دلی میں 1984 کے سکھ مخالفت اور حالیہ مسلم مخالف فسادات میں پولیس کا کردار
’ہم دلی میں دوسرا 1984 نہیں ہونے دیں گے۔ کم از کم اس عدالت کے ہوتے ہوئے تو ایسا نہیں ہوگا۔‘
دلی ہائی کورٹ کے جسٹس ایس مرلی دھر نے بدھ کو مرکزی حکومت اور دلی سرکار کی باز پرس کرتے ہوئے یہ بات کہی تھی۔
جسٹس مرلی دھر نے 1984 میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ہونے والے سکھ مخالف فسادات کا حوالہ دیا تھا جس میں صرف دلی میں کم از کم 3000 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
ادھر مہاراشٹر میں برسراقتدار شو سینا نے دلی میں حال ہی میں ہونے والے فسادات کا موازنہ 1984 کے فسادات سے کیا ہے۔ شو سینا نے کہا ‘دلی کی موجودہ ‘ہارر فلم’ دیکھ کر 1984 کے فسادات کی حیوانیت یاد آجاتی ہے۔ ان فسادات کے لیے کون ذمہ دار ہے یہ واضح ہونا بہت ضروری ہے’۔
1984 کے بعد یہ پہلی بار ہے جب دلی میں اتنے بڑے پیمانے پر فسادات ہوئے ہیں۔ اتوار کو شروع ہونے والے یہ فسادات تین روز جاری رہے اور متاثرین اور گراؤنڈ پر موجود صحافیوں نے بتایا کہ یا تو پولیس موجود ہی نہیں تھی یا جو تھی وہ معقول کارروائی نہیں کر رہے تھے۔
لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ دلی کے موجودہ فسادات کا موازنہ 1984 کے فسادات سے کیا جانا صحیح ہے؟
سنجے سوری 1984 میں انگریزی روزنامہ ‘دا انڈین ایکسپریس’ میں بطور کرائم رپورٹر کام کرتے تھے۔ انہوں نے 1984 کے فسادات کو تفصیلی طور پر رپورٹ کیا تھا اور ان فسادات کے چشمدید گواہ بھی رہے۔
سوری بتاتے ہیں ’ہر فساد مختلف ہوتا ہے۔ دو فسادات کا ایک دوسرے سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ ہر فساد میں قانون اور انتظامیہ ناکام نظر آتے ہیں’۔
سوری مزید بتاتے ہیں ’1984 میں بہت بڑے پیمانے پر فسادات ہوئے تھے۔ اس وقت 3000 سے بھی زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ابھی 32 افراد کے ہلاک ہونے کی خبر ہے۔ لیکن اس سے فسادات کا خوفناک ہونا کم نہیں ہوجاتا ہے۔ ایک شخص کا بھی مارا جانا یا زخمی کیا جانا ہمیں ڈرانے کے لیے کافی ہونا چاہیے’۔
پولیس کی ناکامی
1984: دی اینٹی سکھ رائٹس اینڈ آفٹر’ نامی کتاب کے مصنف سنجے سوری یاد کرتے ہیں ‘سکھ مخالف فسادات کے وقت تو جیسے نظام قانون کا نام و نشان مٹ گیا ہو۔ پولیس اپنا کام بھول گئی تھی۔ یا یوں کہیں کہ پولیس بھی فسادیوں کے ساتھ مل کر تشدد کر رہی تھی’۔
وہ مزید کہتے ہیں ‘میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ پولیس کس طرح سے تشدد میں شامل تھی۔ اگر میں نے یہ بات کسی اور کے منہ سے سنی ہوتی تو شاید مجھے کبھی یقین نہیں آتا۔ لیکن جو میں نے خود ہوتے ہوئے دیکھا کیسے بھلا دوں یا جھوٹا قرار دے دوں’۔
سوری نے فسادات کے چشم دید گواہ کے طور پر تفتیشی کمیشن کے سامنے اپنے بیانات بھی درج کرائے تھے۔
اب بھی دلی میں ہونے والے تشدد کے دوران پولیس کے کردار پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ دلی ہائی کورٹ نے پولیس کی ’سست‘ کارروائی پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔
عدالت نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں کپل مشرا، پرویش ورما، اور انوراگ ٹھاکر کی جانب سے دیے گئے اشتعال انگیز بیانات کے بعد ایف آئی آر درج نہ کرنے، سوشل میڈیا پر تشدد کی ویڈیو کی تفتیش نہ کرنے اور متاثرین کو فوراً تحفظ نہ دینے پر دلی پولیس سے سوالات کیے ہیں۔
1984 کے فسادات کے دوران رپورٹنگ کرنے والے صحافی راہل بیدی نے پولیس کے کردار پر سوال اٹھائے ہیں۔
راہل بیدی کہتے ہیں ‘پولیس کا فسادات میں شامل ہونے کا ہمیشہ یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ فسادیوں کے ساتھ مل کر تشدد کر رہی ہے۔ پولیس کا فسادات میں شامل ہونے کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ ملزموں کو شہ دے رہی ہے یا انہیں تشدد کرنے سے روک نہیں رہی اوران کے خلاف کارروائی نہیں کر رہی۔ پولیس کا فسادات میں شامل ہونے کا مطلب ہوتا ہے فسادیوں کو تحفظ دینا’۔
دلی میں فسادات کے دوران کی بعض ایسی ویڈیوز سامنے آئی ہیں جن میں پولیس کھڑی تشدد ہوتے ہوئے دیکھ رہی ہے۔ متعدد متاثرین اور چشم دید گواہوں نے پولیس پر فوراً کارروائی نہ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
1984 کے سکھ مخالف فسادات کو قریب سے دیکھنے والے صحافی پرکاش پاترا کا خیال ہے کہ پولیس کے اس وقت کے رویہ اور اب دلی فسادات کے دوران رویہ ایک جیسا ہے۔
ان کا کہنا ہے ‘میں نے 1984 میں دیکھا تھا کہ پولیس اپنی آنکھوں کے سامنے ہونے والے تشدد کو نظر انداز کر رہی تھی۔ اس بار بھی شروعات میں پولیس نے ایسا ہی رویہ دکھایا’۔
جب پولیس فسادیوں کو نہیں روکتی اور تشدد ہونے دیتی ہے تو اس صورتحال میں اس تشدد کو ‘پوگرام’ یعنی قتل عام کہا جاتا ہے۔ بعض سیاسی تجزیہ کاروں کا خيال ہے کہ دلی میں جو ہوا وہ اسی طرح کی صورتحال ہے۔
انتظامیہ کی نرمی
سنجے سوری کہتے ہیں کہ انتظامیہ اگر چاہے تو فسادات روکنے سے پہلے ہی ان پرقابو پا سکتی ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے ‘حکومت کے پاس اتنی طاقت ہوتی ہے، اتنے ذرائع ہوتے ہیں کہ اگر وہ واقعی تشدد روکنا چاہے تو روک سکتی ہے۔‘
سوری کہتے ہیں ‘اگر تشدد ہونے کے خدشے کے بعد بھی حکومت احتیاطی قدم نہیں اٹھاتی اور فسادات کو قابو سے باہر نکلنے دیتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ شاید حکومت اور انتظامیہ فسادات روکنا ہی نہیں چاہتی۔
وہ مزید کہتے ہیں ‘دلی میں جس طرح کے حالات پیدا ہو رہے ہیں، جس طرح سے اشتعال انگیز بیانات دیے جارہے ہیں اور جس طرح کی باتیں سوشل میڈیا پر لکھی جارہی ہیں انہیں دیکھ کر انتظامیہ کو اچھی طرح یہ اندازہ ہوگیا ہوگا کہ آگے کیا ہونے والا ہے، اس کے باوجود کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھائے گئے’۔
چند ہفتے قبل جب دلی میں شہریت کے قانون کے خلاف احتجاج کے دوران تشدد ہوا تو بعض مقامات پر انٹرنٹ بند کردیا گیا لیکن دلی فسادات کے دوران ایسا نہیں کیا گیا اور اس بارے میں سوالات اٹھنے لگے ہیں؟
راہل بیدی یاد کرتے ہیں ‘2002 کے گجرات فسادات میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔ گجرات فسادات کے دوران تو فوج کو بھی تعینات کیا گیا تھا۔ لیکن فوج کو کارروائی کرنے کی اتھارٹی یا طاقت نہیں دی گئی تھی’۔
راہل بیدی 1984 کے فسادات کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں ‘اس وقت بھی حکومت نے جان بوجھ کر ایسا ہی کیا تھا۔ مجھے یاد ہے اندرا گاندھی کی ہلاکت بدھ کو ہوئی تھی اور فوج کو شوٹ ایٹ سائٹ کا حکم سنیچر کو دیا گیا تھا۔ تب تک بہت کچھ تباہ ہوچکا تھا’۔
اشتعال انگیز تقریریں
دلی فسادات کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی کے بعض لیڈروں کے جانب سے دلی الیکشن کے دوران دیے گئے اشتعال انگیز بیانات کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے۔ ہائی کورٹ نے ان بیانات دینے والوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر دلی پولیس سے سوالات پوچھے تھے۔
1984 میں اشتعال انگیز بیانات کی کوئی کمی نہیں تھی۔ اس زمانے میں اور موجودہ دور میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ اس وقت سوشل میڈیا نہیں تھا۔
1984 کے فسادات کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ آج کے دور میں سوشل میڈیا پر افواہیں پھیلائی جاتی ہیں اور اس وقت لوگوں گے گروپس افواہیں پھیلاتے تھے۔
سنجے سوری یاد کرتے ہیں ‘اندرا گاندھی کی ہلاکت کے بعد ان کے مردہ جسم کو تین مورتی بھون لایا گیا تھا۔ اس وقت بسوں پر بھر بھر کر لوگ آئے تھے اور نعرے لگا رہے تھے، ‘خون کا بدلا خون سے لے گے’۔ ان نعروں کو سرکاری ٹی وی دوردرشن نیوز پر براہ راست نشر کیا جارہا تھا۔ اس کے فوراً بعد دلی کے رقاب گنج گرودوارے سے شروع ہونے والا تشدد پورے دلی میں پھیل گیا۔
سنجے سوری کہتے ہیں کہ فسادات کے بعد عام عوام کے لیے تو حالات معمول پر آجاتے ہیں لیکن متاثرین اور ان کے خاندان والوں کے لیے زندگی ہمیشہ کے لیے بدل جاتی ہے۔