دنیابھرسے

سابق ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا ہیلی کاپٹر تباہ ہونے کی ممکنہ وجوہات اور وہ سوالات جو معاملے کو مزید الجھا رہے ہیں

Share

ایران کی دوسری اہم ترین شخصیت یعنی سابق صدر ابراہیم رئیسی کا ہیلی کاپٹر تقریباً 16 گھنٹے تک لاپتہ کیسے رہا؟ اور یہ ہیلی کاپٹر یا اس کا ملبہ کہاں موجود ہے، ایران کے سکیورٹی ادارے 16 گھنٹے تک اس کا کوئی سراغ کیوں نہ لگا سکے؟

سابق صدر رئیسی کے ہیلی کاپٹر کو پیش آنے والے حادثے کے چند روز بعد بھی نہ صرف اِن سوالات کا جواب واضح نہیں ہے بلکہ اس ضمن میں سامنے آنے والے تازہ بیانات اور تصاویر نے الجھنوں اور سوالات کو مزید بڑھا دیا ہے۔

کیا ہیلی کاپٹر فنی خرابی کی وجہ سے گِرا؟ کیا اچانک کاک پٹ کے اندر کوئی ایسا غیر متوقع واقعہ ہوا جو اس حادثے کا سبب بنا؟ کیا موسم کی صورتحال یعنی شدید دھند اور گہرے بادل اس حادثے کی وجہ تھے؟ کیا یہ ہیلی کاپٹر فضا ہی میں تباہ ہو چکا تھا یا زمین پر ہارڈ لینڈنگ کے دوران یا اس کے بعد؟ کیا یہ کوئی سوچا سمجھا منصوبہ تھا؟ ہیلی کاپٹر کے لاپتہ ہونے اور اس کے ملبے کی نشاندہی ہونے کے دوران یعنی 16 گھنٹوں میں کیا ہوتا رہا؟

ہم اِن میں سے کسی بھی سوال کا جواب یقینی طور پر نہیں جانتے کیونکہ جواب کے لیے ماہرین کی آزادانہ تحقیقات کی ضرورت ہے جو کہ ایران کی قومی سلامتی کے حالات کے پیش نظر ناممکن ہے۔

جنوری 2020 میں ہونے والے معروف امریکی کھلاڑی کوبی برائنٹ کے ہیلی کاپٹر کے حادثے کی ہی مثال لے لیں، نیشنل ایوی ایشن سیفٹی کمیٹی کی تحقیقات کے مکمل نتائج ایک سال سے بھی زیادہ عرصے بعد فروری 2021 میں شائع کیے گئے تھے۔ تاہم اس دوران من گھڑت، متضاد اور جھوٹ پر مبنی معلومات نے کئی شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔

صدر رئیسی کے ہیلی کاپٹر واقعے کی پہلی رپورٹ میں ایران کے جنرل ہیڈ کوارٹر نے ’بلندی پر پہاڑ کے ساتھ ٹکراؤ‘ کے نتیجے میں آگ لگنے کے علاوہ تمام دیگر امکانات کو رد کیا ہے۔

اس رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ’ہیلی کاپٹر مقررہ راستے پر محو پرواز تھا اور حادثے سے ڈیڑھ منٹ پہلے تک یہ کانوائے میں موجود دو دیگر ہیلی کاپٹرز کے ساتھ رابطے میں تھا، ہیلی کاپٹر کی باڈی پر گولیوں یا اس جیسی چیزوں کے کوئی نشانات نہیں دیکھے گئے۔ کنٹرول ٹاور کے ساتھ ہیلی کاپٹر کے ہونے والے رابطے میں بھی کسی مشتبہ گفتگو کی نشاندہی نہیں ہوئی۔‘

بی بی سی فارسی نے اس ضمن میں اہم سوالات کے جواب جاننے کے لیے اس شعبے کے چند ماہرین سے بات کی ہے۔

ان ماہرین میں فلوریڈا کے ایمبری ریڈل سکول آف ایوی ایشن میں ایروناٹیکل سائنسز کے شعبے سے منسلک اسسٹنٹ پروفیسر ریمنڈ شوماکر، ایرانی فوجی ہیلی کاپٹروں کے سابق پائلٹ مسعود صدیقیان، انسٹرکٹر پائلٹ اور افریقہ میں خصوصی پروازوں کے ڈائریکٹر نوید غدیری اور واشنگٹن انسٹیٹیوٹ کے دفاعی سلامتی کے تجزیہ کار فرزین ندیمی شامل ہیں۔

ان تمام ماہرین نے اس بات پر زور دیا کہ ہیلی کاپٹر حادثے سے متعلق موجودہ معلومات حتمی رائے دینے کے لیے ناکافی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بعد میں سامنے آنے والے نئے شواہد نئے جواب دے سکتے ہیں یا مزید سنگین سوالات اٹھا سکتے ہیں۔

کیا پہاڑ سے ٹکرانا ہی ہیلی کاپٹر میں سوار مسافروں کی موت کی وجہ بنا؟

ایران کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق عام خیال یہی ہے کہ یہ ہیلی کاپٹر دورانِ پرواز ایک پہاڑ سے ٹکرا گیا جس کے نتیجے میں صدر ابراہیم رئیسی اور ایرانی وزیر خارجہ سمیت تمام مسافر ہلاک ہو گئے۔

جنوبی افریقہ میں تربیت یافتہ ماسٹر پائلٹ اور امریکہ کے شہر سان ڈیاگو سے تعلق رکھنے والے نوید غدیری نے حادثے کے بعد ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر کی سامنے آنے والی تصاویر کا موازنہ ایسے ہی ایک حادثے سے کیا ہے جس میں طیارے کی نوک یا دُم پہاڑ سے ٹکرائی ہو جس کے بعد وہ ڈھلوان پر 20 میٹر تک گھسٹتا چلا گیا تھا۔ تاہم پہاڑ کی بیرونی سطح پر اس حادثے کے اثرات کے بارے میں اب بھی غیر یقینی صورتحال موجود ہے، جسے آزادانہ تحقیق سے ہی واضح کیا جا سکتا ہے۔

پہلوی دور حکومت میں 20 سال تک ایرانی ہیلی کاپٹر کے پائلٹ رہنے والے مسعود صدیقیان پوچھتے ہیں ’اگر یہ تیز رفتاری سے پہاڑ کے اوپری حصے سے ٹکرایا تو یہ کم اونچائی پر پیچھے کیوں چلا گیا اور ہیلی کاپٹر کی دم اونچائی پر کیسے رہ گئی؟

یا اگر یہ کسی پہاڑ سے ٹکرا کر اور پائلٹس کے کنٹرول سے باہر ہو کر بے قابو ہوا اور چاروں طرف گھومنے لگا تو اس کی دم ٹھیک ٹھاک حالت میں کیوں موجود ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ ’ہیلی کاپٹر ہوائی جہاز کی طرح نہیں ہوتا اور اس پر نصب مضبوط روٹر بلیڈ (پنکھا) کی وجہ سے قدرتی طور پر اسے پاس موجود درختوں کو تباہ کر دینا چاہیے تھا۔‘

ایک اور تجزیے میں واشنگٹن انسٹیٹیوٹ کے دفاع اور سلامتی کے ماہر فرزین ندیمی کا کہنا ہے: ’میرے خیال میں ہیلی کاپٹر براہ راست پہاڑ سے ٹکرا گیا جبکہ پائلٹ کو یا تو معلوم نہیں تھا کہ وہ پہاڑ سے ٹکرا رہا ہے یا اس نے پہاڑ کو سامنے دیکھ کر ہیلی کو اوپر اٹھانے اور پہاڑ پر سے گزرنے کی کوشش کی جس میں وہ کامیاب نہیں ہو سکا۔ یا پھر پائلٹ نے صورتحال دیکھتے ہوئے ہیلی کاپٹر کی ناک کو نیچے کی طرف رکھتے ہوئے پہاڑ سے ٹکرا دیا جس کے نتیجے میں یہ تیزی سے نیچے کی طرف مڑ گیا اور اس کی باڈی پلٹ گئی جس کے نتیجے میں ہیلی کی دُم اُوپر رہی اور پھر کیبن میں آگ لگ گئی۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ایک عینی شاہد کا بیان اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ ہیلی کاپٹر پہاڑ سے ٹکرا کر نیچے گر گیا تھا۔ فرزین ندیمی اس عینی شاہد کے بیان کا حوالہ دے رہے تھے جو کہ ایک کان کن تھا اور اخبار میں اس کا بیان ’ہیلی کاپٹر حادثے کا ایک گواہ‘ کے طور پر شائع کیا گیا۔

ایک اور امکان یہ ہے کہ جب ہیلی کاپٹر پہاڑ سے ٹکرایا تو اس کا انجن اور پنکھے بند ہو گئے۔ لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ اگر ایسا ہوا تو اس کی وجہ کیا تھی؟

ہیلی کاپٹر کیوں جل گیا؟

ایران کی مسلح افواج کے جنرل ہیڈ کوارٹر کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا کہ ہیلی کاپٹر میں پہاڑ سے ٹکرانے کے بعد آگ لگ گئی تھی۔

ماضی میں اس نوعیت کے واقعات کی مثالیں موجود ہیں جب ہیلی کاپٹر کو پیش آنے والے حادثات کے بعد ہیلی کے کیبن میں آگ بھڑک اٹھی۔

ایرانی فوجی ہیلی کاپٹروں کے سابق پائلٹ مسعود صدیقیان کا کہنا ہے کہ ’اگر حادثے کے نتیجے میں لگنے والی آگ اتنی شدید تھی کہ کاک پٹ میں زیادہ تر مسافر اور خاص طور پر پائلٹ شدید جل گئے، تو اس صورت میں جائے حادثہ سے سامنے آنے والی چند تصاویر میں چند اشیا کو محفوظ حالت میں کیوں دیکھا جا سکتا ہے اور ہیلی کاپٹر کے چند دیگر حصے جلنے کے نتیجے میں سیاہ کیوں نہیں ہوئے؟‘

ایران، ہیلی کاپٹر، ابراہیم رئیسی
،تصویر کا کیپشنمسلح افواج کے جنرل ہیڈ کوارٹر کے اعلامیے میں کہا گیا کہ ہیلی کاپٹر میں پہاڑ سے ٹکرانے کے بعد آگ لگ گئی

کیا اونچائی پر ہونے والا دھماکہ حادثے کا سبب ہو سکتا ہے؟

اس بات کا فی الحال کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ہیلی کاپٹر میں دوران پرواز کوئی دھماکہ ہوا۔

لیکن مسعود صدیقیان کا کہنا ہے کہ ’کاک پٹ میں کنٹرولڈ یعنی کسی چھوٹے دھماکے کے امکان کو یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ شاید ایک ایسا دھماکہ جس نے پائلٹس سے ہیلی کاپٹر کا کنٹرول چھین لیا ہو۔‘

صدیقیان کا کہنا ہے ’کاک پٹ کی مکمل تباہی اور باقی مسافروں سے زیادہ پائلٹوں کی لاشوں کا جلنا اور چند میٹر کی دوری سے ملنے والی ہیلی کاپٹر کی دُم۔۔۔ ہو سکتا ہے اس سب کی وجہ کیبن میں کنٹرول شدہ دھماکہ ہو۔ لیکن یہ محض ایک اندازہ ہے اور اس کو ثابت کرنے کے لیے مزید شواہد درکار ہوں گے۔‘

کیا موسم کے متعلق کوئی انتباہ جاری کیا گیا تھا؟

سابق صدر ابراہیم رئیسی کے دفتر کے سربراہ غلام حسین اسماعیلی، جو سابق صدر کے کانوائے میں موجود دو ہیلی کاپٹروں میں سے ایک پر سوار تھے، نے ایرانی ٹی وی پر حادثے کے بعد دیے گئے اپنے پہلے انٹرویو میں کہا تھا کہ ’آسمان صاف تھا مگر پھر بادل سامنے آ گئے۔‘

ایران کی محکمہ موسمیات کے مطابق اُس روز تیز ہوا، طوفان یا گہرے بادلوں کی کوئی پیشگوئی نہیں تھی۔

تاہم حادثے کے دن کی سیٹلائٹ تصاویر اس علاقے میں بادلوں کی موجودگی کی تصدیق کرتی ہیں اور بی بی سی ویریفائی کی ٹیم نے بھی تصدیق کی ہے کہ جس علاقے سے پرواز شروع ہوئی تھی وہاں موسم بہتر تھا اور آہستہ آہستہ، جیسے ہی یہ ہیلی کاپٹر سنگن مائن کے علاقے کے قریب پہنچے، بادلوں گہرے ہونا شروع ہو گئے۔

آسمان پر بادلوں اور وادی میں شدید دھند کے ساتھ ساتھ، حکام کے درمیان اس بات پر شدید اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا موسمی حالات ’پرواز کے لیے مناسب‘ تھے یا نہیں۔

ابراہیم رئیسی کے دفتر کے سربراہ کا کہنا تھا کہ پرواز کے لیے موسم خراب نہیں تھا اور انھیں کوئی وارننگ نہیں ملی تھی۔ لیکن محکمہ موسمیات کے تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر عبدالرسول حسن پور نے انصاف نیوز کو بتایا کہ حادثے کے دن صدر اور ان کے ساتھیوں کو لے جانے والے ہیلی کاپٹر کو ’اورنج وارننگ‘ دی گئی تھی۔

ایران کے موسمیاتی نظام میں اورنج وارننگ شدت کے لحاظ درمیانے درجے کی وارننگ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ خراب موسم کے منفی اثرات اور ممکنہ نقصانات کا امکان ہو سکتا ہے۔

محکمہ موسمیات کی رپورٹ پر تنازع کوئی نیا نہیں ہے۔ فروری 2018 میں ایران کے شہر تہران سے خرم آباد جانے والی ایران ایئر ٹور فلائٹ 956 کے کریش ہونے کے معاملے میں بھی یہ مسئلہ پیدا ہوا تھا۔

شریف یونیورسٹی کے پروفیسر اور اس وقت سول ایوی ایشن انڈسٹری کی فیکلٹی کے سربراہ محمد باقر ملائیک نے ایک تحقیق میں یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ’ملک کے محکمہ موسمیات نے غلطی سے ایک رات پہلے کی موسم کی رپورٹ اور بادلوں کی پوزیشن ایوی ایشن آرگنائزیشن کو بھیجی تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ حکام نے محکمہ موسمیات کی اس غلطی کو ناکافی قرار دیتے ہوئے حادثے کی وجہ پائلٹ کی غلطی کو قرار دیا تھا۔

ابر آلود آسمان ہیلی کاپٹر کے لیے کتنا خطرناک ہے؟

ابر آلود موسم میں پرواز کرنا اتنا خطرناک نہیں ہے لیکن اگر بادل کسی پہاڑ کے قریب ہوں یا پائلٹ کی حدِ نگاہ میں رکاوٹ کا باعث بن رہے ہوں تو یہ خطرناک ہو سکتے ہیں۔

ریمنڈ شوماکر، ایک پائلٹ اور ایمبری ریڈل میں ایروناٹیکل سائنسز کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ ریمنڈ امریکہ کی سب سے بڑی پائلٹ ٹریننگ یونیورسٹیوں میں سے ایک کے ساتھ منسلک ہیں۔ وہ کسی بھی پہاڑ کے قریب بادلوں اور دھند کی موجودگی کو پائلٹوں کے لیے سب سے مہلک ’مقام‘ سمجھتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’بغیر کسی پیشگی اطلاع اور منصوبہ بندی کے بادلوں میں گھرے پہاڑوں کے قریب جانے والے پائلٹ کے پاس اس صورتحال سے نکلنے اور مستحکم اور محفوظ موسمی حالات تک پہنچنے کے لیے صرف 56 سیکنڈ کا وقت ہوتا ہے، بصورت دیگر اس کا نتیجہ خطرناک نکل سکتا ہے۔‘

شوماکر نے حالیہ حادثے کے بارے میں براہ راست تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔

تاہم شائع شدہ اعداد و شمار کے مطابق ’اونچائی پر بادلوں کے علاوہ، دیگر حالات بھی پائلٹ کے کام کو مزید مشکل بنا سکتے ہیں۔‘ پہاڑیوں میں موسم کی بڑی تبدیلیوں اور مختلف سمتوں سے چلنے والی ہواؤں اور ’بھاری کارگو‘ اور عملے سمیت مسافر یا بھاری سامان بھی ہیلی کاپٹر کی کارکردگی کو متاثر کرتا ہے۔

’یہ وہ عوامل ہیں جن پر پرواز کے آغاز میں غور کرنا چاہیے اور ان کو نظر انداز کرنے سے کئی فضائی حادثات رونما ہو چکے ہیں۔‘

ان کے مطابق ٹیک آف کے وقت بیل ہیلی کاپٹر کا زیادہ سے زیادہ وزن 5080 کلوگرام سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن ہوا کی رفتار، درجہ حرارت اور اونچائی وہ عوامل ہیں جو 5080 کلوگرام کے معیار کو بڑھا اور گھٹا سکتے ہیں۔

تاہم ایسا نہیں لگتا کہ آٹھ مسافروں اور پٹرول کی پوری صلاحیت کے باوجود ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کا وزن مناسب حد سے زیادہ تھا۔ ابھی تک یہ حتمی طور پر ثابت نہیں ہو سکا ہے کہ بادلوں کی موجودگی حادثے کا سبب بنی تاہم یہ کریش کے بارے میں مضبوط امکانات میں سے صرف ایک ہے۔

ایران
،تصویر کا کیپشناگر بادل کسی پہاڑ کے قریب ہوں یا پائلٹ کی نگاہ میں رکاوٹ بن رہے ہوں تو یہ صورتحال خطرناک ہو سکتی ہے

ہیلی کاپٹر ’تجویز کردہ‘ بلندی پر کیوں نہیں تھا؟

ابراہیم رئیسی کے دفتر کے سربراہ کی وضاحت کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ کم از کم جب بادلوں سے سامنا ہوا تو صدر کے کانوائے میں موجود ہیلی کاپٹر ’کم سے کم تجویز کردہ اونچائی پر نہیں تھے۔‘

ہوا بازی کے عمومی اصولوں اور خاص طور پر یورپی یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی کے ضوابط کے مطابق (جن پر ایران بھی عمل کرتا ہے) ہیلی کاپٹر کو اپنے مقررہ راستے پر موجود کسی بھی بلند ترین مقام سے تقریباً 350 میٹر اوپر پرواز کرنا چاہیے۔

جیسا کہ ایران کی مسلح افواج کے جنرل سٹاف کے بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ صدر رئیسی کی پرواز کا راستہ تبدیل نہیں ہوا تھا، تو پائلٹ جانتا تھا کہ وہ کس بلندی پر پرواز کرنے والا ہے اور اس کے راستے میں کیا رکاوٹیں اور بلند مقامات ہوں گے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ پرواز کے آغاز سے ہی پائلٹس کے علم میں ہو گا دوران پرواز زمین کے سب سے اونچے مقام کی اونچائی کتنی ہے اور ایسی صورت حال میں جب وہ اپنے سامنے پانچ کلومیٹر سے زیادہ نہیں دیکھ سکتے، تو ان کے ہیلی کاپٹر کی اونچائی اس بلند ترین مقام سے کم از کم 350 میٹر اوپر ہونی چاہیے۔ ان حالات میں موسم کی پیش گوئی اور ماحول کے ساتھ ساتھ altimeter اور حساب کے دوسرے طریقہ کار بہت اہم ہو جاتے ہیں۔

اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انتہائی اہم مسافروں کو درپیش سکیورٹی مسائل یا پائلٹ کی جانب سے ہیلی کاپٹروں کی صلاحیت یا شاید وادی میں بادلوں کی موجودگی کے بارے میں اطلاع نہ ملنا یا غلط معلومات ملنے کے باعث ہیلی کاپٹر کے دوسرے پائلٹ (جو اس سفر کے کمانڈر بھی تھے) نے ایسا فیصلہ کیا کہ پرواز کی سطح کو نیچا رکھا جائے۔

اُن کے مطابق ’کانوائے میں موجود ہیلی کاپٹر نمبر ایک، جس میں اینٹینا اور موسمیاتی ریڈار لگا ہوتا ہے، نے پہاڑ پر گہرے بادلوں کے بارے میں ابراہیم رئیسی کو لے جانے والے ہیلی کاپٹر نمبر دو کو اطلاع دی ہو گی، شاید ایسا ہوا ہو لیکن ہم اس کے بارے میں نہیں جانتے۔‘

کیا پائلٹ نے اونچائی کا حساب لگانے میں غلطی کی؟

مسعود صدیقیان اور نوید غدیری دونوں ہی پائلٹ کی جانب سے غلطی یا کوتاہی برتنے کے امکان کو یکسر مسترد نہیں کرتے۔

صدیقیان کہتے ہیں کہ ’میں ہمیشہ انسانی غلطی کو مختلف وجوہات کی بنا پر 50 فیصد فضائی حادثات کی وجہ سمجھتا ہوں۔ بہت ممکن ہے کہ پائلٹ کو عین وقت پر دل کا دورہ پڑ گیا ہو اور اس صورتحال میں دوسرا پائلٹ پرواز جاری رکھنے کے بجائے پہلے پائلٹ پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہو۔ لیکن ایک وی آئی پی فلائٹ جس کے دو پائلٹ اور تکنیکی عملے کا ایک رُکن موجود ہو، اس میں یہ بہت عجیب بات ہے کہ وہ بلندی، بادلوں اور پہاڑوں سے واقف نہیں ہیں۔‘

ماہرین کے مطابق اس پورے معاملے میں پائلٹ کی غلطی کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔

کیا ہیلی کاپٹر کا آلٹی میٹر یا کوئی دوسرا پرزہ ناکارہ ہو گیا تھا؟

صدیقیان کے مطابق آلٹی میٹر کی ناکامی غیر متوقع وجوہات میں سے ایک ہو سکتی ہے جس پر غور کیا جا سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں ’آلٹی میٹر پہلی چیز ہے جسے ایک پائلٹ چیک کرتا ہے اور پرواز کے بالکل شروع میں ہی اسے پتا چل جاتا ہے کہ یہ ٹھیک سے کام کر رہا ہے یا نہیں۔ اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ پرواز کے وسط میں الٹی میٹر فیل ہو جائے۔‘

لیکن یہ ممکن ہے کہ کسی تکنیکی خرابی کی وجہ سے آلات کے تمام یا کچھ حصے خراب ہوں۔ پائلٹ صدیقیان سوال کرتے ہیں کہ ’اگر کوئی تکنیکی مسئلہ ہے اور آلات خراب ہیں تو پائلٹ نے آخری لمحے تک ایمرجنسی کا اعلان کیوں نہیں کیا اور ’مے ڈے‘ کیوں نہیں پکارا۔‘

صدیقیان کے مطابق انتہائی خراب حالات میں بھی پائلٹ دو یا تین سیکنڈ میں ایک بٹن دبا کر ایمرجنسی کا اعلان کر سکتا ہے۔

مثال کے طور پر پاسدارانِ انقلاب کی جانب سے تہران کے اوپر یوکرین کے طیارے پر پہلی گولی چلانے کے بعد، پائلٹ نے واچ ٹاور کے ساتھ گفتگو میں اعلان کیا کہ ایک واقعہ پیش آیا ہے اور وہ مخصوص راستے سے دائیں جانب مڑ رہا ہے۔

مسلح افواج کے ہیڈ کوارٹر کی رپورٹ کے مطابق ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کے گرنے سے قبل ’خطرے یا خراب حالات کے بارے میں کنٹرول ٹاور سے کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔‘

اب تک کیے گئے دعوؤں کے مطابق رئیسی کے ہیلی کاپٹر کے پائلٹ اور دیگر دو ہیلی کاپٹرز کے درمیان آخری رابطہ لاپتہ ہونے سے ایک منٹ قبل ہوا تھا اور اس میں کسی خطرے کا اعلان نہیں کیا گیا تھا۔ اس کانوائے میں موجود دو ہیلی کاپٹروں پر سوار افراد کا کہنا ہے کہ صدر رئیسی کا ہیلی کاپٹر اچانک غائب ہو گیا۔

ماہرین کے مطابق یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی خطرے کا اعلان ہوا لیکن ایرانی حکام کی جانب سے میڈیا کو اس بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔

ایران، ہیلی کاپٹر، ابراہیم رئیسی
،تصویر کا کیپشنٹیک آف کے وقت Bel-212 ہیلی کاپٹر کا زیادہ سے زیادہ وزن 5080 کلوگرام سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے

کیا ہیلی کاپٹر کا پُرانا ہونا اور ایران پر عائد پابندیاں حادثے کی وجہ ہیں؟

صدیقیان کہتے ہیں کہ ہیلی کاپٹر کے پُرانے ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ پرواز کے لیے غیرمحفوظ ہو گیا ہو۔ ان کے مطابق کسی بھی ہیلی کاپٹر کی کوئی ایکسپائری تاریخ نہیں ہوتی۔

وہ کہتے ہیں کہ ہیلی کاپٹر کی ہر 50 گھنٹوں کی فلائٹ کے بعد اس کا تفصیلی معائنہ کیا جاتا ہے اور 100 گھنٹوں بعد ہیلی کاپٹر کا انجن کھول کر اس کے تمام حصے چیک کیے جاتے ہیں۔

صدیقیان کے مطابق بیل 212 ہیلی کاپٹر جس میں ابراہیم رئیسی سفر کر رہے تھے، اس ہیلی کاپٹر کو محفوظ رکھنے کے لیے اس پروٹوکول پر عمل کیا گیا تھا یا نہیں۔

صدیقیان سمجھتے ہیں کہ اگر وہ ہیلی کاپٹر غیرمحفوظ تھا تو اس کی ایک ہی وجہ ہو سکتی ہے اور وہ ایران پر عائد پابندیاں ہیں۔

خیال رہے ایران پر عائد عالمی پابندیوں کے سبب یہ ملک ہیلی کاپٹر کے خراب پارٹس بھی بیرونِ ملک سے نہیں منگوا سکتا۔

صدیقیان کا بھی یہی کہنا ہے کہ چونکہ ایران پر پابندیاں عائد ہیں تو ہو سکتا ہے کہ ایرانی حکام ایکی ہیلی کاپٹر کو ٹھیک کرنے کے لیے اس میں دیگر ہیلی کاپٹرز کے پارٹس استعمال کرتے ہوں۔

لیکن ان کے مطابق صدر رئیسی کے ہیلی کاپٹر کے ساتھ ایسا کرنے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔

ہیلی کاپٹر حادثے کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے بیل کمپنی کے صدر ریڈ اینڈرسن کا کہنا تھا کہ ’ہم بس یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات نہیں ہیں اور نہ ہم ان کے ہیلی کاپٹرز کی سروس کرتے ہیں۔ جو ہیلی کاپٹر حادثے کا شکار ہوا اس کے حوالے سے ہمارے پاس کوئی معلومات موجود نہیں۔‘

بی بی سی نے بیل کمپنی کے ترجمان سے رابطہ کیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ ایران کو آخری مرتبہ ہیلی کاپٹر کب فروخت کیے گئے تھے، تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

ایران میں اہم شخصیات کے ہوائی سفر کو محفوظ بنانے کا ذمہ دار کون ہے؟

ایران میں اعلیٰ حکام کے ہوائی سفر پر سِول ایوی ایشن آرگنائزیشن کے قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا۔ انصار المہدی پاسدارانِ انقلاب کا حصہ ہیں اور صدر، وزرا اور دیگر اعلیٰ حکومتی شخصیات کی سکیورٹی کی ذمہ داری بھی ان ہی کی ہے۔

اعلیٰ حکومتی شخصیات کے ہوائی سفر کے لیے طے شدہ پروٹوکول کے مطابق پہلے ہیلی کاپٹر میں سکیورٹی اہلکار تھے اور ان کے پیچھے دوسرے ہیلی کاپٹر میں صدر اور وزرا جبکہ تیسرے ہیلی کاپٹر میں دیگر حکومتی شخصیات سوار تھیں۔

سفر کے دوران ایران کے وزیر برائے مواصلات صدر ابراہیم رئیسی کے ساتھ نہیں بلکہ سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ دوسرے ہیلی کاپٹر میں موجود تھے۔ اس بات پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ دورانِ سفر وزیرِ مواصلات صدر ابراہیم رئیسی کو چھوڑ کر دوسرے ہیلی کاپٹر میں کیوں سوار ہوئے۔

یہ تینوں ہیلی کاپٹر ساتھ ہی اُڑ رہے تھے اور پھر بیچ میں موجود صدر ابراہیم رئیسی کا ہیلی کاپٹر غائب ہو گیا اور ساتھ موجود ہیلی کاپٹروں کو اس کا علم بھی نہیں ہو سکا۔

صدر رئیسی کے ہیلی کاپٹر کو تلاش کرنے والے ایک ریسکیو اہلکار کا کہنا ہے کہ انھیں ایک سکیورٹی اہلکار نے بتایا کہ انھِیں صدر رئیسی کے ہیلی کاپٹر کے لاپتہ ہونے کا علم اس وقت ہوا جب انھیں ہیلی کاپٹر کی آواز آنا بند ہو گئی۔

عام طور پر ایران میں اعلیٰ حکام کے اندرون ملک اور بیرون ملک ہوائی سفر کے دوران خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں۔

صدیقیان کے مطابق ’بطور پائلٹ ہمیں دو کام کرنے ہوتے ہیں۔ پہلی یہ کہ باڈی گارڈز سمیت کسی کہ پاس بھِی کوئی پستول نہ ہو اور دوسرا یہ کہ ریڈیو یا فون کے ذریعے دورانِ سفر کسی حکومتی سٹیشن سے ہر وقت رابطے میں رہا جائے۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ 1950 کی دہائی میں ایران کے شاہی جہازوں میں پائلٹ کے پاس ایک سیٹلائٹ فون بھی ہوا کرتا تھا۔

لیکن اعلیٰ حکام اکثر سیٹلائٹ فون استعمال کرنے سے ہچکچاتے ہیں کیونکہ یہ فون محفوظ نہیں ہوتا اور دیگر ممالک بھی اس گفتگو کو سن سکتے ہیں۔

ایران میں اعلیٰ حکام کی پروازیں اُڑانے والے ایک پائلٹ نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ہیلی کاپٹر یا جہاز کے اندر باڈی گارڈز کو بھی لوڈڈ بندوقیں رکھنے کی اجازت نہیں دی جاتی اور انھیں حکم دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی پستولوں میں سے میگزین نکال دیں۔

’لیکن ایسا کئی بار ہوا ہے کہ وہ اپنے ہتھیار پائلٹ سے خفیہ رکھتے ہیں۔‘

تنزانیہ میں مشہور شخصیات کے چارٹرڈ طیاروں اور ہیلی کاپٹرز کے پائلٹ قادری کہتے ہیں کہ سفر شروع ہونے سے پہلے ایک خصوصی ٹیم کتوں کے ذریعے طیاروں یا ہیلی کاپٹروں کی چیکنگ کرتی ہے۔

قادری ایک سفر کے دوران برطانوی بادشاہ چارلس سوئم کے بھی پائلٹ رہ چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’شاہ چارلس کے ساتھ سفر کے دوران انھیں موبائل فون کی طرح دکھنے والی دو ڈیوائسز دی گئی تھیں اور ان میں سے ایک ڈیوائس ہمیشہ پائلٹ کے پاس ہوتی تھی۔‘

وہ کہتے ہیں اس ڈیوائس کی نگرانی سکیورٹی ٹیم کر رہی ہوتی ہے اور اگر پائلٹ یہ ڈیوائس بند کر دے تب بھی سکیورٹی ٹیم اس ازخود کھول سکتی ہے۔

تنزانیہ کے پائلٹ کہتے ہیں کہ اس ڈیوائس کے ذریعے زمین پر موجود سکیورٹی ٹیم کو پتا ہوتا ہے کہ کس وقت طیارہ یا ہیلی کاپٹر کہاں موجود ہے اور اس کے ذریعے انھیں کسی حادثے کی اطلاع بھی فوراً مل جاتی ہے۔

صدر ابراہیم رئیسی کا ہیلی کاپٹر اتنے گھنٹوں آنکھوں سے اوجھل کیوں رہا؟

اعلیٰ حکومتی شخصیات کے ساتھ ہوائی سفر پر جانے والے پائلٹس کہتے ہیں کہ ان کے لیے یہ بات ’ناقابلِ یقین‘ اور ’عجیب‘ ہے کہ گھنٹوں گزرنے کے باوجود حکام کو صدر رئیسی کے ہیلی کاپٹر کے بارے میں کوئی خبر نہ مل سکی تھی۔

قادری کہتے ہیں کہ شاید حفاظتی تدبیروں کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہیلی کاپٹر کے ٹرانسپونڈرز بند کر دیے گئے ہوں، لیکن اس کے باوجود بھی یہ ناقابلِ یقین بات ہے کہ 16 گھنٹے گزر جانے کے باوجود بھی حکام کسی بھی ڈیوائس کے ذریعے صدر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کا پتا نہیں لگا سکے۔

’میں یہ بات ماننے کو تیار نہیں کہ صدر بغیر ٹریکنگ ڈیوائس والے ہیلی کاپٹر میں سوار تھے، وہاں یقیناً کوئی ٹریکنگ ڈیوائس ہو گی، اگر ایسا تھا تو ہیلی کاپٹر اچانک ریڈار سے غائب کیسے ہو گیا؟‘

ہمیں نہیں معلوم کہ ایرانی سکیورٹی فورسز صدر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کے گرنے کے مقام سے واقف تھے یا نہیں۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ وہ کسی وجہ کی بنیاد پر صدر کی موت کا اعلان کرنے میں تاخیر کر رہے ہوں۔

ایسے بہت سارے سوالات ہیں جن کا جواب ہمیں نہیں مل سکا ہے اور نئی معلومات ملنے تک شاید صدر ابراہیم رئیسی کی ہیلی کاپٹر حادثے میں موت ایک پہیلی ہی بنی رہے۔