برطانیہ: کنوارپن کی سرجری پر پابندی لگانے کا مطالبہ
خواتین کے حقوق کے لیے مہم چلانے والے کارکنان نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ ‘کنوارپن واپس دلانے والے’ آپریشن پر پابندی لگائے۔
کئی مسلمان خواتین کو خطرہ ہے کہ اگر ان کے شوہر یا خاندان والوں کو پتا چل گیا کہ انھوں نے شادی سے پہلے جنسی تعلق قائم کیا ہے تو خاندان والے ان سے لاتعلق ہو جائیں گے یا شاید انھیں قتل بھی کر دیا جائے گا۔
اس لیے کچھ خواتین ایک ایسے طبی عمل کا سہارا لیتی ہیں جس میں ڈاکٹرز ان کے وجائنا یا اندام نہانی کی ایک جھلی کی پرت کو واپس لگا دیتے ہیں۔
لیکن خیال کیا جا رہا ہے کہ اس پابندی کے پیشِ نظر مسلم خواتین کو لاحق خطرات میں اضافہ ہو گا اور وہ یہ عمل غیرقانونی طور پر کروائیں گی۔
‘خوف میں رہنے والی خواتین’
مِڈل ایسٹرن ویمن اینڈ سوسائٹی آرگنائزیشن کی بانی حلالہ طاہری نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ مراکش کی ایک طالبعلم لندن میں چھپی ہوئی ہے کیونکہ اسے بتایا گیا ہے کہ اس کے والد نے کسی کو اس کا قتل کرنے کے لیے کہا ہے۔
سنہ 2014 میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے برطانیہ آنے والی خاتون جو اب 26 سال کی ہیں، ایک شخص سے ملیں اور ان کے ساتھ رہنا شروع کر دیا۔
لیکن جب ان کے والد کو ان کے رشتے کا علم ہوا تو انھیں مراکش واپس بلایا گیا اور ایک کلینک لے جا کر ان کا کنوارپن کا ٹیسٹ کروایا گیا۔ ٹیسٹ سے پتا چلا کہ ان کا پردہ بکارت ہٹ چکا تھا۔
وہ بھاگ کر لندن واپس آ گئیں لیکن اب وہ مستقل خوف میں رہتی ہیں کہ کہیں ان کے والد کو پتا نہ چل جائے کہ وہ کہاں رہتی ہیں۔
مراکش میں پیدا ہونے والی ایک اسسٹنٹ ٹیچر نے بی بی سی کو بتایا کہ جب وہ 20 کے پیٹے میں تھیں تو انھیں اسی عمل سے گزرنا پڑا اور اب وہ اپنے بچوں پر اس عمل سے گزرنے کا دباؤ ڈالنے کا سوچ بھی نہیں سکتیں۔
‘میں ان کے ساتھ ایسا کرنے کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتی۔ میں انھیں آزاد ہونا سکھاتی ہوں۔’
سہاگ رات
برطانیہ میں اس وقت کم از کم 22 ایسے نجی کلینک ہیں جو پردہ بکارت ٹھیک کرنے کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔
ایک گھنٹے تک چلنے والی اس سرجری کے لیے 3000 پاؤنڈز وصول کیے جاتے ہیں۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ایسے کلینک مسلمان خواتین کے ڈر کا فائدہ اٹھا رہے ہیں جنھیں یہ خدشہ ہوتا ہے کہ اگر وہ اپنی سہاگ رات کے لیے ‘پاکیزہ’ نہیں ہوں گی تو ان کے ساتھ کیا ہو گا۔
بہت سے کلینک اپنی ویب سائٹس پر اس عمل کی وضاحت کرتے ہیں اور لندن گائنی کلینک اپنی ویب سائٹ پر آنے والی خواتین کو بتاتا ہے کہ ‘کچھ شادیاں ٹوٹ جاتی ہیں’ جب ایک شوہر کو پتا چلتا ہے کہ اس کی بیوی کا پردہ بکارت نہیں ہے۔
بی بی سی نیوز نے کمینٹ کے لیے کلینک سے رابطہ کیا مگر کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
‘خوفناک روایت’
صحت سیکرٹری میٹ ہین کاک کہتے ہیں کہ وہ اس خوفناک عمل کو ختم کرنے کے طریقے تلاش کر رہے ہیں لیکن محکمہ صحت نے اس بات پر کمینٹ کرنے سے انکار کر دیا ہے کہ یہ ممکنہ پابندی عائد کیسے کی جائے گی۔
طاہری کہتی ہیں کہ ‘اگر اس عمل پر پابندی مکمل احتیاط کے بغیر لگائی گئی تو لڑکیوں کی جان جا سکتی ہے۔’
سرجری کا عمل دیکھنے والے ڈاکٹر خالد خان لندن سکول آف میڈیسن میں پروفیسر ہیں اور ان کے مطابق یہ پابندی ‘مناسب جواب نہیں ہے۔’
مریضوں کو ‘اچھی قسم کی معلومات’ فراہم کی جائیں تو یہ فیصلہ ایک عورت پر چھوڑا جا سکتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا ‘میرا ماننا ہے کہ ڈاکٹر واقعی چاہتے ہیں کہ بدسلوکی سے تحفظ فراہم کیا جائے۔’
‘کوئی فائدہ نہیں’
تاہم، ڈاکٹر نایومی کراؤچ پریشان ہیں کہ اس عمل میں دھکیل دی جانے والی لڑکیوں اور خواتین کو اس سرجری سے کوئی طبی فائدہ نہیں ہوتا۔
وہ کہتی ہیں ‘ڈاکٹروں کے فرائض جنرل میڈیکل کونسل کی طرف سے متعین کیے گئے معیار میں واضع کی گئی ہیں۔’
‘بطور طبی ماہر ہم یہ حلف اٹھاتے ہیں کہ ہم کسی مریض کو نقصان نہ پہنچائیں اور کوئی بھی سروس جو اس قسم کے عمل کر رہی ہو، اس کا آڈٹ اور جانچ پڑتال ہونی چاہیے۔’
جنرل میڈیکل کونسل میں میڈیکل ڈائریکٹر کولن میلوِل کہتے ہیں کہ یہ ضروری ہے کہ ڈاکٹرز اپنے مریضوں کو لاحق خطرات اور نفسیاتی ضروریات کو مدِنظر رکھیں۔
وہ کہتے ہیں ‘اگر کسی مریض پر دباؤ ہو کہ وہ خاص قسم کا راستہ چنے تو شاید ان کی اجازت اس میں شامل نہ ہو۔ اگر ایک ڈاکٹر کو محسوس ہو کہ ایک بچے یا نوجوان شخص کو ایک کاسمیٹک سرجری کی ضرورت نہیں ہے تو ایسا عمل نہیں کرنا چاہیے۔’
برطانیہ میں ہر قسم کے خاندانی پسِ منظر سے تعلق رکھنے والی نوجوان لڑکیوں میں لیبیا پلاسٹی یعنی اندام نہانی کے باہری حصے کا سائز اپنی مرضی سے ٹھیک یا چھوٹا کرنے کا عمل خاصا مقبول ہو گیا ہے۔
مہم چلانے والے افراد کا کہنا ہے کہ ایسے جراحی عمل کے لمبے دورانیے میں ہونے والے نتائج کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں اور انھیں تشویش ہے کہ اس قسم کی سرجری سے پہلے خواتین کو زیادہ نفسیانی حمایت نہیں فراہم کی جاتی۔
طاہری کہتی ہیں کہ ‘کسی حد تک یہ خواتین خود کو انسان کی بجائے ایک ایسی چیز سمجھتی ہیں جس کی طلب ہو۔’
‘مسلمانوں خواتین کے لیے سرجری کروانے کی وجہ شرم کا احساس اور سزا کا ڈر ہے۔’
‘باقی خواتین کے لیے بڑی وجہ اپنے جسم سے خوش نہ ہونا ہے کیونکہ معاشرہ انھیں بتاتا ہے کہ کیا نارمل ہے اور کیا نہیں۔’