بلاگ

علمی وبا کرونا،سیاسی اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے

Share

“احمد علی کورار”
چہار اطراف سے  دن بھر کرونا کی خبروں سے خائف نا جانے گزشتہ شب کب آنکھ لگی۔صبح آنکھ کھلی تو موبائل پہ کسی دوست کی طرف سےمو صول  پیغا م پر نظر پڑی۔پڑھ کر  سکتے میں پڑ گیا کہ استاد محترم ہم میں نہیں رہے۔چند  روز پہلے ملاقات ہوئی لہجہ ابھی تک کانوں اور نقش ابھی تک ذہن میں محفوظ ہے۔اچانک فالج کا عارضہ لاحق ہوا اور استاد محترم جانبر نہ ہو سکے۔  ابتدائی جما عتوں میں ہمارے معلم  رہے انگلی پکڑ کر لفظوں کی پرکھ کروائی۔ ناپختہ ذہنوں کو پختہ کیا۔۔شفیق انسان اور محنتی استاد تھے۔

یقین کریں یقین نہیں ہوتا استاد ہم میں نہیں۔دعا ہے اللہ  رب العزت استاد ِمحترم کی مغفرت فرمائے۔
اسی اثنا میں دروازے پہ دستک ہوئی ایک بزرگ خاتون اشکبار آنکھیں سسکتے ہونٹ کہنے لگی بیٹا کھانے کے لیے کچھ مل سکتا ہے۔میرابیٹا دیہاڑی دار ہے کسی دکان پہ کام کرتا تھا وہاں سے کچھ مل جاتا تھا گزر بسر کرلیتے تھے۔اس وبا کی وجہ سے وہ گھر بیٹھا ہے۔ جتنا ہو سکا میں نے مدد کی۔تاب ضبط نہ رہا آب دیدہ ہوگیا۔نا جانے کتنے لوگ  ایسے ہوں گے جو ایسی ابتلا سے گزر رہے ہیں۔اس کیفیت نے مجھے اضطراب میں ڈال دیا۔مخیر حضرات سے گزارش ہے آگے آئیں اس نادارطبقے کی امداد کریں۔تاکہ ان گھمبیر حالات میں ان کی دو وقت کی روزی روٹی کا سامان ہوسکے۔یہ وبا انسانی طبع کے ساتھ ساتھ اس کی نیت اور ارادوں کا بھی امتحان لے رہی ہے۔اس دکھ کی گھڑی میں انسان کتنا عالی ظرف ہوسکتا ہے اور کیسے اپنے غریب بھائیوں کی امداد کرسکتا ہے۔کرونا نے بہار کی رت کو خزاں میں بدل دیا ہے۔ہر طرف ویرانی ہی ویرانی ہے۔
چند دن پہلے سودا سلف لینے مارکیٹ جانا ہوا اتنے بڑے شہر میں ہو کا عالم تھا۔ایسا لگا کہ میں ایسی دنیا میں آیا ہوں جہاں انسان ذات کا بسیراہی نہیں۔سڑک پر چہچہاتے پرندوں کو دیکھ کر احساس ہوا گویا پرندوں کی دنیا ہو۔ماسک نے  اپنوں کو بھی اجنبیوں میں بدل دیا ہے لوگ پاس سے گزر جاتے ہیں پہچانےنہیں جاتے۔بعض تو جان کر بھی اجنبی بن جاتے کہیں علیک سلیک نہ ہو جائے ہاتھ ملانا نہ پڑے۔کم بخت وبا تھمنے کا نام نہیں لیتی۔اس موذی مرض سے متاثر ہونے والوں کے اعداد وشمار کا  شمار  تکلیف دہ ہے۔مغرب اس موذی مرض کی بیخ کنی کے لیے کوشش جاری رکھے ہوئے ہے۔اور اس وقت جتنی بھی احتیاطی تدابیر کے متعلق  معلومات مل رہی ہیں یہ بھی مغربی ریسرچ کی کاوشو ں کا نتیجہ ہے۔باقی ہمارے پلے تو کچھ بھی نہیں۔امریکہ سے لے کر آسٹریلیا تک اس پر ریسرچ جاری ہے۔اور بد قسمتی سے ہم جتنے سیاسی بحران کا شکار ہیں اس سے کہیں زیادہ سائنسی بحران کا بھی شکار ہیں۔وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کہتے ہیں کہ ہماری یونیورسٹیاں سوئی  ہوئی ہیں اس حوالے سے ان کی کنٹریبیوشن صفر ہے۔ریسرچرز کیا کر رہے ہیں؟
لاک ڈاون کی ڈیڈ لائن بھی قریب قریب ہے۔کیا مزید توسیع ہوگی اب تک کوئی متفقہ ردعمل سامنے نہیں آیا۔ گیلپ سروے کے مطابق 43 فیصد پاکستانیوں نے خود کو کرونا وائرس سے بچانے کے لیے احتیاطی  اقدامات نہیں اٹھائے ۔یہ سروے دنیا بھر میں 28 ممالک میں کیا گیا ان سب سے زیادہ تعداد پاکستانیوں کی ہے جنھوں نے لاپرواہی کا مظاہرہ کیا ہے۔اور 43 فی صد  نے کرونا وائرس سے بچنے کے لیے کوئی احتیاطی تدابیر ہی نہیں اپنائی۔
اس عدم سنجیدگی کی بنیادی وجہ awareness نہیں ہے۔لوگ اچھی طرح سے اس وبا  کو سمجھ ہی نہیں پائے۔ معاملات ہر طرح سے تتر بتر نظر آتے ہیں۔ٹائیگر فورس کو لے کر اپوزیشن کی حکومت پہ تنقید جاری  ہے اپوزیشن کا کہنا ہے کہ ٹائیگر فورس کے بجائے بلدیاتی اداروں کو بحال کرنا چاہیے۔ وہ احسن طریق سے ایسے معاملات کو نبٹا سکتی ہیں۔
جب حکومت کا اپنا رویہ اپوزیشن   کے ساتھ  ہمہ وقت تنقیدی ہوگا تو اپوزیشن بھی ویسا ہی رویہ اپنائے گی۔اس گھمبیر صورتحال کے باوجود سیاسی اتفاقِ رائے کا فقدان ہے حکومت اور حزب اختلاف کو چاہیے  بلاوجہ تنقید سے اجتناب کریں۔ آپ کے اس فعل سے عوام میں خلفشار پیدا ہو رہا ہے۔متفقہ بیانیہ اور لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔ہمارے ہاں الزامات کی بھر مار ہر ایک اپنے تئیں گنگا نہاں ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ  دنیا کے دیگر ممالک اس وبا کے خلاف تمام سیاسی اختلافات بھلا کر وبا کی بیخ کنی کے لیے کوشاں ہیں۔