جیف بیزوس ہیک: اقوام متحدہ کے ماہرین کا مطالبہ ہے کہ محمد بن سلمان سے تفتیش ہونی چاہیے
اقوام متحدہ سے منسلک انسانی حقوق کے ماہرین نے مطالبہ کیا ہے کہ ایمازون کے سربراہ جیف بیزوس کا فون ہیک ہونے کے معاملے میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پر لگنے والے الزامات کی فوری تفتیش ہونی چاہیے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ محمد بن سلمان سے یہ بھی پوچھا جانا چاہیے کہ وہ ’مسلسل، ذاتی سطح پر ان لوگوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کیوں کرتے رہے جنہیں وہ اپنا دشمن گردانتے تھے۔‘
اطلاعات کے مطابق محمد بن سلمان کے زیر استعمال فون نمبر سے بھیجے گئے ایک پیغام کے ذریعے بیزوس کے فون میں موجود ڈیٹا تک رسائی حاصل کی گئی تھی۔
امریکہ میں سعودی سفارتخانے سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ فون ہیک کرنے کی خبریں ’نامعقول‘ ہیں اور اس معاملے کی تحقیقات ہونی چاہیں۔
تاہم ذاتی حیثیت میں اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ بیزوس کے فون ہیکنگ کے معاملے میں سعودی ولی عہد کے ’ممکنہ کردار‘ کی بہرحال تفتیش ضروری ہے۔ اقوام متحدہ سے منسلک جن ماہرین نے یہ مطالبہ کیا ہے ان میں اینگس کیلامارڈ اور ڈیوڈ کائے شامل ہیں، جو بالترتیب سزائے موت و ماورائے عدالت قتل اور آزادی اظہار کے معاملات میں اقوام متحدہ کی معاونت کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ماہرین نے کیا کہا؟
ایک بیان میں اینگس کیلامارڈ اور مسٹر کائے کا کہنا تھا کہ ‘جو معلومات ہمیں ملی ہیں وہ مسٹر بیزوس کی نگرانی کرنے میں ولی عہد کے ملوث ہونے کی جانب اشارہ کرتی ہیں تاکہ سعودی عرب کے بارے میں اخبار واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹنگ کو اگر مکمل طور پر بند نہیں بھی کرایا جا سکے تو کم از کم اِس پر اثر ڈالا جا سکے۔’
ماہرین اِس کیس کو صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے بھی جوڑتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ واشنگٹن پوسٹ کے رپورٹر خاشقجی اور مسٹر بیزوس کے فون ایک ہی وقت میں ہیک کیے گئے۔
ماہرین کے مطابق مسٹر بیزوس اور ایمازون کے خلاف بڑے پیمانے پر ایک ’خفیہ آن لائن مہم چلائی گئی جس میں مسٹر بیزوس کو واشنگٹن پوسٹ کے مالک کے طور پر نشانہ بنایا گیا‘۔
بیان میں جاسوسی کے لیے استعمال ہونے والے سافٹ ویئر یعنی سپائی ویئر کی بلا روک ٹوک مارکٹنگ اور فروخت پر ’سخت کنٹرول‘ کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
مبینہ ہیکنگ کس طرح ہوئی؟
اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے بتایا کہ ’سنہ 2019 میں مسٹر بیزوس کے آئی فون کے فورنزک معائنے سے بڑی حد تک یہ سامنے آیا کہ ایک ایم پی 4 ویڈیو فائل کے ذریعے پہلی مئی سنہ 2018 کو اُن کا فون ہیک کیا گیا تھا۔ یہ ویڈیو فائل جس واٹس ایپ اکاؤنٹ سے بھیجی گئی تھی وہ شہزادہ محمد بن سلمان کے ذاتی استعمال میں تھا‘۔
اطلاعات کے مطابق ولی عہد محمد بن سلمان اور مسٹر بیزوس نے ایک مہینے پہلے ہی ایک دوسرے کو اپنے فون نمبر دیے تھے۔ ایم پی 4 ویڈیو فائل کے آنے کے چند گھنٹوں کے بعد ہی ’مسٹر بیزوس کے فون سے بڑے پیمانے پر ڈیٹا منتقل ہونا شروع ہو گیا‘۔
مسٹر بیزوز کے فون کا فورنزک معائنہ کرنے والے ماہرین کے مطابق ‘محمد بن سلمان نے اس کے بعد مسٹر بیزوس کو واٹس ایپ پر پیغامات بھیجے جس میں مبینہ طور پر انھوں نے مسٹر بیزوس کی ذاتی زندگی سے متعلق ایسی معلومات پر بات کی جو خفیہ تھیں۔’
اس کے بعد جیف بیزوس کی ذاتی معلومات امریکی ٹیبلائڈ اخبار دی نیشنل انکوائرر کو لیک کی گئیں۔
گذشتہ برس فروری میں دی نیشنل انکوائرر نے بیزوس اور ان کی سابق گرل فرینڈ لورن سانچیز کے درمیان بھیجے گئے ذاتی پیغامات شائع کر دیے تھے جس کے بعد جیف بیزوس نے ٹیبلائڈ پر ان سے ’بھتہ لینے‘ اور انھیں ’بلیک میل‘ کرنے کا الزام لگایا۔
اس سے ایک ماہ قبل ہی انھوں نے اپنی اہلیہ مکینزی بیزوس سے کافی عرصے علیحدہ رہنے کے بعد طلاق لی تھی۔
سعودی عرب کا ردعمل؟
یاد رہے کہ سعودی عرب اور مسٹر بیزوس کے درمیان تعلقات اس وقت خراب ہو گئے تھے جب معروف سعودی صحافی جمال خاشقجی کو ترکی میں قتل کر دیا گیا تھا۔ ایمازون کے علاوہ مسٹر بیزوس امریکی اخبار واشگنٹن پوسٹ کے مالک بھی ہیں جس کے لیے جمال خاشقجی کام کرتے تھے۔
اقوام متحدہ کے ماہرین کے اس مطالبے سے قبل سعودی عرب نے اس خبر کی تردید کر دی تھی کہ جیف بیزوس کا فون ہیک کرنے کی ذمہ داری سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پر عائد کی گئی ہے۔
امریکہ میں سعودی سفارتخانے کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جاری ہونے والے ایک بیان میں اس خبر کی تردید کی گئی اور ان الزامات پر تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ سعودی عرب پر ایمازون کے سربراہ کا فون ہیک کرنے کا الزام لگایا گیا ہو۔