فیچرزہفتہ بھر کی مقبول ترین

کورونا وائرس: سیکس ورکر بازاروں سے غائب، آن لائن تک محدود

Share

زیادہ تر سیکس ورکرز اپنے کسٹمرز سے ذاتی طور پر ملاقات کرتے ہیں تاہم کورونا وائرس ان کے لیے کسی معاشی تباہی سے کم نہیں۔

لندن میں سیکس کے کاروبار سے منسلک گاڈیس کلیو کہتی ہیں: ’یہ وائرس اپنے گاہکوں کا سامنا کرنے والے کاروباوں کے لیے تباہی ہے۔‘

’میری زیادہ تر آمدنی ون آن ون سیشن اور تقریبات سے ہوتی ہے، میں آن لائن بہت تھوڑے پیسے کماتی ہوں۔‘

لیکن بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح لاک ڈاؤن کے بعد کلیو نے اپنی توجہ ڈیجیٹل پر مرکوز کر دی ہے۔

آن لائن کام کرنے والی ایک سیکس ورکر ایوا دی ول کہتی ہیں: ’ابھی بہت سی نئی لڑکیاں شامل ہو رہی ہیں یا آف لائن کام کرنے والی سیکس ورکرز اپنے اخراجات پورا کرنے کے لیے آن لائن آ رہی ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں: ’کیمرے پر کام کرنے والی میری جیسی لڑکیوں کے لیے کورونا وائرس کے مطابق خود کو ڈھالنا کوئی اتنا مشکل نہیں۔ ہم آن لائن اور گھر سے کام کرنے کی عادی ہیں۔‘

ٹویٹ کا عکس
کچھ عورتیں اس لیے بھی آن لائن نھیں جانا چاہتیں کیونکہ اس سے ان کے گھر والوں کو بھی ان کے کام کے بارے میں علم ہونے کا خطرہ ہے

اتنا آسان بھی نہیں

لیکن بہت سے سیکس ورکرز کے لیے آن لائن منتقل ہونا کوئی آسان حل نہیں۔

برطانیہ میں سیکس کے کاروبار سے منسلک گریسری نے ٹوئٹر پر لکھا: ’ایسا نہیں کہ آپ آن لائن صرف نپل (پستان کا سرا) دکھا کر بڑی رقم کما لیتے ہیں۔‘

’آن لائن اپنے فالوورز بنانے اور انھیں اپنا بنایا ہوا مواد فروخت کرنے میں عرصہ لگ جاتا ہے۔‘

آن لائن پلیٹ فارم کو استعمال کرنے کا مطلب ہے کہ ان کی کمائی میں کچھ کمی ہو جائے گی اور سامان جیسے کہ ٹرائی پوڈ، مناسب روشنی، جنسی کھلونے وغیرہ خریدنے کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ لاک ڈاؤن کے دوران ان کو حاصل کرنا بھی مشکل ہو سکتا ہے۔

گریسری کا کہنا ہے:’اس مارکیٹنگ میں بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہوتی ہے، یہ غیر حقیقی ہے۔‘

’میں اتنی بہادر نہیں کہ آن لائن برہنہ ہو جاؤں اور لوگوں کی تنقید کا سامنا کروں۔‘

’کیمرے کے سامنے جو جذباتی محنت کی جاتی ہے وہ غیر حقیقی ہے۔۔۔ مسلسل بات کرنا اور خوشگوار موڈ میں رہنا۔‘

رازداری ایک اور باعث تشویش معاملہ ہے۔

آن لائن کسی کی شناخت چھپانا بہت مشکل ہے اور ویڈیو مواد چوری بھی کیا جا سکتا ہے۔

مثال کے طور پر فروری میں، لندن کی سوشل میڈیا ایپ OnlyFans پر تقریباً 1.5TB کی ویڈیوز اور تصاویر لیک ہوئیں۔

برطانیہ کی سیکس ورکر لیزی کا کہنا ہے کہ وبائی بیماری شروع ہونے کے بعد سے کیمرے کے سامنے مقابلہ اور زیادہ ہو گیا ہے۔

اور دنیا کی سب سے بڑی ’کیمنگ‘ ویب سائٹوں کے اعداد و شمار بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔

ویب سائٹ سٹرپ چیٹ (جہاں لوگ براہ راست سیکس دیکھنے کی فیس بھرتے ہیں) کے میکس بینیٹ کہتے ہیں: ’بالغوں کی پرفارمنس لائیو کیمروں کی جانب جا رہی ہے کیونکہ روایتی مارکیٹس بند ہیں۔‘

امریکہ کی لائیو سٹریمنگ سائٹ چیٹوربیٹ کے مطابق وبا شروع ہونے کے بعد سیکس ورکرز کی تعداد میں 75 فیصد اضافہ ہوا ہے اور اس شرح میں تیزی اسے دیکھنے والوں کی تعداد میں اضافے سے زیادہ ہے۔

میکس کہتے ہیں: ’ہم دنیا بھر میں بدلتی ٹریفک کو دیکھ رہے ہیں خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں لاک ڈاؤن ہے۔‘

’تنہا رہنے والوں کا ہم زیادہ رش دیکھ رہے ہیں۔‘

’لیکن گھروں میں یا خاندان کے ساتھ رہنے والوں کے لیے صورتحال پیچیدہ ہے۔‘

اپنی مانگ بڑھانے کے لیے آن لائن سیکس ورکرز خصوصی اقدامات بھی کر رہے ہیں۔

ایوا کہتی ہیں: ’میں نے بہت سی لڑکیوں کو ڈسکاؤنٹ یا رعایت دیتے بھی دیکھا ہے۔‘

عورت

’ہمیں (صارفین کی) آمدنی میں کمی کا احساس ہے اگرچہ مجھے ابھی تک اخراجات میں کمی کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔‘

کیمنگ ویب سائٹس بھی اس حوالے سے کام کر رہی ہیں۔

مثال کے طور پر سٹرپ چیٹ اپنے نئے ناظرین کو دنیا بھر میں سینکڑوں مفت ٹوکن دے رہا ہے جو کہ ہر وصول کنندہ کے لیے کسی سیکس ورکر کو دس منٹ کے نجی سیشن کی ادائیگی کے لیے کافی ہے۔

میکس کہتے ہیں: ’مرکزی بینک کی حیثیت سے کام کر کے، ہم رقم کی فراہمی میں اضافہ کر سکتے ہیں اور اداکاروں کی نئی لہر کو بحران سے بچنے میں مدد کرسکتے ہیں۔‘

’ہم نے اپنے اطالوی ماڈلز کی ادائیگی کو دگنا کر دیا ہے۔‘

’ایک ماہ میں 60 ملین سے زیادہ افراد کے سماجی نیٹ ورک کے طور پر، صارفین کو سڑکوں سے دور رکھنے (مدد کرنے) کے لیے ہمارے پاس زبردست پلیٹ فارم ہے۔‘

’کوئی چارہ نہیں‘

لیکن کچھ سیکس ورکرز کو آن لائن منتقل ہونے میں بہت زیادہ اخراجات اور چیلنجز کا سامنا ہے۔

لیزے کہتی ہیں: ’ابھی بھی کچھ سیکس ورکرز ایسی ہیں جو اپنے گاہکوں سے ذاتی طور پر ملاقات کر رہی ہیں کیونکہ ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔‘

’وبائی مرض کے دوران اپنی اور دوسروں کی صحت کو خطرے میں ڈالنا اور زندگی گزارنے کے لیے رقم کا حصول کرنے میں کسی ایک کا انتخاب کرنا مضحکہ خیز ہے۔‘

ان سیکس ورکرز کے لیے کیے کچھ مدد بھی دستیاب ہے۔

ایشیا اور تارکین وطن جنسی ورکر کے سپورٹ نیٹ ورک ’بٹرفلائی‘ نے ایک کوویڈ 19 گائیڈ شائع کی ہے جس میں دوسری احتیاطی تدابیر کے علاوہ ایسی جنسی پوزیشنز بھی تجویز کی گئی ہیں جن میں چہرے سے کم سے کم رابطہ شامل ہے۔

لیکن اس صنعت کی نوعیت کی وجہ سے یہاں کام کرنے والے افراد کا سرکاری سکیموں میں شامل ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔

ٹویٹ کا عکس
کچھ لوگوں کو یہ تشویش بھی ہے کہ آن لائن ان کی آمدنی پہلے کے مقابلے میں بہت کم ہو گی

انگلینڈ، ویلز اورسکاٹ لینڈ میں جسم فروشی غیر قانونی نہیں اگرچہ شمالی آئرلینڈ میں سیکس کی ادائیگی غیر قانونی ہے لیکن یہ کاروبار اکثر نقد رقم کی صورت میں ہوتا ہے اور اس کا کوئی ریکارڈ بھی نہیں ہوتا۔

امریکہ میں کوویڈ 19 کے بیل آؤٹ بل سے قانونی طور پر کام کرنے والے سیکس ورکرز کو خارج کردیا گیا ہے۔

انگلینڈ میں سیکس ورکرز کے حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ انگلش کولیکٹو آف پراسیٹیوشن (English Collective of Prostitutes) کے مطابق بہت سی سیکس ورکرز سنگل مدرز ہیں جو پہلے ہی کفایت شعاری کے اقدامات سے غریب تر ہو گئیں ہیں اور اب کورونا وائرس ان کی صورتحال کو مزید خراب کر رہا ہے۔

ان خدشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے آن لائن کیے جانے والے سینکڑوں اقدامات دنیا بھر میں پھیل چکے ہیں، جیسا کہ برطانیہ میں سیکس ورکرز کے ایک گروپ سوارم (Swarm) نے کوویڈ 19 فنڈ قائم کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ اس سے 234 ضرورت مند سیکس ورکرز کی مدد کر چکے ہیں۔

گاڈیس کلیو کہتی کہ اس کا طویل المیعاد حل سیکس ورکرز کے لیے بہترحکومتی مدد میں ہے۔

وہ کہتی ہیں: ’جب سیکس کے کام کو اصل کام سمجھا جاتا ہے اور مکمل طور پر قانونی ہے تو سیکس ورکرز کو بھی دوسرے ملازمین کی طرح ہی انسانی حقوق تک رسائی حاصل ہونی چاہیے۔‘