صحت

’فارمولا مِلک استعمال نہ کریں۔۔۔‘ بچوں کو ماں کا دودھ پلانے سے متعلق سات مفروضے

Share

بچوں کے لیے اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسف کا اندازہ ہے کہ ماؤں کی جانب سے بچوں کو غلط طریقے سے دودھ پلانا دنیا میں بچوں کی سالانہ اموات میں سے 16 فیصد کی وجہ ہے۔

عالمی ادارۂ صحت نے اس سلسلے میں دودھ پلانے والی ماؤں کے لیے بہتر سہولیات کا مطالبہ کیا ہے جن میں بچوں کو اپنا دودھ پلانے والی ماؤں کے لیے مددگار نظامِ صحت، ماؤں کو کہیں بھی اور کبھی بھی بچوں کو دودھ پلانے کی سہولت مہیا کرنے جیسی باتیں شامل ہیں۔

خیال رہے کہ صحت کے عالمی حکام کے مطابق جن بچوں کی مائیں انھیں اپنا دودھ نہیں پلاتیں ان میں ایک سال کی عمر سے پہلے موت کا خطرہ 14 گنا بڑھ جاتا ہے۔

دنیا بھر میں اگست کے پہلے ہفتے میں بریسٹ فیڈنگ کا ہفتہ منایا جاتا ہے اور 2024 کے لیے اس مہم کا مرکزی خیال ’کلوزنگ دا گیپ: بریسٹ فیڈنگ سپورٹ فار آل‘ ہے۔

تاہم بچوں کو ماں کا دودھ پلانے سے متعلق بہت سے غلط مفروضے موجود ہیں۔ یہ وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر بعض خواتین بچوں کو اپنا دودھ پلانے سے گریز کرتی ہیں۔

ان مفروضوں کی حقیقت جاننے کے لیے ہم نے طب کے شعبے کے دو ماہرین سے بات کی ہے، جن میں یونیورسٹی آف لیورپول کی کیٹریونا ویٹ اور یونیورسٹی کالج لندن کے پروفیسر الیسٹر سوٹکلف شامل ہیں۔

پہلا مفروضہ: کیا دودھ پلانے کے دوران نپل میں درد اور سوجن معمول ہے؟

پروفیسرویٹ کہتی ہیں کہ اس کا جواب دینا مشکل ہے کیونکہ ابتدا میں دودھ پلانے کے دوران تکلیف معمول کی بات ہے اور نپل میں سوجن ہو سکتی ہے۔

تاہم بچوں کو دودھ پلانے کے بعد ماؤں کو چھاتی میں ضرورت سے زیادہ درد یا سوجن نہیں ہونی چاہیے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ نپل میں انفیکشن ہے یا پھر بچہ اسے صحیح انداز میں پکڑ نہیں پا رہا۔

کچھ حد تک تکلیف معمول ہے اور پہلی بار کسی ماں کے لیے دودھ پلانے کی عادت اپنانے میں کچھ وقت ضرور لگتا ہے۔

تاہم اگر یہ بہت زیادہ درد اور تکلیف کا باعث بنتا ہے تو کسی تجربہ کار ڈاکٹر، نرس یا داعی سے رجوع کیا جانا چاہیے۔

برسیٹفیڈنگ

دوسرا مفروضہ: اگر کوئی فوراً اپنے بچے کو دودھ نہیں پلاتا تو وہ بعد میں اس کی صلاحیت کھو دیتا ہے

پروفیسر الیسٹر سوٹکلف کہتی ہیں کوئی بھی بات جو ماؤں کی بریسٹ فیڈنگ کے لیے حوصلہ افزائی کرتی ہے وہ کئی طریقوں سے انسانی صحت کے لیے اچھی ہے۔

انسانی رویے پر کسی قسم کی مصنوعی پابندی لگانا یا وقت کی کوئی سخت شرط رکھنا سائنس پر مبنی نہیں۔ لیکن بچے کی پیدائش کے فوراً بعد اسے چھاتی سے دودھ پلانے کے بہت سے فائدے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ بچے کو فوری غذائیت فراہم کرنا ہے۔

دوسرا یہ کہ اس سے بچہ دانی سکڑنے کا عمل بھی شروع ہوتا ہے جس سے بچے کی پیدائش کے بعد رحم سے خون کے اخراج کو روکنے میں بھی مدد ملتی ہے۔

بچے کی پیدائش کے بعد ابتدائی چند دنوں کے دوران ماں کا جسم ایک خاص پروٹین سے بھرپور مادہ کلوسٹرم پیدا کرتا ہے۔ اس سے بچوں کو دودھ پلانے کا سفر شروع ہونے میں مدد ملتی ہے۔

تیسرا مفروضہ: اگر آپ دودھ پلا رہے ہیں تو آپ کوئی دوا نہیں لے سکتے

پروفیسر ویٹ کا کہنا ہے عام طور پر یہ پہلا سوال ہے جو دنیا بھر میں ہونے والی ہر ماں کا ہوتا ہے۔ وہ پوچھتی ہیں کہ کیا میرے بچے کے لیے کوئی دوا لینا محفوظ رہے گا؟

اگر ماں کوئی دوا لیتی ہے تو اس کی بہت کم مقدار بچے تک پہنچتی ہے۔ اگر ڈاکٹر نے کہا ہے کہ آپ کو دوا لینے کی ضرورت ہے تو آپ ڈاکٹر سے پوچھ سکتے ہیں۔

لیکن عام طور پر ایسی دوائیں بچوں کے لیے نقصان دہ نہیں ہوتیں۔ بچے کو صحت مند ماں کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ انفیکشن، ڈپریشن، یا درد کے لیے زیادہ تر دوائیں بچوں کے لیے محفوظ ہیں۔

بہت کم دوائیں ہیں جو دودھ پلانے کے دوران نہیں لی جانی چاہییں۔ ان میں سے زیادہ تر دوائیں کینسر جیسی بعض سنگین بیماریوں کے علاج کے لیے دی جاتی ہیں۔

دودھ پلانے کے دوران بعض ادویات لینے سے قبل ان کے فوائد اور نقصانات کو سمجھنا چاہیے۔

اگر کسی عورت کو دودھ پلانے کے دوران کوئی دوا لینے کے لیے کہا گیا ہو تو اسے ڈاکٹر سے اس متعلق سوال پوچھنے کا حق ہے۔

ڈاکٹر سے پوچھے بغیر لی جانے والی ادویات سے متعلق خیال رکھنا چاہیے۔ بخار اور فلو کی ادویات میں ایسی چیزیں ہوتی ہیں جن سے دودھ کا اخراج کم ہوسکتا ہے۔

ہربل ادویات کے بارے میں بھی محتاط رہنا چاہیے جن کے بارے میں یہ معلوم نہیں کہ ان میں کیا ہے۔ بعض پر مکمل تحقیق نہیں ہوئی ہوتی۔

برسیٹفیڈنگ

چوتھا مفروضہ: دودھ پلانے سے پہلے آپ کو صرف سادہ کھانا کھانا چاہیے اور مسالہ دار کھانے سے پرہیز کرنا چاہیے

پروفیسر ویٹ کا کہنا ہے کہ ایسی کوئی چیز نہیں ہے جسے آپ اپنے بچے کو دودھ پلانے سے پہلے نہیں کھا سکتے۔ تاہم آپ جو کھانا کھاتے ہیں وہ آپ کے دودھ کو بھی متاثر کرتا ہے۔

بہت سے معاملات میں مائیں رجحان کو بھانپ سکتی ہے۔ اپنے ایک بچے کو دودھ پلانے کے دوران میں نے مشاہدہ کیا کہ جب بھی میں کھٹے جوس پیتی تو میرا بچہ پریشان رہتا۔

کئی بار آپ دیکھ سکتے ہیں کہ آپ کا بچہ ایک خاص قسم کا کھانا کھانے کے بعد عجیب و غریب سلوک کرتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس کا تعلق آپ کے کھانے پینے سے ہو۔

لیکن دودھ پلانے کے دوران ایسی کوئی خوراک نہیں ہے جس سے پرہیز کیا جانا چاہیے۔ ورنہ یہ آپ کے بچے کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

پانچواں مفروضہ: اگر آپ بچے کو ماں کا دودھ پلانا چاہتے ہیں تو کبھی فارمولا مِلک استعمال نہ کریں

پروفیسر ویٹ کا اس بارے میں کہنا ہے کہ یہ کوئی اصول نہیں ہے جس پر عمل کیا جائے۔ لیکن چھاتی میں دودھ عام طور پر طلب اور رسد کے مطابق بنتا ہے۔ ہر عورت کے جسم کی خاصیت ہے کہ یہ اپنے بچے کی ضرورت کے لیے کافی دودھ پیدا کرسکتا ہے۔

جب بچہ نپل کو چوستا ہے تو ماں کے جسم سے ہارمونز خارج ہوتے ہیں جو بچے کے لیے درکار دودھ پیدا کرتے ہیں۔ اس لیے یہاں تک کہ اگر آپ بہت چھوٹے بچے کو دودھ پلائیں، بڑے بچے کو دودھ پلائیں یا جڑواں بچے ہوں، تب بھی آپ کا جسم ضرورت کے مطابق دودھ ہی پیدا کرے گا۔

اگر آپ بچوں کو فارمولا مِلک دینا شروع کرتے ہیں تو آپ کے جسم کو ملنے والے ہارمونز کے سگنلز میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ آپ کے جسم کو یہ اشارہ نہیں ملتا کہ آپ کے بچے کو زیادہ دودھ کی ضرورت ہے۔

اگر آپ بریسٹ فیڈنگ کے دوران کم دودھ کی وجہ سے فارمولا مِلک پلانا شروع کرتے ہیں تو اس سے قلیل مدتی آسانی ضرور پیدا ہوتی ہے لیکن بعد میں مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

دوسری طرف اگر آپ رات کو ٹھیک سے سو نہیں پائے یا آپ تھکے ہوئے ہیں یا بیمار ہیں اور آپ کا پارٹنر بچے کو فارمولا مِلک پلاتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ میں بریسٹ فیڈنگ کی صلاحیت نہیں رہے گی۔

تو یہ کوئی اصول نہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ فارمولا مِلک سے کوئی مدد نہیں ملتی۔

بریسٹفیڈنگ

چھٹا مفروضہ: اگر آپ بیمار ہیں تو آپ کو اپنے بچے کو دودھ نہیں پلانا چاہیے

پروفیسر سٹکلف کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ یہ ایک افسانہ ہے۔ صرف ایک ہی صورت حال ہے جس میں ایک ماں اپنے بچے کو دودھ نہیں پلا سکتی اور وہ ہے جب وہ ایچ آئی وی یا ہیپاٹائٹس سے متاثرہ ہوں۔ وائرس دودھ کے ذریعے بچے تک پہنچ سکتا ہے۔

اکثر بیماریوں کے دوران بچوں کو ماں کا دودھ پلانے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ بیماری کے دوران ماں کے جسم سے اینٹی باڈیز خارج ہوتی ہیں جو اس کے نوزائیدہ بچوں کی حفاظت بھی کرتی ہیں۔ ایسا شاید ہی کبھی ہوا ہو کہ ماں کی بیماری بچوں کو لگتی ہو۔

ساتواں مفروضہ: اگر آپ ایک سال سے زیادہ دودھ پلاتے ہیں تو آپ کے بچے کو عادت چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے

برسیٹفیڈنگ

پروفیسر ویٹ کا کہنا ہے کہ ڈبلیو ایچ او تجویز کرتی ہے کہ پیدائش کے بعد چھ ماہ تک بچوں کو خصوصی طور پر ماں کا دودھ پلایا جائے۔

اس کے بعد اسے دیگر غذائی اجزا دینا شروع کر دینا چاہیے۔ لیکن اس دوران ماں جب تک چاہے اپنے بچے کو دودھ پلاتی رہے۔ دودھ پلانا کب روکنا ہے اس کے بارے میں کوئی ماہرانہ مشورہ نہیں ہے۔

برطانیہ جیسے زیادہ آمدن والے ممالک میں اکثر بچوں کو ایک سے دو سال کی عمر کے درمیان ماں کا دودھ چھڑایا جاتا ہے۔ جبکہ یوگنڈا جیسے دیگر کم آمدنی والے ممالک میں مائیں اپنے بچوں کو تین، تین سال تک اپنا دودھ پلاتی رہتی ہیں۔

ایک عالمی مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے ممالک زچگی کی اتنی چھٹی فراہم نہیں کرتے ہیں کہ وہ ماؤں کو اپنے بچوں کو خصوصی طور پر دودھ پلانے کی اجازت دے سکیں، جیسا کہ ڈبلیو ایچ او نے تجویز کیا ہے۔