صحت

عالمی وبا کیا ہے، اس کا اعلان کب اور کیوں ہوتا ہے؟

Share

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے 11 مارچ کی شب دسمبر 2019 میں چین سے شروع ہونے والے ’نوول کووڈ 19 کورونا وائرس‘ کو عالمی وبا قرار دیا تو دنیا میں ایک نئی بحث چھڑ گئی اور کافی لوگ اس اعلان سے قدرے خوف زدہ بھی ہوگئے۔

عالمی ادارہ صحت نے ’نوول کووڈ 19 کورونا وائرس‘ کو عالمی وبا قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ انفیکشن کے تشویشناک حد تک پھیلنے پر دنیا کو فکر ہے مگر عالمی وبا کی اصطلاح کا مطلب ’وائرس‘ سے ہار ماننا نہیں بلکہ اس کی درجہ بندی اور اس سے حفاظت کے لیے اقدامات کرنا ہے۔

کورونا وائرس کو عالمی وبا قرار دیے جانے کے بعد دنیا بھر میں ’عالمی وبا‘ کے موضوع پر بحث چھڑ گئی اور کئی لوگ اس اصطلاح سے ڈر گئے۔

یہ بھی پڑھیں: عالمی ادارہ صحت نے نئے کورونا وائرس کو عالمگیر وبا قرار دے دیا

دنیا کے زیادہ تر افراد یہ نہیں جانتے کہ ’عالمی وبا کیا ہوتی ہے، اس کا کب اور کیوں اعلان کیا جاتا ہے اور جب اس کا اعلان کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب کیا ہوتا ہے؟تحریر جاری ہے‎

بہت سارے لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ کیا عالمی وبا کا پہلی بار اعلان کیا گیا ہے یا اس سے قبل بھی اس طرح کے اعلانات سامنے آئے۔

اس مضمون میں ایسے ہی کچھ سوالوں کےجوابات دیے گئے ہیں اور کوشش کی گئی ہے کہ قارئین کو آسانی سے سمجھایا جاسکے کہ ’عالمی وبا‘ کیا ہے اور اس کا اعلان کب اور کیوں ہوتا ہے؟

عالمی وبا کیا ہے؟

نیا کورونا وائرس چین سے دسمبر 2019 میں شروع ہوا تھا—فوٹو: اے پی
نیا کورونا وائرس چین سے دسمبر 2019 میں شروع ہوا تھا

عالمی ادارہ صحت کے مطابق کسی بھی بیماری کو عالمی وبا قرار دیے جانے کا کوئی مخصوص طریقہ کار نہیں تاہم کسی بھی بیماری کو اس وقت ’عالمی وبا‘ قرار دیا جا سکتا ہے جب مذکورہ بیماری ایک سے دوسرے ملک سفر کرکے بہت سارے اور ہر عمر کے افراد کو متاثر کرے۔

کسی بھی بیماری کو ’عالمی وبا‘ قرار دیے جانے سے قبل اسے ابتدائی طور پر ’خطرناک‘ اور ’وبا‘ قرار دیا جاتا ہے تاہم ایسا بھی ممکن ہے کہ کسی بیماری یا وائرس کو براہ راست عالمی وبا قرار دیا جائے۔

عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ’نئے کورونا وائرس‘ کو ’عالمی وبا‘ قرار دیے جانے سے قبل 2010 میں ’سوائن فلو‘ کو عالمی وبا قرار دیا گیا تھا۔

اس بار ڈبلیو ایچ او نے کورونا وائرس کو اس وقت عالمی وبا قرار دیا جب وہ دنیا کے 114 سے زائد ممالک میں پھیلا اور اس سے تقریباً سوا ایک لاکھ افراد متاثر ہوئے اور مذکورہ وائرس تیزی سے ایک سے دوسرے ملک اور پھر واپس اسی ملک میں پھیلنے لگا جہاں سے وہ شروع ہوا تھا۔

’وبا‘ اور ’عالمی وبا‘ میں کیا فرق ہے؟

کسی بھی بیماری کو پہلے وبا اور پھر عالمی وبا قرار دیا جاتا ہے—اسکرین شاٹ/ یوٹیوب
کسی بھی بیماری کو پہلے وبا اور پھر عالمی وبا قرار دیا جاتا ہے

نئے کورونا وائرس کے شروع ہونے سے ہی انگریزی کا لفظ (Epidemic) استعمال کیا جانے لگا جسے اردو میں ’وبا‘ کہا جاتا ہے، وبا عام طور پر اس بیماری کو کہا جاتا ہے جو کہ تیزی سے ایک سے دوسرے شخص اور ایک ملک سے دوسرے ملک میں پھیلے۔

اگرچہ وبا کو ہی عالمی وبا قرار دیا جاتا ہے مگر کسی بھی وبا کو اس وقت ہی عالمی وبا قرار دیا جاتا ہے جو تیزی سے دنیا کے ہر خطے میں اور تقریباً ہر عمر کے افراد کو متاثر کرے لیکن اگر کوئی بھی وبا ہر عمر کے افراد کو متاثر نہ بھی کرے تو عالمی ادارہ صحت اس وبا کو مختلف چیزوں کی بنیاد پر عالمی وبا یعنی (Pandemic) قرار دے سکتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے بھی کورونا کی وبا کو اسی بنیاد پر عالمی وبا قرار دیا۔

کسی بھی بیماری کو ’عالمی وبا‘ قرار دینے کا فیصلہ کیسے کیا جاتا ہے؟

نوول کوڈ 19 کورونا وائرس نے دنیا کے 115 سے زائد ممالک کو متاثر کیا—فوٹو: اے ایف پی
نوول کوڈ 19 کورونا وائرس نے دنیا کے 115 سے زائد ممالک کو متاثر کیا

عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کسی بھی بیماری کو اس وقت ہی ’عالمی وبا‘ قرار دیا جاتا ہے جب کوئی بھی بیماری تیزی سے ایک سے دوسرے ملک یا انسان میں پھیلنے سمیت سماج کے دیگر جانداروں یعنی جانوروں اور پودوں کو بھی متاثر کرتی ہے۔

بعض مرتبہ جانوروں اور پودوں سے شروع ہونے والی بیماری یا وائرس کو بھی ’عالمی وبا‘ قرار دیا جاسکتا ہے کیوں ایسی بیماری بڑے پیمانے پر انسانوں کو بھی متاثر کرتی ہے۔

اگر کسی بھی بیماری یا وائرس کو ’عالمی وبا‘ قرار دیا جائے تو دنیا کے تمام ممالک، عام افراد، عالمی اداروں سمیت دنیا کے ہر شخص پر یہ اخلاقی فرض بنتا ہے کہ وہ ’وبا‘ کو عالمی سطح پر پھیلنے سے روکنے میں اپنا کردار ادا کرے۔

کسی بیماری کو ’عالمی وبا‘ قرار دینے کا اختیار کس کے پاس ہوتا ہے؟

ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیدروس ادہانوم کورونا کو عالمی وبا قرار دینےکا اعلان کرتے ہوئے— فوٹو: اے ایف پی
ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیدروس ادہانوم کورونا کو عالمی وبا قرار دینےکا اعلان کرتے ہوئے

کسی بھی بیماری یا وائرس کو ’عالمی وبا‘ قرار دینے کا اختیار صرف عالمی ادارہ صحت کے پاس ہوتا ہے جو صحت سے متعلق ایک بین الاقوامی ادارہ ہے۔

عالمی ادارہ صحت دراصل اقوام متحدہ (یو این) کا ذیلی مگر خودمختار ادارہ ہے۔

عالمی ادارہ صحت کا قیام 7 اپریل 1948 میں عمل میں آیا اور یہ ادارہ اس وقت دنیا بھر کے 150 ممالک اور 6 براعظم میں کام کر رہا ہے اور اس کے ملازمین کی تعداد 7 ہزار تک ہے۔

عالمی ادارہ کے پاس ہی کسی بھی بیماری کو ’عالمی وبا‘ قرار دینے کا اختیار ہے اور یہی ادارہ بیماریوں اور وائرس سے متعلق علاج کے اور ٹیسٹ کے طریقہ کار بھی متعارف کرواتا ہے۔

دنیا کے تمام ممالک اس ادارے کے ساتھ تعاون کرنے اور اس کی ہدایات پر عمل کرنے کے اخلاقی پابند ہوتےہیں اور اس ادارے کی ہدایات پر عمل نہ کرنے والے ممالک کو پابندیوں سمیت کئی طرح کے سیاسی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

کورونا وائرس کو ’عالمی وبا‘ قرار دیے جانے سے کیا ہوگا؟

عالمی وبا کا مقصد وائرس کا مل کر مقابلہ کرنا ہے—فوٹو: اے ایف پی
عالمی وبا کا مقصد وائرس کا مل کر مقابلہ کرنا ہے

اگرچہ نئے کورونا وائرس کو عالمی وبا قرار دیے جانے سے اس کے پھیلاؤ یا خطرے میں اضافہ یا کمی نہیں ہوگی تاہم اسے عالمی وبا قرار دیے جانے کے بعد تمام ممالک اس مرض کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد ہوں گے۔

کورونا وائرس کو عالمی وبا قرار دیے جانے کے بعد دنیا بھر کی حکومتیں جہاں ایک دوسرے سے وائرس سے متعلق تعاون اور روابط کو بڑھائیں گی، وہیں تمام ممالک اپنے ملک میں بھی اس سے نمٹنے کے لیے سخت اقدامات کریں گی۔

کورونا وائرس کو عالمی وبا قرار دیے جانے کے بعد دنیا کے ہر فرد پر بھی اخلاقی طور پر یہ ذمہ داری عائد ہوگئی کہ وہ نہ صرف اپنا بلکہ اپنے ارد گرد کے افراد اور معاشرے کو بھی محفوظ بنانے کے لیے کردار ادا کرے۔

اب تک کتنی بیماریوں کو عالمی وبا قرار دیا جا چکا ہے؟

ماضی میں بھی بیماریوں کو عالمی وبا قرار دیا جا چکا ہے—فوٹو: اے ایف پی
ماضی میں بھی بیماریوں کو عالمی وبا قرار دیا جا چکا ہے

چوں کہ عالمی ادارہ صحت کا قیام جنگ عظیم دوئم کے اختتام کے بعد ہوا اور اس سے قبل بھی دنیا میں کئی بڑی بیماریاں اور وائرسز پھیلے تھے اور انہیں بھی ’عالمی وبا‘ قرار دیا گیا مگر ڈبلیو ایچ او نے بھی اپنے قیام کے بعد کئی بیماریوں کو عالمی وبا قرار دیا۔

’نئے کورونا وائرس‘ سے قبل 2003 میں بھی ایک کورونا وائرس دنیا میں پھیلا تھا مگر عالمی ادارہ صحت نے اسے عالمی وبا قرار نہیں دیا تھا کیوں کہ وہ محدود ممالک میں پھیلا تھا۔

’نوول کووڈ 19 کورونا وائرس‘ کو ’عالمی وبا‘ قرار دیے جانے سے قبل عالمی ادارہ صحت ’سوائن فلو، پولیو اور ایچ آئی وی‘ سمیت دیگر بیماریوں اور وائرسز کو ’عالمی وبا‘ قرار دے چکا ہے۔

اب تک عالمی وبا قرار پانے والے مرض

ہیضے کی وبا سے ایک لاکھ 30 ہزار تک افراد ہلاک ہوئے تھے—فوٹو: این ٹی وی
ہیضے کی وبا سے ایک لاکھ 30 ہزار تک افراد ہلاک ہوئے تھے

ہیضے کی وبا

ہیضے کی وبا کو جدید دنیا کی سب سے خطرناک وبا مانا جاتا ہے، اگرچہ یہ 19 ویں صدی کے آغاز سے قبل ہی دنیا میں سامنے آئی تھی تاہم جنگ عظیم اول سے قبل اور انیسویں صدی کی پہلی دہائی میں یہ بیماری امریکا میں پھوٹ پڑی، جہاں سے یہ بیماری دنیا کے دیگر خطوں میں بھی پھیلی۔

اس بیماری سے 1910 سے 1912 تک 13 لاکھ افراد متاثر ہوئے اور اس سے اندازے کے مطابق ایک لاکھ 30 ہزار تک ہلاکتیں ہوئیں۔

اسپینش فلو

اسپینش فلو نے ہیضے سے بھی زیادہ نقصان کیا—فوٹو: ہسٹری ڈاٹ کام
اسپینش فلو نے ہیضے سے بھی زیادہ نقصان کیا

اسپینش فلو جنگ عظیم اول کے دوران سامنے آئی اور ایک اندازے کے مطابق اس بیماری نے دنیا کے ہر تیسرے شخص کو متاثر کیا، اس کو جدید دنیا کی بدترین عالمی وبا بھی مانا جاتا ہے، اس بیماری سے 1918 اور 1920 کے دوران 5 کروڑ لوگ متاثر ہوئے جب کہ اس سے تقریبا 50 لاکھ افراد ہلاک ہوئے اور یہ بیماری بھی انفلوائنزا کا ایک قسم تھی۔

اسپینش فلو نے بھی 20 سے 40 سال کی عمر کے مرد و خواتین کو متاثر کیا تھا اور یہ بیماری بھی امریکا سے لے کر یورپ اور ایشیا سے لے کر افریقہ تک پھیلی تھی۔

سوائن فلو – ایچ ون، این ون

سوائن فلو کا وائرس عام طور پر سوئر سمیت مختلف جانوروں اور پرندوں میں پایا جاتا ہے—فوٹو: میڈیکل نیوز ٹوڈے
سوائن فلو کا وائرس عام طور پر سوئر سمیت مختلف جانوروں اور پرندوں میں پایا جاتا ہے

یہ بیماری 2005 میں شروع ہوئی تھی تاہم 2009 میں یہ بیماری ایک بار پھر سامنے آئی اور جانوروں سے شروع ہونے والی اس بیماری کا آغاز ویتنام سے ہوا تھا، یہ وائرس ’انفلوائنزا‘ (فلو) کی ایک قسم تھا اور اسے (ایچ ون، وین ون) کا نام دیا گیا تھا۔

سوائن فلو سے دنیا بھر میں اندازا ڈیڑھ کروڑ افراد متاثر ہوئے تھے اور اس سے ہلاکتوں کی تعداد 3 سے 5 لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔