دنیابھرسے

’حسینہ دونوں آپشن کھلے رکھنا چاہتی تھیں‘: پیر کی صبح بنگلہ دیش کے وزیرِ اعظم ہاؤس میں کیا ہوا؟

Share

بنگلہ دیش میں پیر سے قبل بہت سے لوگ شاید سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ساڑھے 15 برس برسرِاقتدار رہنے والی وزیراعظم اس طرح ملک سے چلی جائیں گی اور وزیراعظم بھی وہ جسے ایک دور میں لوگ ’خاتونِ آہن‘ کہا کرتے تھے۔

پیر کو بنگلہ دیش کے وزیراعظم ہاؤس سے شیخ حسینہ اور ان کی بہن شیخ ریحانہ کی فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے انڈیا روانگی سے قبل اتوار کی رات اور پیر کی صبح بھی صورتحال تیزی سے تبدیل ہوتی رہی۔

اتوار کو ملک بھر میں کوٹہ مخالف تحریک کے مظاہرین اور عوامی لیگ کے رہنماؤں اور کارکنوں کے درمیان جھڑپوں میں 100 کے قریب افراد ہلاک ہوئے جن میں پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔

اس دوپہر عوامی لیگ کے کچھ سینیئر رہنماؤں اور مشیروں نے شیخ حسینہ کو مطلع کیا کہ حالات قابو سے باہر ہو چکے ہیں لیکن وزیراعظم یہ بات ماننے کو تیار نہیں تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ حالات کو طاقت کے ذریعے قابو میں لایا جا سکتا ہے لیکن پھر سکیورٹی فورسز کے اعلیٰ حکام نے انھیں یہ تاثر دیا کہ اب صورتحال کو سنبھالا نہیں جا سکتا۔

یہ وہ وقت تھا جب وہ ذہنی طور پر مستعفی ہونے کے لیے تیار ہوئیں۔ شیخ حسینہ کے بیٹے، سجیب واجد جوئے نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی والدہ اتوار سے ہی استعفیٰ دینے کا سوچ رہی تھیں۔

ایک اعلیٰ فوجی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ صرف سپیشل سکیورٹی فورس، پریذیڈنٹ گارڈ رجمنٹ اور آرمی ہیڈکوارٹر میں کچھ سینیئر فوجی افسران ہی جانتے ہیں کہ شیخ حسینہ نے استعفیٰ کے خط پر کب دستخط کیے اور وہ کب ہیلی کاپٹر میں سوار کر ملک سے چلی گئیں۔

ان کے مطابق یہ سارا کام انتہائی خفیہ طریقے سے کیا گیا۔

بنگلہ دیش

بی بی سی کو عسکری ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ شیخ حسینہ پیر کی صبح گیارہ بجے وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ سے روانہ ہوئیں۔ اس وقت ان کی منزل انڈیا کی ریاست تریپورہ میں اگرتلہ تھی۔ وہاں اترنے کے بعد شیخ حسینہ اور شیخ ریحانہ کو انڈین فضائیہ کے خصوصی طیارے سے دارالحکومت دہلی پہنچا دیا گیا۔

بی بی سی بنگلہ کو حکام نے بتایا کہ شیخ حسینہ ‘دونوں آپشن’ کھلے رکھنا چاہتی تھیں اور ان کا خیال تھا کہ اگر ‘لانگ مارچ ٹو ڈھاکہ’ پروگرام کو طاقت سے روکا جا سکتا ہے تو وہ استعفیٰ نہیں دیں گی تاہم اس کوشش کے ناکام ہونے کی صورت میں ملک چھوڑنے کی بھی تیاری کی گئی۔

طاقت کے ذریعے آخری دم تک اقتدار میں رہنے کی کوشش بھی جاری رہی لیکن فوج مزید جانی نقصان نہیں چاہتی تھی۔ اتوار کو ملک کے مختلف حصوں میں عام لوگ اور مظاہرین فوج کے سپاہیوں اور افسران کے ساتھ گھلتے ملتے دکھائی دیے اور بظاہر اسی صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد فوج کے اعلیٰ افسران نے محسوس کیا کہ حالات حکمرانوں کے قابو سے باہر ہو چکے ہیں۔

مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق شیخ حسینہ نے پیر کی صبح پولیس اور تینوں افواج کے سربراہان کے ساتھ ملاقات بھی کی تھی۔ روزنامہ پرتھم الو نے ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ شیخ حسینہ نے اس بات پر اپنا غصہ ظاہر کیا کہ سکیورٹی فورسز صورتحال کو سنبھالنے میں کامیاب کیوں نہیں ہیں۔

اخبار کا کہنا ہے کہ اس ملاقات میں پولیس کے سربراہ نے وزیراعظم کو بتایا کہ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ پولیس کے لیے زیادہ دیر تک اتنی سخت پوزیشن برقرار رکھنا ممکن نہیں ہے۔

بنگلہ دیش

یہ وہ وقت تھا جب تک لاکھوں مظاہرین ڈھاکہ اور دیگر علاقوں میں سڑکوں پر جمع ہو چکے تھے۔ ایک سینیئر فوجی اہلکار نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ شیخ حسینہ کو مطلع کیا گیا تھا کہ لوگوں کو زیادہ دیر تک نہیں روکا جا سکتا اور وہ وزیراعظم ہاؤس کا رخ کریں گے اور اس صورت میں شیخ حسینہ کی جان کو خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔

روزنامہ پرتھم الو نے لکھا کہ پیر کی صبح پولیس اور فوج کے سربراہان نے شیخ حسینہ کی بہن شیخ ریحانہ سے بھی بات چیت کی تاکہ وہ اپنی بہن کو عہدہ چھوڑنے پر آمادہ کر سکیں۔

ادھر پیر کی صبح سے ہی گنوبھن کی طرف جانے والی تمام سڑکوں کو پولیس اور فوج نے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ اعلیٰ فوجی حکام کے مطابق یہ انتظام اس لیے کیا گیا تھا تاکہ شیخ حسینہ تیجگاؤں کے ہوائی اڈے تک بحفاظت پہنچ سکیں۔

دوسری جانب صبح نو بجے کے قریب ملک میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک انٹرنیٹ بند رہا۔ یہ انتظام بھی بظاہر اس لیے کیا گیا تھا کہ شیخ حسینہ کی حرکات سے متعلق کوئی خبر سوشل میڈیا پر نہ پھیلے۔ شیخ حسینہ کے ہیلی کاپٹر میں سوار ہونے کے بعد انٹرنیٹ کنکشن فعال کر دیا گیا تھا۔

بنگلہ دیشی حکام کا کہنا تھا کہ انڈیا سے پہلے ہی شیخ حسینہ کے ملک چھوڑنے کے بارے میں رابطہ کر لیا گیا تھا اور انڈیا کی طرف سے بتایا گیا کہ اگر وہ بنگلہ دیش سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے اگرتلہ پہنچ سکتی ہیں تو وہاں سے انھیں دہلی لے جایا جائے گا۔

شیخ حسینہ کے بیٹے سجیب واجد جوئے نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی والدہ ملک چھوڑنا نہیں چاہتی تھیں لیکن اہلخانہ ان کے تحفظ کے بارے میں فکر مند تھے اور اسی لیے گھر والوں نے اصرار کیا کہ انھیں کسی محفوظ پناہ گاہ میں جانا چاہیے۔

شیخ حسینہ کے دہلی پہنچنے کے بعد انڈیا میں کیا ہوا؟

شیخ حسینہ استعفیٰ دے کر بنگلہ دیش چھوڑ کر انڈیا روانہ ہو گئی تھیں اور اس وقت بھی وہ انڈیا میں ہی ہیں۔ دہلی کے قریب ہندن ایئربیس سے انھیں دہلی کے مضافات میں غازی آباد میں نیم فوجی گیسٹ ہاؤس میں رکھا گیا ہے۔

آج صبح ایک خبر رساں ادارے سمیت متعدد انڈین ذرائع ابلاغ نے اطلاع دی تھی کہ بنگلہ دیشی فضائیہ کے ایک طیارے نے شیخ حسینہ کو لے کر دہلی کے قریب ہندن ایئربیس سے اڑان بھری ہے۔ تاہم تھوڑی دیر بعد اسی خبر رساں ادارے نے اطلاع دی کہ جہاز نے ٹیک آف تو کیا لیکن اس میں شیخ حسینہ موجود نہیں تھیں اور طیارہ بنگلہ دیشی فوجی افسران کے ساتھ اپنے ملک کی طرف روانہ ہے۔ بی بی سی ان خبروں کی آزادانہ تحقیق نہیں کر سکا ہے۔

ادھر انڈیا میں حکومت کی کابینہ کمیٹی برائے سکیورٹی یا سی سی ایس کی میٹنگ پیر کو آدھی رات کو دہلی میں ہوئی۔ انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے اجلاس کی صدارت کی۔ وزیر داخلہ امیت شاہ اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر بھی وہاں موجود تھے۔ ملاقات میں بنگلہ دیش کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ تاہم ملاقات کے بعد کوئی بیان نہیں دیا گیا اور نہ ہی کوئی پریس ریلیز سامنے آئی۔

منگل کی صبح دہلی میں پارلیمنٹ میں ایک آل پارٹی میٹنگ ہوئی۔ وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے مختلف پارٹیوں کے ارکان پارلیمان کے سامنے صورتحال کی تفصیلات بتائیں۔ انھوں نے کہا کہ حکومت صحیح وقت پر درست قدم اٹھائے گی۔

اس میٹنگ میں وزیر خارجہ کے علاوہ وزیر داخلہ امیت شاہ، پارلیمانی امور کے وزیر کرن رجیجو، وزیر دفاع راجناتھ سنگھ اور تمام پارٹیوں کے ممبران پارلیمنٹ موجود تھے۔

پارلیمان

اس ملاقات میں انڈین ذرائع ابلاغ میں رپورٹ ہونے والی اطلاعات کے مطابق وزیر خارجہ نے ارکان پارلیمنٹ کو بتایا کہ حکومت نے شیخ حسینہ سے ابتدائی بات چیت کی ہے۔ انھوں نے یہ کہا کہ انڈیا انھیں اپنے مستقبل کے لائحہ عمل کے لیے مزید وقت دینا چاہتا ہے۔

اس میٹنگ میں اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی نے پارلیمنٹ کے ایوان زیریں لوک سبھا میں سوال اٹھایا کہ انڈیا بنگلہ دیش کے لیے کیا طویل مدتی اور قلیل مدتی حکمت عملی اختیار کر رہا ہے؟

حکومت نے جواب میں کہا کہ صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے، اور اس کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

راہل گاندھی اس دوران یہ بھی جاننا چاہتے تھے کہ کیا بنگلہ دیش میں ہونے والے واقعات میں کسی ’غیر ملکی طاقت کا ہاتھ‘ تھا؟ حکومت نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ تمام پہلوؤں کو دیکھا جا رہا ہے۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی نے کانگریس لیڈر کارتی چدمبرم کے حوالے سے کہا کہ کانگریس قومی سلامتی اور قومی مفاد پر پوری طرح حکومت کے ساتھ ہے۔

بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کی اگلی منزل کہاں ہے، یہ تاحال واضح نہیں ہے۔ پہلے یہ افواہ تھی کہ وہ انڈیا سے لندن جا رہی ہیں۔ لیکن بی بی سی بنگلہ کے دہلی کے نامہ نگار شوبھا جیوتی گھوش کی رپورٹ کے مطابق ان کی اگلی منزل ابھی طے ہونا باقی ہے۔ اس لیے شیخ حسینہ فی الحال انڈیا میں ہی رہیں گی۔

لیکن انھیں کب تک انڈیا میں رہنا پڑے گا یہ واضح نہیں ہے۔

انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا ہے کہ پیر کو بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے بہت مختصر نوٹس پر انڈیا آنے کی درخواست کی۔ وزیر خارجہ نے پہلی بار یہ بتایا ہے کہ استعفیٰ دینے کے بعد شیخ حسینہ واجد گذشتہ روز انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی آئیں۔

وزیر خارجہ نے ابھی یہ نہیں بتایا کہ اب اگلا مرحلہ کون سا ہوگا اور یہ کہ شیخ حسینہ واجد کتنے وقت تک انڈیا میں رہی رکی رہیں گی۔ انھوں نے صرف اتنا کہا کہ وہ وقتی طور پر انڈیا میں ہی ہیں۔