کالم

جرمنی میں کورونا اور قرنطینہ کا سفر

Share

“سید انور ظہیر رہبر، برلن،جرمنی”
جرمنی میں بھی پوری دنیا کی طرح کورونا وائرس کے نتیجے میں پھیپھڑوں کی بیماری COVID-19نے عوامی زندگی پر مضبوط گرفت جما رکھی ہے۔ دکانیں بند ہیں، کھیل کے میدان سنسان ہیں، میوزیم، ریستوراں اور سوئمنگ پولز میں داخلہ منع ہے۔ بہت سی کمپنیوں نے اپنے ملازمین کو ان کو گھر میں ہی آفس بنا کر بٹھا دیا ہے۔ جرمنی کی مشہور و معروف کاروں کی کمپنی وی ڈبلیو نے عارضی طورپر پیداوار بند کردی ہے۔ لاکھوں اسکول کے بچے اب گھر میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ تمام سرحدیں بند کردی گئی ہیں، یہاں تک ایک صوبے سے دوسرے صوبے کے درمیان بھی آمدو رفت بند کردی گئی ہے۔ بس سروس جو ایک شہر کو دوسرے شہر سے ملاتی تھی معطل ہے۔ ٹرین اور ہوائی جہاز کی سروس کو بھی محدود کردیا گیا ہے۔ بیشتر ممالک سے تمام فضائی راستے محدود ہوچکے ہیں۔ گرمیوں میں سب سے زیادہ سفر کرنے والی جرمن قوم کی گرمیوں کی چھٹیوں کے سفر کو ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ پورا ملک بند ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کمپیوٹر کے کسی کھیل میں کسی نے اسٹاپ کا بٹن دبادیا ہے اور سب کچھ کمپیوٹر اسکرین پر ساکت ہوگیا ہے۔ لیکن بات اب کمپیوٹر سے نکل کر حقیقت کا روپ دھارچکی ہے۔

اس بیماری کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے لیے پہلے ہی اٹلی، آسٹریا، چین اور نیویارک جیسے کرونا وائیرس کے بڑے خطرے والے علاقوں سے واپس آنے والوں کو گھر کے قرنطینہ میں بھیج دیا گیا تھا۔ مریضوں کو تو قرنطینہ میں بھیجا ہی گیا لیکن ساتھ ساتھ ان لوگوں کو بھی بھیجا گیا جن کا پہلے کبھی کورونا وائرس سے متاثرہ افراد سے رابطہ ہوا تھا۔

کچھ لوگوں کے لیے گھر کا قرنطینہ کچھ سکون اور فائدہ مند ثابت ہورہا ہے تو بہت زیادہ تعداد ان کی ہے جن پر مایوسی طاری ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ مکمل طور پر تنہا رہنے والے مرد و خواتین کی تنہائی ان کے لیے ایک قید خانے میں تبدیل ہوچکی ہے۔ پہلے وہ اپنی تنہائی کو دور کرنے کے لیے باہر نکل کر باہر کی ہلچل دنیا میں چلے جاتے تھے کچھ نہیں تو پارک میں جوگنگ کرلیتے تھے، یا ریستورانت میں بیٹھ کر کھانا کھالیتے تھے، یا سینما تھیٹر میں وقت گزاری کرلیتے تھے۔ اب اس کی اجازت نہ ہونے کے باعث ان پر بہت یاسیت طاری ہے ا ور اس کے باعث ان کی زندگی میں اس بات کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے کہ یہ ڈیپریشن کا شکارنہ ہوجائیں یا ڈیپریشن کی وجہ سے خود کو کوئی نقصان نہ پہنچا لیں۔

ایک طرف تو بچے بھی گھر میں بند رہ کر تنگ آچکے ہیں اور جو والدین گھر سے آفس کا کام کررہے ہیں وہ بھی، کیو نکہ بچوں کی گھر پر موجودگی کے باعث وہ اپنے فرض منصبی کو درست انداز میں انجام نہیں دے پا رہے ہیں کیونکہ بچوں نے گھر سر پر اٹھایا ہوتا ہے اور انھیں گھر کا کوئی کونا ایسا نہیں مل رہا ہوتا جہاں وہ اپنے منیجرسے سکون سے کام کی بات کرپائیں۔

ایک دوسر ا اور بہت گھمبیر مسئلہ جو اس وقت گھر میں رہنے سے بڑھ رہا ہے وہ گھریلو تشدد ہے۔ میاں بیوی کے درمیان ایک عجیب سا کھینچاو’ہے کیوں کہ دونوں ہی اس کے عادی نہیں ہیں کہ چوبیس گھنٹے ہی ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہیں لیکن ایسا کچھ صرف ان گھروں میں ہورہا ہے یا ہونے کا خطرہ ہے جہاں یہ سب پہلے بھی ہوتا تھا لیکن شاید بہت کم تھا اب چونکہ مستقل ایک دوسرے کے ساتھ ہیں تو یہ متنفر رویہ بڑھتا جارہا ہے۔ یاد رہے کی یہ سب ان گھروں کی کہانی ہے جوسماجی طور پر بہت کمز ور ہیں یا جہاں غربت نے ان ہی وجوہات کی وجہ سے پر پھیلائے ہوئے ہیں۔

لیکن اکثر گھروں کی کہانی بالکل مختلف بھی ہے یہاں لوگ اس لاک ڈاون کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گھر کے وہ سارے کام نپٹا رہے ہیں جو وقت کی کمی کے باعث سالہا سال سے ٹلے چلے آرہے تھے۔

ان ساری مثالوں کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ جب تک انٹرنیٹ کام کررہا ہے یا نیٹ فلکس کی قیمتِ استعمال کی ادائیگی ممکن ہے، یا آن لائین خریداری اور خریدے ہوئے مال کی ترسیل کا کام جاری و ساری ہے یہ سب آسانی سے چلتا رہے گا کیونکہ یہ جدید قرنطینہ پچھلی صدیوں کے قرنطینہ سے بہت مختلف ہے اور اگر ہم اس کا موازنہ کریں تو ہمیں اس میں زمین اور آسمان کا فرق محسوس ہوگا۔

تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ لفظ قرنطینہ پہلی بار 1377 میں ملک کروشیا کے ایک جزیرے جسے اس وقت لاگوزہ اور آج کل ڈوبرو ونک کہا جاتا ہے اس علاقے میں طاعون کی وبا پھیلنے کے بعد استعمال کیا گیاتھا۔ یہ طاعون بھی 1340 میں چین ہی میں پھیلا تھا اور سمندری جہاز کی آمدو رفت نے اسے چین سے اٹھاکر بحرہ اسود کے علاقے تک پہنچادیا۔ وہاں سے اٹلی کے ملاحوں نے اس طاعون کو مغربی یورپ یعنی کروشیا کے جزیرے تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کیا۔

1377 میں لاگوزہ کی ترقی پذیر تجارتی شہر کی کونسل نے اپنی آبادی سے خطرات دور رکھنے کے لئے طاعون کے آلودہ علاقوں سے آنے والے جہازوں کو بندر گاہ میں داخل ہونے سے روکنے کا فیصلہ کیا تھا- اس طرح وبائی امراض کے پھیلاؤ کو روکنے کے ایک موثر ذرائع کی ایجاد ہوئی۔ بیس سال پہلے طاعون کی وجہ سے پورا شہر یا علاقہ مکمل طور پر بند کردیا جاتا تھا۔ اٹلی کے شہر میلان نے اس وقت پورے دو سال تک اپنے دروازے بند رکھے۔ پولینڈ نے اپنی جنوبی سرحد پر طاعون سے حفاظت کے طور پر محافظ بیٹھا دیے تھے۔ تاہم لاگوزہ میں متعارف کرائے گئے اقدامات کے ساتھ تجارت اور سامان کی آمد و رفت جاری رکھی گئی تھی، جو کے اس بندر گاہ شہر کے لئے بہت ضروری تھی۔

غیر ملکی سمندری افرد اور تاجروں کو 30 دن تک قریبی راک جزیرے (اطالوی “اسولا”) میں قید رکھا جاتا تھا۔ اگر وہ بیماری کی علامات ظاہر نہیں کرتے اوراس دوران زندہ رہتے تو پھر ان کے جہاز کو بندرگاہ میں داخل ہونے کی اجازت دی جاتی تھی اور اس طرح تاجر اپنا سامان فروخت کر پاتے تھے۔ اس دوران کسی کو بھی ان کے قریب جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی، صرف کونسل کے ذریعہ کام کرنے والے خاص افراد محصور لوگوں کو کھانا مہیا کرتے تھے۔ لاگوزہ کے شہریوں کو اس قانون کی خلاف ورزی کرنے پر سخت سزا کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور سزا بھی عجیب و غریب ہی تھی۔ یعنی سزا کے طور پر طاعون زدہ افراد کے ساتھ 30 دن تک محصور رہنا۔

انفیکشن سے بچانے کے لئے اسی طرح کے اقدامات ان برسوں کے دوران شہر وینس، پیسا اور جینوا میں بھی متعارف کرائے گئے۔ شہرمارسیل میں 1383 میں قرنطینہ میں رہنے کی آخری تاریخ 40 دن تک بڑھا دی گئی تھی۔ کہنے والے یہ کہتے ہیں کہ 40 یوم بائیبل کے ان دنوں کی تعداد پر مبنی ہے جب موسیٰ علیہ سلام اور عیسیٰ علیہ سلام نے یہ وقت صحرا میں تنہا گزارا تھا۔ تاہم یہ قدیم کہاوت بھی ہے کہ یہ دیکھنا ضروری ہے ایک بیماری آخر کب تک چلتی ہے۔ اسی لیے یہ اصطلاح ” قرنطینہ ” جو آج بھی استعمال کی جا رہی ہے وہ اسی اطالوی ” قرنطینا دی گیرونی” سے لی گئی ہے جس کا دورانیہ “40 دن” تک ہوتا ہے۔

یہاں تک کہ دیگر متعدی بیماریوں جیسے چیچک، سارس، سوائن فلو اور ایبولا کے پھیلنے کے وقت بھی ڈاکٹروں اور سیاستدانوں نے سب سے پہلے قرنطینہ کو ہی اس پھیلاؤ کو روکنے کے لئے استعمال کیا تھا۔ لیکن دوسری طرف اس کا جو منفی پہلو ابھرتا ہے اس میں غیر ملکیوں کو قابو کرنے کا عمل بھی نظر آنے لگتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان وقتوں میں تحفظ اور ہراساں کرنے کا عمل ایک دوسرے کے قریب نظر آتے ہیں۔ دنیا میں اس طرح کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ جب جرمنی کے شہر ہمبرگ میں 1892 میں ہیضہ کی وبا پھیلی تو اس وقت مشرقی یوروپ کے شہریوں کو جو ہمبرگ کے راستے امریکہ ہجرت کرنا چاہتے تھے، کو گرفتار کرلیا گیا اور انہیں قرنطینہ میں بھیج دیا گیا کیونکہ ان پر الزام لگایاگیا تھا کہ اس طاعون کو ہمبرگ شہر تک لانے میں ان کا ہی ہاتھ ہے۔ اسی طرح وبا کے دوران نیو یارک میں تارکین وطن کو ایلس جزیرے پر بھیج دیا گیا تھا جہاں وہ پتھر کے دور جیسے دن برداشت کرتے رہے تھے۔ اسی طرح دوسری جنگ عظیم کے دوران سوئیزرلینڈ نے بھی پناہ کے متلاشیوں کو ملک میں داخلے سے قبل ایک لمبے عرصے تک قرنطینہ کیمپوں میں رہنے پر مجبور کیا تھا۔

ان سب باتوں کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ 1918 میں آنے والے ہسپانوی فلو سے صرف ایک واحد ملک آسٹریلیا تھا، جو اس سے محفوظ رہا کیونکہ اس نے اپنے آپ کو مستقل طور پر قرنطینہ کی مدد سے بچاتا رہا تھا۔ اور دوسری طرف اس وقت دنیا بھر میں 50 ملین افراد اس خطرناک ہسپانوی فلو سے ہلاک ہوئے تھے۔ آج کل کے قرنطینہ کی مدت اب 40 دن نہیں ہوتی ہے جیسا کہ پہلے ہوا کرتا تھا، اب اس کا انحصار اس مرض کے وائیرس کی زندگی کی سائیکل پر ہوتا ہے۔

یہاں یہ بات سمجھ آجاتی ہے کہ وبا سے بچنے کے لیے قرنطینہ میں خود کو محصور کرلینا کتنا ضروری ہے جیسا کہ آج کل کورونا وائرس سے پھلینے والی بیماری کو روکنے کے لیے پوری دنیا ہی محصور ہوچکی ہے۔ کیوں کہ پوری دنیا میں یہ وائیرس مسلسل انسانی جانوں سے کھیل رہا ہے اور اسطرح مرنے والوں کی تعداد میں ہر منٹ میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ یعنی یہ ثابت ہوا کہ خود کو قرنطینہ میں قید کرلینا ہی ایک واحد بچاو’کا راستہ ہے۔

جرمنی میں بھی لوگوں کے گھر سے نکلنے پر پابندی ہے۔ صرف ایک وقت میں دو لوگ ہی اکٹھے باہر جاسکتے ہیں لیکن وہ بھی ضرویات زندگی کی چیزوں کی خریداری کے لیے، ہر اجنبی شخص سے دو میٹر کا فاصلہ رکھنا لازمی ہے۔ دکانوں میں ایک وقت میں پانچ سے سات لوگ ہی اندرجاسکتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ایک لمبی قطار باہر لگی ہوئی ہے۔ دو میٹر کے فاصلے کے باعث قطار کو بھی بڑی جگہ درکار ہے اس لیے لوگ پارکنگ زون میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کرتے نظر آرہے ہیں۔ دوسری چیزیں آپ صرف آن لائن ہی خرید سکتے ہیں۔ پھر ماسک اور دستانے بھی استعمال کے لیے ضروی ہے۔ ہر شخص دوسرے شخص سے خوف ذرہ ہے کہ کہیں وہ کورونا کو تو نہیں لیکر چل رہا ہے۔ عجیب نفسا نفسی کا دور ہے اسی لیے اب یہ سوال زور پکڑ تا جارہا ہے کہ اس طرح کی زندگی کتنے دن اور چلے گی؟

کرسٹیان ڈروسٹن برلن کے سب سے بڑے یوینویرسٹی کلینک چیریٹی کی انسٹی ٹیوٹ کے ایک ماہر وائیرس اور ڈائریکٹر ہیں۔ اپنے ایک حالیہ آن لائن انٹرویو میں کہتے ہیں کہ “ہمیں ایک سال تک معاشرتی طور پر ہنگامی حالت میں گزارنا ہوگا۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اب تک اٹھائے گئے اقدامات بھی اتنے عرصے تک چلتے رہیں گے۔ ڈروسٹن کا کہنا ہے کہ اس کے بجائے آپ اس وقت تک اس قابل ہوجائیں گے اور اپنی زندگی کو اس حالت کے تحت دوبارہ ایڈجسٹ کرلیں گے۔ صورتحال کی نگرانی ایسٹر کے بعد کے ہفتے تک جاری رکھنی ہوگی اور تمام صورت حال کا جائزہ پھر سے لینا ہوگا۔” ڈروسٹن مزید کہتے ہیں بلکہ ڈرارہے ہیں کہ “کسی کو بھی معلوم نہیں ہے کہ ایک سال کی ہنگامی صورتحال کے دوران زندگی کیسی ہوسکتی ہے؟۔ شاید یہ دوسرے کورونا وائرسوں کی طرح ہی ہو، جو صرف نزلہ زکام کا سبب بنتے ہیں۔ ہمیں ان کے ساتھ رہنا پڑے گا، اگر ہم اس وبا سے بچ جاتے ہیں تو پھر وہ ہمارے لئے اتنا خطرناک نہیں ہوگا۔”

ایک دوسرے ماہر کیکولے کا بیان تھوڑا مختلف ہے اور ان کا خیال ہے کہ شاید ہم چھ ہفتے میں اس پر قابو پالیں گے۔ خدا کرے کہ کیکولے
کی امید سچ ثابت ہو اور خداوند پوری دنیا کو آنے والے چند ہفتوں میں اس عذاب سے نجات دلا دے۔ آمین