فیچرز

لیپ ٹاپ چرانے پر تین سال قید کی سزا پانے والے سلیمان کو 20 برس بعد بھی رہائی کیوں نہ ملی

Share

کوئی چوری کتنی بھاری پڑ سکتی ہے یہ بات کوئی لیپ ٹاپ چوری کے جرم میں قید عبداللہ سلیمان سے پوچھے۔

وہ اب تک اپنے جرم کے لیے دی جانے والی اصل سزا تقریباً پانچ بار کاٹ چکے ہیں لیکن اب بھی ان کی رہائی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔

برطانیہ میں ویلز کے دارالحکومت کارڈف سے تعلق رکھنے والے 41 سالہ عبداللہی سلیمان کو سنہ 2005 میں عوامی تحفظ کے لیے قید (آئی پی پی) کی سزا سنائی گئی تھی جس کے بعد سے وہ اب تک جیل میں ہیں۔

یہ سزائیں سنہ 2005 اور 2012 کے درمیان انتہائی خطرناک مجرموں کو جیل میں ڈالنے کے لیے دی گئی تھیں، لیکن سخت تنقید کے بعد اس قانون کو ختم کر دیا گیا۔ اسے تنقید کا نشانہ اس لیے بنایا گیا تھا کہ در حقیقت اس میں کم سنگین جرائم کرنے والے بھی پھنس رہے تھے۔

سلیمان ان 2,734 قیدیوں میں سے ایک ہیں جو آئی پی پی کے تحت سزا پانے کے بعد اب بھی قید ہیں۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ان میں سے 1,132 قیدیوں کو کبھی رہا نہیں کیا گیا۔

بی بی سی ویلز نے دو قیدیوں کے اہلخانہ اور ایک رہائی پانے والے قیدی سے بات کی جن کا کہنا ہے کہ ان کی زندگیاں ان سزاؤں کی وجہ سے تباہ ہو گئیں اور یہ کہ اس متنازع قانون کے خاتمے کے بعد بھی بہت سے لوگوں کو نجات نہیں مل سکی ہے۔

سلیمان جب 22 سال کے تھے تو انھیں 2005 میں کم از کم تین سال اور 276 دن قید کی سزا سنائی گئی تھی اور وہ بھی لیپ ٹاپ کے چوری کے لیے۔

سلیمان کی اہلیہ برناڈیٹ ایمرسن سزا مکمل ہونے کے بعد جیل میں گزارے جانے والے وقت کو ’چوری کیے گئے برس‘ کہتی ہیں کیونکہ یہ ان کی زندگیوں سے چوری کر لیا گيا۔

سلیمان کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ وہ یہ سوچ کر گھبرا جاتی ہیں کہ ان کا شوہر ذہنی مرض کے ساتھ جیل میں ہے
،تصویر کا کیپشنسلیمان کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ وہ یہ سوچ کر گھبرا جاتی ہیں کہ ان کا شوہر ذہنی مرض کے ساتھ جیل میں ہے

صومالیہ سے بہتر زندگی کی تلاش میں نکلنے والا 20 سال سے قید

سلیمان جہاں اپنے تین بچوں کی پرورش سے محروم ہیں وہیں انھیں بائی پولر ڈس آرڈر کا علاج بھی نہیں مل پا رہا ہے۔ انھیں اس مرض کی سنہ 2004 میں تشخیص ہوئی تھی۔ شاید اس بیماری کی وجہ سے بھی وہ جیل میں سزا سے زیادہ دن گزار رہے ہیں۔

وزارت انصاف کے ترجمان نے کہا کہ ’یہ درست ہے‘ کہ سزاؤں کو ختم کر دیا گیا اور ’لارڈ چانسلر اس کے تعلق سے کام کرنے والی تنظیموں اور مہم گروپوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم ہیں تاکہ ان لوگوں کی مدد کے لیے مناسب طریقہ کار اختیار کرنے کو یقینی بنایا جا سکے جو اب بھی آئی پی پی کے تحت دی جانے والی سزا بھگت رہے ہیں۔‘

لیکن سلیمان جو بچپن میں صومالیہ سے ایک نئی زندگی کی تلاش میں نکلے تھے وہ اب بھی جیل میں ہیں۔

سلیمان تربیت یافتہ رنگ کرنے والے ہیں۔ انھیں پہلی بار سنہ 2011 میں رہا کیا گیا تھا، لیکن ان کی دماغی صحت بگڑ گئی جس کی وجہ سے انھیں ہسپتال میں علاج کے لیے داخل کیا گیا۔

ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد سلیمان کو بتایا گیا کہ اگر وہ وقت پر ہسپتال چیک اپ کے لیے نہ پہنچے یا دوا کی پابندی نہیں کی تو انھیں واپس جیل بھیج دیا جائے گا۔

ڈھائی سال بعد انھیں چار ماہ کے لیے واپس جیل میں ڈال دیا گیا اور اس کے بعد سے انھیں ذہنی صحت کے علاج کی شرائط کی تعمیل نہ کرنے پر مزید تین بار واپس جیل بلایا گیا۔

پھر سلیمان کو سنہ 2017 میں ہسپتال میں دیے گئے وقت پر حاضر نہ ہونے کی وجہ سے سات سال کے لیے جیل میں واپس بلایا گیا اور آخری تین پرول سماعتوں میں رہا کرنے سے انکار کیا جاتا رہا ہے۔

ایمرسن نے کہا: ’وہ علاج نہیں کروانے والا ہے تو اس کی سزا جاری رہے گی۔ میرا یہ سوچ کر دم گھٹنے لگتا ہے کہ اس کا کوئی خاتمہ نہیں ہے۔‘

آئی پی پی کے تحت قید کیے جانے والوں کو نام نہاد آئی پی پی ایکشن پلان کے تحت اپنی پیرول کی سماعت کے لیے بحالی کے کورسز مکمل کرنے ہوتے ہیں۔

ایمرسن نے کہا کہ یہ ایکشن پلان ان کے شوہر کی ذہنی صحت کا ’استحصال‘ ہے۔

انھوں نے کہا کہ طویل انتظار کی وجہ سے عارضے میں مبتلا افراد کے لیے دو سالہ علاج کے پروگرام کو مکمل کرنے میں ناکامی کی وجہ سے انھیں رہائی سے انکار کیا جا رہا ہے۔

’اس نے جو کیا وہ غلط تھا‘

اسی طرح شان لائیڈ بھی ہیں جنھیں 18 سال کی عمر میں آئی پی پی کی سزا سنائی گئی تھی۔

کارڈف کی گلی میں موبائل فون چوری کرنے کے جرم میں انھیں دو سال اور نو ماہ کی جیل ہوئی تھی۔ لیکن انھوں نے نو سال کی سزا کاٹی اور اس کے بعد بھی ان کی مشروط رہائی ہوئی۔

سنہ 2014 کے بعد سے لائیڈ کو ہر 18 ماہ بعد جیل واپس بلایا جاتا رہا ہے اور ہر بار تقریباً ایک سال تک حراست میں رکھا جاتا ہے۔ وہ اس وقت بھی قید میں ہیں۔

ان کی والدہ شرلی ڈیبونو نے کہا: ’میں اسے درست نہیں ٹھہراتی جو اس نے کیا۔ اس نے جو کیا وہ غلط تھا اور جیل جانا درست تھا۔‘

لیکن اس کی آئی پی پی کے تحت دی جانے والی سزا کسی ’چور دروازے سے عمر قید کی سزا بن گئی ہے‘ جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے۔

ڈیبونو نے کہا کہ مسلسل نظربندی کی وجہ سے لائیڈ افسردہ رہنے لگا ہے اور اس میں خودکشی کی علامتیں ظاہر ہونے لگی ہیں اور وہ ڈاکٹر کی ہدایت پر دی جانے والی نشہ آور دوا اوپیئڈز کا عادی ہو گیا ہے۔

’اس کو نشے کی لت رہی ہے اور منشیات کے استعمال میں غلطیوں کی وجہ سے اسے واپس بلایا گیا ہے۔‘

مائیکل رابرٹس
،تصویر کا کیپشنمائیکل رابرٹس کے لیے یہ سزا ذرا زیادہ ہی ہے

’میں نے اپنے کیے کی قیمت چکا دی‘

اسی طرح مائیکل رابرٹس کو سنہ 2006 میں مسلح ڈکیتی کے جرم میں آئی پی پی کے تحت سزا سنائی گئی اور بتایا گیا کہ انھیں کم از کم ساڑھے تین سال قید کی سزا بھگتنی ہوگی۔ اس وقت ان کی عمر 33 سال تھی۔

ویل آف گلیمورگن کے بیری سے تعلق رکھنے والے رابرٹس کا کہنا ہے کہ انھیں پہلے ہی 134 جرائم کے لیے 24 بار سزائیں ہو چکی ہیں۔ انھیں قید کیے جانے کے پانچ سال بعد رہا کر دیا گیا۔

اس کے بعد سے انھیں سات سے 14 ماہ تک جاری رہنے والی قید کی سزاؤں کے لیے کم از کم پانچ بار جیل واپس بلایا گیا ہے۔

پہلی بار انھیں رہائی کے دو ماہ بعد بلایا گیا کیونکہ ان پر مزید الزامات لگے تھے لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ ان الزامات میں مجرم نہیں پائے گئے۔

وہ چھت بنانے کا کام کرتے ہیں اور مئی سے جیل سے باہر ہیں لیکن اس سے پہلے سات سال تک جیل سے باہر رہے تھے اور انھیں اس دوران واپس نہیں بلایا گیا تھا۔

جب انھیں جیل واپس بلایا گيا تو ان کے دو سب سے چھوٹے بچوں کو گود لیے جانے کے لیے رکھ دیا گیا۔ ان میں سے ایک 18 ماہ کا تھا جبکہ ایک سات سال کا۔ اب ان کا کہنا ہے کہ اس کے بعد سے ان کا اپنے بچوں کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے۔

ان کا ایک اور بچہ رضاعی دیکھ بھال میں ہے جبکہ وہ اپنے بڑے بچوں اور پوتے پوتیوں کے ساتھ رابطے میں ہے۔

رابرٹس نے تسلیم کیا کہ انھوں نے ایک سنگین جرم کیا تھا جس کے لیے ایک بڑی سزا کی ضرورت تھی اور یہ کہ ان کا پہلے سے ہی مجرمانہ پس منظر رہا ہے۔

انھوں نے کہا: ’میں نے ان لوگوں کے ساتھ جو کیا وہ برا تھا۔ ہمارا ان سے کوئی واسطہ نہیں تھا، ان لوگوں کے ساتھ ایسا کرنے کا مجھے کوئی حق نہیں تھا۔‘

’میں نے جو کیا کبھی اس کی توجیہ پیش نہیں کر سکتا۔ یہ ایک احمقانہ فیصلہ تھا۔۔۔ لیکن میں نے اپنے کیے کی قیمت چکا دی ہے۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا کہ آئی پی پی کی کچھ سزائیں ان افراد کے لیے جائز ہیں جن سے سماج کو خطرہ لاحق ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’کچھ سنگین خطرناک لوگ ہیں جو آئی پی پی کی سزاؤں کو درست ثابت کرتے ہیں۔‘

لیکن انھوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی آئی پی پی سزا نے انھیں اپنی زندگی میں آگے بڑھنے کو ناممکن بنا دیا ہے۔

رابرٹس نے کہا: ’میرے لیے اس کڑوی گولی کو نگلنا بہت مشکل ہے۔ اب میں 51 سال کا ہوں۔ میں ایک دادا ہوں۔ یہ میرے بچوں کی زندگیاں تباہ کر رہا ہے۔ میں انھیں واپس حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں۔‘

شرلی ڈیبونو
،تصویر کا کیپشنشرلی ڈیبونو کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے کی آئی پی پی سزا نے انھیں پریشان کر رکھا ہے

آئی پی پی کی سزا کیا ہے؟

آئی پی پی کی سزا 2005 میں متعارف کرائی گئی تھی۔ اس کے تحت سنگین مجرموں کو اس وقت تک جیل میں رکھا جانا تھا جب تک کہ وہ معاشرے کے لیے خطرہ ہیں۔

اس میں مجرموں کے لیے سزا کی کم از کم مدت مقرر کی گئی تھی لیکن زیادہ سے زیادہ یا آخری تاریخ طے نہیں کی گئی تھی۔

آئی پی پی قیدیوں کو صرف ضمانت پر رہا کیا جا سکتا ہے اور وہ بھی اس وقت جب پیرول بورڈ اس بات پر متفق ہوں کہ وہ عوامی تحفظ کے لیے خطرہ نہیں ہے۔

ان سزاؤں کو 2012 میں ختم کر دیا گیا لیکن سابقہ مجرموں کے معاملے میں اسے منسوخ نہیں کیا گیا۔

تقریباً دو تہائی (64 فیصد) ایسے قیدی ہیں جنھیں رہائی نہیں ملی ہے اگرچہ انھوں نے اپنی سزا کی مدت کاٹ لی ہے۔ اپنی سزا کے اختتام کے بعد بھی انھیں 10-10 سال تک قید میں رکھا گیا ہے۔

فوجداری مقدموں کے ماہرین اور مہم چلانے والوں نے اس قانون پر تنقید کی ہے اور لیبر پارٹی کے لارڈ بلنکٹ جنھوں نے سنہ 2005 میں آئی پی پیز متعارف کرایا تھا انھوں نے کہا ہے کہ اس میں بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے۔

2022 میں ایک کمیٹی نے سفارش کی تھی کہ تمام باقی ماندہ آئی پی پی قیدیوں کو پھر سے سزا سنائی جائے گی لیکن کہا کہ اس طرح کا کام ’انتظامی طور پر پیچیدہ‘ ہوگا اور اس پر عمل در آمد کے لیے مشورے کی ضرورت ہے۔

ایمرسن اور ڈیبونو آئی پی پی کی جانب سے پھر سے سزا دینے جانے کے خلاف مہم چلا رہی ہیں۔ اس مہم کی بنیاد ڈیبونو نے رکھی تھی۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ واقعی تکلیف دہ اور اذیت ناک ہے کہ میں چاہ کر بھی اس کی مدد کرنے سے بے بس ہوں۔‘