دنیابھرسے

ایران:ملک کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای آٹھ سال بعد نمازِ جمعہ کی امامت کریں گے

Share

ایران میں توقع کی جارہی ہے کہ ملک کے روحانی پیشوا آیت اللہ علی خامنہ ای آج دارالحکومت تہران کی ایک مسجد میں جمعے کی نماز کی خود امامت کریں گے۔ گذشتہ آٹھ سالوں میں یہ پہلا موقع ہوگا کہ آیت اللہ علی خامنہ ای جمعے کی نماز کا خطبہ خود دیں گے۔

یاد رہے کہ ایرانی فوج کی جانب سے گذشتہ ہفتے ایک مسافر بردار یوکرینی طیارے کو غلطی سے مار گرائے جانے کے بعد ملک میں بڑے پیمانے پر مظاہرے جاری ہیں۔

ایرانی قیادت پر دباؤ ہے کہ وہ امریکی پابندیوں کے نتیجے میں ملک کی معیشت کی بگڑتی صورتحال سے کیسے نمٹ رہے ہیں۔

بدھ کے روز صدر روحانی نے قومی اتحاد کے لیے اپیل کی تھی۔

تاہم ایرانی قیادت میں ایک انتہائی غیر عمومی شگاف کی علامت اس وقت دیکھنے کو ملی جب صدر روحانی نے فوج سے کہا کہ وہ طیارہ گرائے جانے کے بارے میں مکمل تفصیلات فراہم کریں۔

یاد رہے کہ آٹھ جنوری کو تہران ایئر پورٹ سے پرواز بھرنے کے آٹھ ہی منٹ بعد یوکرینی طیارہ، جس کی منزل یوکرین کا دارالحکومت کیئو تھی’ زمین پر آن گِرا تھا۔ اس حادثے میں طیارے پر سوار تمام 176 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

ایران

ابتدا میں ایران نے طیارہ گرائے جانے میں ملوث ہونے سے انکار کیا تھا تاہم 11 جنوری کو ایران نے اعتراف کرتے ہوئے اسے ‘انسانی غلطی’ قرار دیا تھا۔

منگل کو سرکاری ترجمان غلام حسین اسماعیل نے بتایا کہ ان افراد کو یوکرینی طیارے کو گرانے کے حوالے سے تحقیقات کے سلسلے میں حراست میں لیا گیا ہے۔ تاہم انھوں نے مزید تفصیلات دینے سے گریز کیا۔

اس طیارے کے گرنے کی اطلاعات سے کچھ دیر قبل ایران نے جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے جوابی کارروائی کے طور پر عراق میں موجود دو امریکی فوجی اڈوں پر میزائل داغنے شروع کیے تھے۔

آٹھ سال بعد آیت اللہ خامنہ ای کی نمازِ جمعہ کی امامت

ایران کی نیوز ایجنسی مہر نیوز کے مطابق 2012 کے بعد پہلے مرتبہ آج 80 سالہ آیت اللہ علی خامنہ ای تہران کی موسالہ مسجد میں جمعے کی نماز پڑھائیں گے۔ تاہم نیوز ایجنسی نے ملک کے رہبرِ اعلیٰ کے اس اقدام کو موجودہ صورتحال سے نہیں جوڑا۔

ایران
تہران کی موسالہ مسجد

نیوز ایجنسی نے ایرانی حکام کے حوالے سے کہا کہ ’ایرانی قوم ایک مرتبہ پھر اپنا اتحاد اور عظمی کا مظاہرہ کرے گی۔‘

آخری مرتبہ جب آیت اللہ خامنہ ای نے نماز جمعہ کی امامت کی تھی تب 2012 میں ایران میں اسلامی انقلاب کو 33 سال مکمل ہوگئے تھے۔

واشنگٹن انسٹیٹیوٹ کے مہدی خلجی کہتے ہیں کہ جمعے کی نماز کی امامت علامتی طور پر ان مواقع کے لیے مخصوص کی گئی ہے جب ملک کی اعلیٰ ترین قیادت نے کوئی اہم پیغام دینا ہو۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ تاریخی طور پر ایرانی رہنما یہ کام اپنے وفادار مذہبی رہنمائوں کو سونپتے ہیں۔

ایرانی حکام نے جب سے یوکرینی ایئرلائن کے طیارہ کو ‘نادانستہ طور پر’ مار گرانے کا اعتراف کیا ہے، تب سے ایران کے دارالحکومت تہران اور دیگر شہروں میں حکومت مخالف مظاہرے دیکھنے میں آئے ہیں۔

یوکرینی طیارے پر مبینہ ایرانی میزائل حملے کی فوٹیج

ان مظاہروں میں چند مظاہرین ایران کی اعلیٰ قیادت کے خلاف نعرے لگاتے بھی دکھائی دیے۔

فی الحال یہ مظاہرے تہران اور اصفہان کی سڑکوں تک ہی محدود ہیں اور ان میں یونیورسٹی کے طلبا کی بڑی تعداد شامل ہے اور ساتھ ہی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ایسے افراد بھی جنھیں طیارے کے حادثے میں ہونے والی ہلاکتوں پر غصہ ہے۔

اس طیارے میں 100 سے زائد ایرانی شہری بھی موجود تھے اور ایرانی حکومت لگاتار تین روز تک اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کرتی رہی۔ ہلاک ہونے والوں کی آخری رسومات کے سوشل میڈیا پر مناظر کی وجہ سے ملک میں شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا ہے۔

یہ مظاہرین حکام کی جانب سے آغاز میں سچ نہ بتانے کی مذمت کر رہے ہیں لیکن ان مظاہروں میں ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای مخالف نعرے بھی سننے میں آئے ہیں۔

’بظاہر خامنہ ای ایرانی فوج کا دفاع کرنا چاہتے ہیں‘

بی بی سی فارسی کے کسرا ناجی کا تجزیہ

آخری مرتبہ جب ایران کے رہبرِ اعلیٰ نے تہران میں جمعے کی نماز پڑھائی تھی تو عرب سپرنگ اپنے عروج پر تھا۔

اس موقعے پر انھوں نے عربی میں خطبہ دیا یعنی ایک ایسا خطبہ جسے عرب دنیا بھی بھی سمجھا جا سکے۔ وہ عرب دنیا کی اس وقت کی صورتحال کو اسلامی دنیا میں شعور کی آمد کے طور پر بیان کرنا چاہتے تھے۔ ان کا تجزیہ غلط تھا۔

اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آیت اللہ خامنہ ای ایران کے پاسدارانِ انقلاب کا دفاع کرنا چاہتے ہیں جن پر یوکرینی طیارے کو گرائے جانے اور پھر کئی روز تک اس کا انکار کرنے کے حوالے سے شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ اس بات کا بھی اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے وہ طلبہ اور مظاہرین پر مزید کریک ڈاؤن کا حکم نہ دے دیں۔

حکام نے جمعے کے روز پاسدارانِ انقلاب کی حمایت میں ریاستی طور پر ملک گیر مارچوں کی کال دے رکھی ہے۔ تہران میں اس سلسلے میں تیاریاں جاری ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ حامیوں کو سڑکوں پر لا کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا جا سکے۔