وبائی صورتحال اور ہم
کرونا وائرس نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ وہ ملک بھی اس آسیب کی زد میں آکر غیر محفوظ ہو چکے ہیں، جو رہنے کے لئے دنیا کے محفوظ ترین ممالک شمار ہوا کرتے تھے۔ ان معاشروں میں بسنے والے انسان کوئی بھی لمحہ ضائع کئے بغیر اپنے اپنے کاموں میں جتے رہتے تھے۔ آج یہ شہری تمام کاموں کو بالائے طاق رکھے، گھروں میں دبکے رہنے پر مجبور ہیں۔ کارخانے بند ہیں، کاروبار معطل ہیں، تقریبات موقوف، ہوائی پروازیں ملتوی، تعلیمی اداروں اور عبادت گاہوں کی بھی تالہ بندی ہو چکی ہے۔ ہر جگہ اس آفت کا راج ہے۔ سب سے تکلیف دہ مناظر حرم کعبہ او ر مسجد نبویﷺ کے ہیں۔ انسانوں سے خالی اللہ کا گھر اور نبی ﷺ کا در دیکھ کر دل بھر آتا ہے۔
پاکستا ن میں بھی اس آسیب نے اپنا رنگ جما رکھا ہے۔ کراچی تو خیر مکمل لاک ڈاون کی کیفیت میں ہے۔ باقی ملک کی بھی کم و بیش یہی حالت ہے۔ تعلیمی ادارے بند ہیں۔ کاروباری سرگرمیاں ماند پڑ چکی ہیں۔ تقریبات پر پابندی عائد ہے۔ بیشتر شہری گھروں میں محصور ہیں۔ ایک وقت تھا کہ میڈیا پر “احتساب ” نامی شے کا ڈنکا بجا کرتا تھا۔ آج کل کوئی بھی ٹی۔وی چینل لگائیں یا اخبار دیکھیں،کرونا سے متعلق خبروں کی بھرمار ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے چند صحافیوں سے ملاقات میں تنبیہ کی کہ میڈیا نے ہر طرف خوف و ہراس پھیلا رکھا ہے۔میڈیا کو چاہیے کہ غیر ذمہ دارانہ طرز عمل سے گریز کرئے۔ ایک سینئر صحافی نے انکی تصیح کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت میڈیا مجموعی طور پر انتہائی ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ اور وہی کردار نبھا رہا ہے جو میڈیا نے 2005 میں آنے والے زلزلے کے ہنگام ادا کیا تھا۔ صحافی نے مزید نشاندہی کی کہ خود حکومتی ادارے اور عہدیداران کرونا سے متعلق متضاد معلومات فراہم کر رہے ہیں۔ میڈیا ان فراہم کردہ معلومات کو نشر کر دیتا ہے، جس سے کنفیوژن کا پہلو نکلتا ہے۔ لہذا ذمہ دارانہ طرز عمل اختیار کرنے کی نصیحت میڈیا کے بجائے، حکومتی اراکین کرنی چاہیے۔
موجودہ صورتحال میں میڈیا واقعتا ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ اس وبائی صورتحال سے متعلق دنیا بھر کی معلومات میڈیا ہی کی بدولت ہم تک پہنچ رہی ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا جو پیمرا (PEMRA)کی ہدایات کے با وجود مفاد عامہ کے پیغا مات (public service messages) بنانے اور نشر کرنے سے بیشتر اوقات گریزاں رہتا تھا، آج کل عوام کی آگہی سے متعلق پیغامات باقاعدگی سے نشر کر رہاہے۔ تاہم اچھا ہو اگر میڈیا ان افراد (یا کیسوں) کو بھی سامنے لائے جو اس مرض کو بھگتنے کے بعد صحت یاب ہو چکے ہیں۔ اس طرح عوام کو معلوم ہو گا کہ کرونا کا انجام صرف موت نہیں ہے۔ بلکہ اس بیماری کے بعد انسان صحت مند بھی ہو سکتا ہے۔ یہ کمی بھی محسوس ہو رہی ہے کہ ٹی وی چینلز مستند علمائے کرام کے ذریعے عوام کی رہنمائی کا اہتمام کریں۔ انہیں نبی ﷺ کی بتلائی گئیں دعائیں بتائیں۔ صفائی سھترائی کی اہمیت سے آگاہ کریں۔ نماز اور استغفار کی طرف مائل کریں۔ اسکے علاوہ یہ پیغام بھی میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچنا چاہیے کہ ہم سب اپنے ارد گرد بسنے والے اس غریب ا ور دیہاڑی دار مزدور طبقے کا خیال رکھیں، جو کرونا کی صورتحال کے پیش نظر اپنی روزی روٹی کمانے سے قاصر ہے۔ ٹی۔وی چینلز اور اخبارات کا طرز عمل ذمہ دارانہ سہی، تاہم سوشل میڈیا پر غلط معلومات اور گمراہ کن ٹوٹکوں کی بھرمار نظر آتی ہے۔ایسی خبریں بھی زیر گردش ہیں جن سے عوام میں خوف و ہراس پھیل رہا ہے۔ کیا ایسے موقع پر متعلقہ اداروں کوبروئے کار نہیں آنا چاہیے؟ کسی حکومتی عہدیدار، وزیر، مشیر کے خلاف کوئی پوسٹ گردش کرتی ہے تو فورا سائبر کرائم سے متعلق ادارے حرکت میں آجاتے ہیں۔ اور متعلقہ افراد کی کھوج لگا کر دم لیتے ہیں۔ کرونا سے متعلق گمراہ کن معلومات کا تدارک بھی اسی جذبے اور حساسیت کیساتھ ہونا چاہیے۔ عوام کو گمراہ اور خوفزدہ کر دینے والے سوشل میڈیائی مواد سے بچانے کے لئے متعلقہ اداروں کو متحرک ہونا چاہیے۔
سیاسی سطح پر یہ امر خوش آئند ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اس معاملے پر سیاست نہیں کر رہیں۔ ماضی میں ہمارے ہاں قدرتی آفات اور بیماریوں پر گندی سیاست ہوتی رہی ہے۔ ڈینگی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس زمانے میں نہایت اہتمام کیساتھ حکومت مخالف پریس کانفرنسیں اور بیان بازی کی جاتی تھی۔ خود عمران خان اس وقت کے وزیر اعظم نوا زشریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو ڈینگی برادران کہہ کر پکارا کرتے تھے۔موجودہ وبائی صورتحال میں بلاول بھٹو زرداری کا یہ بیان قابل تحسین ہے کہ وہ حکومت کو تنقید کا نشانہ نہیں بنائیں گے۔ بلاول نے اعلان کیا ہے کہ اس مشکل وقت میں وہ حکومت اور وزیر اعظم کیساتھ ہیں۔ حب الوطنی اور انسانیت کا تقاضا یہی ہے کہ ایسے مواقع پر الزام تراشی اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے بجائے قومی ہم آہنگی کا مظاہرہ کیا جائے۔ اس تشویشناک صوتحال کا مقابلہ صرف تدبر اور تدبیر کیساتھ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن فی الحال ملک میں کسی قومی لائحہ عمل اور مشترکہ حکمت عملی کا فقدان دکھائی دیتا ہے۔ وفاق ایک سمت میں کھڑا ہے جبکہ صوبے کسی اور طرف کھڑے ہیں۔ سندھ حکومت نے دنیا کے مختلف ممالک کی صورتحال سے سبق سیکھتے ہوئے، لاک ڈاون کا اعلان کر رکھا ہے۔ جبکہ وفاقی حکومت لاک ڈاون کی مخالف ہے۔
اگرچہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد شعبہ صحت صوبائی سطح کا موضوع ہے۔ اس ضمن میں فیصلہ سازی صوبوں کی صوابدید ہے۔ تاہم بہتر یہی تھا کہ وزیر اعظم، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کیساتھ مل بیٹھتے اور کوئی مشترکہ حکمت عملی وضع کی جاتی۔ ابھی ذیادہ تاخیر نہیں ہوئی۔ یہ کام اب بھی ہو سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اٹلی اور دیگر ممالک کے تجربات سے سبق سیکھتے ہوئے ہمیں فوری عملی اقدامات اٹھانے ہونگے۔اگر مزید تاخیر ہوتی ہے تو خدانخواستہ ہمارے ہاں اٹلی جیسی صورتحال بننے کا اندیشہ ہے۔ اللہ نہ کرئے کہ ایسی صورتحال بنے۔ تاہم سچ یہ ہے کہ ہمیں بعد از خرابی بسیار جاگنے کی عادت پڑ چکی ہے۔
کرونا کے معاملے میں بھی ہم تب حرکت میں آئے جب یہ وبا ہمارے ملک میں داخل ہو گئی۔ آفات کی انتظام کاری (Disaster management)کا پہلا اہم مرحلہ تیاری(Preparedness Phase) کا ہوتا ہے۔ اس بار بھی ہم اس مرحلے میں کوتاہی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے چندبرس پہلے تھر میں بچوں کی اموات ہوئیں تو ہم گہری نیند سے جاگے اور خوراک پانی کی ترسیل شروع کی۔ برسوں سے ہمارے ہا ں نیڈما (national disaster management authority) اور PDMAs (Provincial disaster management authorities)جیسے طاقتور ادارے موجود ہیں۔یہ وبائی صورتحال ہمارے پڑوس تک آن پہنچی تب یہ ادارے کہاں غائب تھے؟ ہم میں سے بہت سوں نے تو ان اداروں کا نام تک نہیں سنا۔ یہ معاملہ بھی کھل کر سامنے آ چکا ہے کہ ایران سے آئے زائرین کا معاملہ مس ہنڈل ہو ا۔ تفتان میں قائم قرنطینہ سینٹر کی خبریں تواتر سے میڈیا کی زینت بنتی رہیں۔ دیگر قرنطینہ سنٹرز کی وڈیوز بھی سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہیں کہ کس طرح تنگ جگہوں پر ڈھیروں افراد کو بھیڑ بکریوں کی طرح رکھ کر اس وبا کو پھیلنے کا موقع دیا گیا۔ گندگی کے ڈھیر اور نامناسب انتظامات کی کئی وڈیوز بھی سامنے آئیں۔ فوری طور پر اس صورتحال کا جائزہ کیوں نہیں لیا گیا؟۔ ایران سے آئے زائرین کے معاملے کی کوئی انکوائری ہوئی، کسی قسم کی جواب طلبی ہوئی اور نہ ہی کسی ذمہ دار کا تعین۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف نے اس معاملے میں ایک حکومتی مشیر کا ذکر کیا ہے، جو اس بگاڑ کے ذمہ دار ہیں۔ اگر ایسا ہے تو حکومت اور اپوزیشن جماعتیں اس حساس معاملے پر چپ سادھ کر مجرمانہ خاموشی کی مرتکب ہو رہی ہیں۔
موجودہ صورتحال میں عوام النا س کا کردار بھی نہایت اہم ہے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم اس صورتحال میں اپنا اپنا حصہ ڈالیں۔ اس وبا کے حوالے سے میڈیا پر بتائی جانے والی احتیاطی تدابیر کو سنجیدگی سے لیں۔ گھومنے پھرنے اور لوگوں سے ذیادہ میل جول سے اجتناب برتیں۔ دعا ہے کہ اللہ ہمیں اس وبائی صورتحال سے نکالے اور ہم سب ہر رحم فرمائے۔ آمین۔