کی وجہ سے میری بہو اور پوتے کی موت ہو گئی، لیکن انھوں نے ہمیں ابتدا میں بتایا کہ وہ ٹھیک ہیں۔‘

26 سالہ خاتون شاہدون انصاری کو زچگی کے لیے 29 اپریل کی صبح 8 بجے سشما سوراج میٹرنٹی ہسپتال میں داخل کروایا گیا تھا۔ وہاں موجود ڈاکٹرز نے ان کے ابتدائی معائنے کے بعد بتایا کہ زچگی معمول کے مطابق ہو گی یعنی ڈیلیوری نارمل ہو گی۔

اہلخانہ کے مطابق دوپہر 12 بجے خاتون کو ہونے والے شدید درد کے باعث انھیں واپس ہسپتال پہنچایا گیا تو ڈاکٹرز نے فوری ڈیلیوری یعنی سی سیکشن کا مشورہ دیا جس کے بعد انھیں فوری طور پر بچے کو جنم دینے کے لیے آپریشن تھیٹر لے جایا گیا۔

مرنے والی خاتون کی ایک رشتہ دار ریحام النسا نے بتایا کہ ہسپتال میں نظر آنے والے مناظر دیکھ کر ان کے آنسو نہیں تھم رہے تھے۔ ’وہاں نہ کوئی پاس وہیل چیئر تھی اور نہ سٹریچر۔ ہم اسے ایک کپڑے پر ڈال کر آپریشن تھیئیٹر تک لے گئے اور اسی دوران ہسپتال میں بجلی بند ہو گئی۔‘

ریحام النسا کہتی ہیں کہ ’شاہدون کو بہت تکلیف ہو رہی تھی۔ اس نے میری طرف دیکھا تو میں نے اسے تسلی دینے کی بہت کوشش کی۔ بچے کی پیدائش کے بعد والد کو بلایا گیا اور بتایا گیا کہ اس کے منہ میں کچرا گیا ہے اور وہ اسے صاف کر رہے ہیں۔‘

’کچھ دیر بعد ڈاکٹر باہر آیا اور کہا کہ بچہ مر چکا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ماں کو دوسرے ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے۔ ان کے پاس ایمبولینس میں مریض کو منتقل کرنے کے لیے عملہ بھی نہیں تھا۔ ہم نے خود اسے پکڑا اور ایمبولینس میں ڈالا۔ ان کے پاس آکسیجن کی سہولت بھی نہیں تھی۔‘

وہ بتاتی ہیں ’اس کے منہ سے جھاگ نکل رہا تھا۔ ہم نے اپنی بیٹی کو سیون ہسپتال منتقل کیا تو وہاں موجود عملے نے بتایا کہ شاہدون وہاں پہنچنے سے پہلے ہی فوت ہو چکی تھیں۔‘

ریحام النساء نے کہا کہ ’ہم خوش خبری سننے کے لیے ہسپتال گئے۔ لیکن ڈاکٹروں نے ہمیں بہت درد کے ساتھ چھوڑ دیا ہے۔‘

حمل کے نو مہینوں کے دوران شاہدون باقاعدگی سے چیک اپ کے لیے ڈاکٹروں کے پاس جاتی رہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ بچہ صحت مند ہے اور زچگی نارمل کے مطابق ہو گی۔

علامتی تصویر

واقعے کی تحقیقاتی کمیٹی

اس معاملے میں ممبئی میونسپل کارپوریشن نے دس ڈاکٹروں پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی ہے جو پورے واقعے کی انکوائری کرے گی۔

میونسپل کارپوریشن کے میڈیکل ڈیپارٹمنٹ کی ایگزیکٹیو ہیلتھ آفیسر دکشا شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ کمیٹی ایک ہفتے کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرے گی اور قصورواروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

دکشا شاہ نے بتایا کہ’ ہسپتال میں جنریٹر تھا، لیکن اس دن پورے علاقے میں لمبے عرصے کے لیے بجلی چلی گئی۔

میڈیکل ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر اویناش ویدانڈے نے کہا کہ مکمل رپورٹ آنے کے بعد ہی ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔