رواں تبصرے

ابھرتا منظر نامہ

Share

پاک فوج چند معاملات کے متعلق بہت حساس واقع ہوئی ہے۔ یوں سمجھ لیں۔ ایک سپاہی سے لے کر حوالدار تک اور ایک سیکنڈ لیفٹیننٹ سے لے کر لیفٹیننٹ جنرل تک آرمی کے جتنے بھی چھوٹے بڑے عہدے ہیں۔ وہ سب کے سب ذہنی طور پر ان معاملات کو قبول کر چکے ہیں۔ اور اس سوچ میں کسی بھی قسم کے ردوبدل کے لیے تیار نہیں۔ پاک آرمی کی تربیت ، مقصد اور سائیکی ان معاملات میں اداراجاتی رول کو قبول کرتی ہے۔ اور اداراہ ہی اپنے تمام فوجی سپاہیوں اور افسران کے لیے ایک رول ماڈل کے طور پر سامنے آتا ہے۔ یہ رول ماڈل کچھ دھائیوں سے اسقدر زیادہ سخت گیر ہو چکا ہے۔ کہ جونہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ ادارے کے کسی خاص مقام پر ان معاملات کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ تو ایک خود کار مزاحمتی نظام عمل پیرا شروع ہو جاتا ہے۔ اس کی حالیہ مثال جنرل مشرف ہیں۔ جنرل مشرف نے خود یہ بات تسلیم کی۔ کہ انہیں نکالنے کے پیچھے جنرل کیانی کا ہاتھ ہے۔ اب میں ایک ایک کرکے وہ معاملات بتاتا ہوں۔ جو پاک فوج کے لیے حساس ہیں۔ ان سے آپ کو نہ صرف ماضی کے معاملات کو سمجھنے کا موقع ملے گا۔ اسٹیبلشمنٹ کا زہن پڑھنے میں آسانی ہو گی۔ بلکہ موجودہ

حالات کی ایک ابھرتی تصویر بھی سامنے آ جائے گی۔

1۔ بھارت کے ساتھ تعلقات :پاک اسٹیبلشمنٹ بھارت کے ساتھ دوستی اور تجارت اور امن کو لے کر بہت حساس واقع ہوئی ہے۔ اس میں کشمیر کا مسئلہ بھی شامل ہے۔ اور برابری کی سطح پر بھارت کے ساتھ تعلقات بھی ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا۔ جنرل مشرف بھارت کے ساتھ دوستی میں کشمیر پر ایک ڈھیلا ڈھالا سمجھوتہ کرنے جا رہے تھے۔ اور نواز شریف پر بھی یہی الزام لگا تھا۔ اب آپ پاکستان کی بھارت کے ساتھ آج کی صورتحال دیکھ لیں۔ برابری تو دور کی بات ہے۔ بھارت ہماری عزت کرنے کو بھی تیار نہیں۔ ظاہر ہے۔ پاک فوج اس ذلت کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کر رہی ہو گی۔

2۔ پاک فوج اور پاک عوام کے درمیان محبت اور احترام کا رشتہ ہے۔ اور پاک فوج اس رشتے کو ہمیشہ قدر کی نگاہوں سے دیکھتی ہے۔ مختصرا یاد کر لیں۔ جنرل مشرف کے آخری دور میں کیا ہوا تھا۔

3۔ معیشت پاک فوج کے لیے ہمیشہ سے ایک حساس شعبہ رہا ہے۔ اس کی حساسیت کا اندازہ اس طرح کر لیں۔ کہ خود آرمی چیف پاک معیشت پر اپنے ویثرن کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ خراب معیشت کی وجہ سے دوست ممالک سے قرض تک مانگتے رہے ہیں۔ اور تاجر کمیونٹی سے اپیلیں بھی کرتے ہیں۔ پاک فوچ کو ملکی دفاع کے لیے پیسہ چاہیے اور یہ ایک زوال پذیر معیشت میں ممکن نہیں۔ اوپر سے نئے ٹیکسز لگانے سے مہنگائی کی جو لہر آ رہی ہے۔ وہ موجودہ حکومت کے لیے مزید بدنامی کا باعث ہو گی۔ اور اس کے سہولت کار بھی رگڑے جائیں گے۔

4۔ چین : چین ہمیشہ ہمارا قابل اعتماد دوست رہا ہے۔ لیکن آج کل چین ہم سے ناراض ہے۔ ہم نے روس کی جانب جھکاو کر لیا۔ اور نو بلین ڈالر اسلحے کی ڈیل کرنے لگے۔ اب امریکہ نے ہمیں بلا لیا ہے۔ اور ہم خوشی خوشی جا رہے ہیں۔ سنا ہے۔ بہت سارے ڈالرز اور اسلحہ مل رہا ہے۔ لیکن کس قیمت پر۔ امریکہ کی ناراضگی کیسے ختم ہوئی ہے۔ سی پیک کی قیمت پر ، چین اور روس کی قیمت پر ، بھارت کے نیچے لگ کر دوستی کی قیمت پر ، اور یا پھر یمن اور ایران کی قیمت پر۔ اس دنیا میں کوئی لنچ فری نہیں ہوتا۔ میں نے شروع میں کہا تھا۔ جب حساس معاملات کمپرومائز ہونے لگیں۔ تو پھر اندرونی خود کار مزاحمتی نظام اوپن ہو جاتا ہے۔ اور اس وقت بے شمار ایسی شہادتیں ہیں۔ جو بتا رہی ہیں۔ کہ مزاحمتی نظام شروع ہو چکا ہے۔