’اگر کوئی ملک کا قانون توڑے گا تو گرفتار کیا جائے گا‘
پی ٹی ایم کے رہنماؤں کی گرفتاریوں پر وزیر داخلہ اعجاز شاہ کا انٹرویو: ’اگر کوئی ملک کا قانون توڑے گا تو انھیں گرفتار کیا جائے گا‘
پاکستان کے وفاقی وزیر برائے داخلہ اعجاز شاہ نے کہا ہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ سے مذاکرات اپنی جگہ لیکن ’اگر کوئی ملک کا قانون توڑے گا تو انھیں گرفتار کیا جائے گا‘۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ’وہ پاکستانی شہری ہیں انھوں نے ملک کا قانون توڑا ہے۔ اسی لیے ان کو گرفتار کیا گیا ہے۔ جہاں تک پشتونوں کی بات ہے، پشتون اس حکومت کے ساتھ ہیں۔‘
خیال رہے کہ گذشتہ دو روز سے پی ٹی ایم کے رہنما منظور پشتین کی گرفتاری اور ان کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کے نتیجے میں پی ٹی ایم کے رہنماؤں کی گرفتاریاں زیرِ بحث ہیں۔
منظور پشتین کو پشاور کے علاقے تہکال سے ملک کے خلاف تقریریں کرنے کے الزام میں اپنی تحریک کے دیگر ساتھیوں سمیت گرفتار کیا گیا۔ منظور پشتین کی گرفتاری کی یہ ایف آئی آر ڈیرہ اسماعیل خان میں درج کی گئی ہے۔
پولیس کی جانب سے درج کی گئی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ’منظور پشتین نے 18 جنوری کو ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے آئین کو ماننے سے انکار کیا اور ریاست کے بارے میں توہین آمیز الفاظ استعمال کیے ہیں۔‘
اس بارے میں اعجاز شاہ نے کہا کہ ’اگر آپ ملک کا قانون توڑیں گے، تو آپ کو گرفتار کیا جائے گا۔ انھوں نے ملک کا قانون توڑا ہوگا تبھی اُن کو گرفتار کیا گیا ہے۔‘
پی ٹی ایم سے مذاکرات
یاد رہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما کئی بار حکومت کے ساتھ اور حکومت کی طرف سے بنائے گئے جرگوں میں مذاکرات کرنے کے لیے آمنے سامنے بیٹھے ہیں۔ اب تک اس حوالے سے سال 2018 اور 2019 میں کئی بار ملاقاتیں کی گئی ہیں لیکن اس کے باوجود دونوں فریقین کسی بات پر متفق نہیں نظر آتے۔
مذاکرات کی بات پر وفاقی وزیر برائے داخلہ نے کہا کہ ’وزیرِ اعظم عمران خان کا مؤقف ہے کہ اگر آپ کسی چیز کا حل چاہتے ہیں تو ٹیبل پر آئیں۔ جنگ سے، لڑائی سے کوئی چیز حل نہیں ہوتی۔ اور یہ ملک کے لیے، قبائل کے لیے اور برادری کے لیے اچھا ہے۔‘
پاکستان کے پشتونوں کی بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’جہاں تک بات ہے پشتونوں کی۔ تو ہماری جماعت کی دو تہائی اکثریت ہے۔ عمران خان پشتونوں اور قبائلی علاقوں میں اپنے ضلعے سے زیادہ مشہور ہیں۔ جو انھوں نے سابق قبائلی علاقوں کے انضمام اور پشتونوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے بارے میں کیا ہے وہ کسی اور سیاسی رہنما نے نہیں کیا۔ تو رہنما کون ہوا پشتین یا عمران خان؟‘
لیکن جب اُن سے پوچھا گیا کہ اب تک پی ٹی ایم پُرامن طریقے سے ملک بھر میں احتجاج کرتی آئی ہے۔ اور جب اُن سے مذاکرات کی باتیں ہو ہی رہی ہیں تو ان سے ٹیبل پر بات کیوں نہیں کی جاتی؟
اس پر اعجاز شاہ نے کہا ’ٹیبل پر بھی بات ہو رہی ہے۔ اب میں آپ سے ٹیبل پر بات کررہا ہوں، آپ جا کر ایک آدمی کا قتل کر آئیں یا کوئی جرم کرلیں۔ تو اس کا کیا مطلب ہوا کہ آپ مجھ سے بات کر رہی ہیں، تو میں آپ کو پکڑوں ہی نہیں؟ قانون ساز اداروں کو اپنا کام کرنا ہوتا ہے۔ جو بات کرنے والے ہیں وہ کر رہے ہیں۔ اگر وہ غلط کام کریں گے تو پکڑے جائیں گے۔‘
انھوں نے ایک سوال کے جواب میں اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’میں یہ نہیں کہہ رہا خدانخواستہ کہ انھوں نے کسی کا قتل کیا ہے۔ میں مثال دے رہا ہوں۔
اُن کے خلاف ڈیرہ اسماعیل خان میں مقدمہ درج ہوا ہے جس کے بعد اُن کو گرفتار کیا گیا ہے۔۔۔ کل پرسوں جو اُن کے دوسرے رکنِ قومی اسمبلی ہیں، وہ بہت اچھے انسان ہیں، وہ ملک اور اداروں کے خلاف غلط الفاظ استعمال کررہے تھے۔ اور اُن کو پکڑ لیا گیا، یہ کل کی بات ہے۔‘
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’احتجاج کرنے کا مہذب طریقہ بھی ہے۔ لیکن یہ طریقہ غلط ہے۔ وہ غلط طریقے سے احتجاج کر رہے تھے۔ عدالتیں آزاد ہیں۔۔۔ عدالتیں مقدمے کا فیصلہ کریں گی۔‘
منظور پشتین اور دیگر رہنماؤں کی گرفتاریاں
محسن داوڑ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ منظور پشتین کی گرفتاری ’بنوں میں ہونے والے حالیہ جلسے سے منسلک ہے۔ اس جلسے میں منظور نے ایک پشتون جرگے کے قیام کا اعلان اور پشتونوں کے اتحاد کی بات کی تھی۔‘
منگل کی شب رکن قومی اسمبلی اور پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما محسن داوڑ کو چند گھنٹے کی گرفتاری کے بعد رہا کر دیا گیا تھا۔
محسن داوڑ کو اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ اسلام آباد میں پریس کلب کے سامنے منظور پشتین کی گرفتاری کے خلاف احتجاجی مظاہرے میں حصہ لے رہے تھے۔
رہائی کے بعد سماجی ٹوئٹر پر سلسلہ وار ٹویٹس میں محسن داروڑ کا کہنا تھا کہ منظور پشتین کی گرفتاری کے خلاف دنیا بھر میں ہونے والے پی ٹی ایم کے مظاہروں میں ایک بھی پُرتشدد واقعہ سامنے نہیں آیا۔
‘میں نے اسلام آباد میں ہونے والے احتجاج میں شرکت کی اور یہاں کے مظاہرین دوسرے مقامات کی طرح پر امن تھے۔’
‘تاہم ریاست نے ایک بار پھر ہمیں یاد دلایا کہ ان کے نزدیک ہمارے حقوق کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ انھوں نے تو ہماری گرفتاریوں کے لیے ٹھوس بنیاد پیدا کرنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی۔’
ان کا کہنا تھا ‘پی ٹی ایم اور اے این پی کے کارکنان کے ساتھ انھیں گھسیٹ کر لیجایا گیا۔’
محسن داوڑ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ‘ہماری آزادی سلب کی جا رہی ہے اس لیے اب چپ نہیں رہا جا سکتا۔’
انھوں نے بتایا کہ مظاہرین میں سے کچھ اب بھی جیل میں ہیں۔ ‘ہم کل تک انتظار کریں گے تاکہ اس بات کا اندازہ لگا سکیں کہ ابھی کتنے لوگ جیل میں ہیں۔ اس کے بعد ہم تب تک احتجاج کریں گے جب تک سب رہا نہیں ہو جاتے۔’
اس سے پہلے پشاور کی عدالت نے پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما منظور پشتین کی عارضی ضمانت کی درخواست خارج کرتے ہوئے انھیں ڈیرہ اسماعیل خان کی عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔